کراچی میں ایس آئی یو پولیس کی حراست میں 14 سالہ نوجوان کی ہلاکت کے معاملے کے حوالے سے مزید انکشافات سامنے آئے ہیں۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ نوجوان عرفان بدھ 22 اکتوبر کو ہی پولیس حراست میں جاں بحق ہو گیا تھا، پوسٹ مارٹم کے وقت عرفان کی لاش 36 گھنٹے سے زائد پرانی تھی۔
پولیس ذرائع کے مطابق عرفان کو بدھ کی صبح حراست میں لیا گیا تھا، اس کی لاش بدھ کی شام 7 بجے جناح اسپتال پہنچائی گئی، ایم ایل او کی جانب سے پوسٹ مارٹم سے انکار کے بعد اہلکار لاش واپس لے گئے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعرات 23 اکتوبر کو پولیس اہلکاروں نے عرفان کا دوبارہ پوسٹ مارٹم کرانے کی کوشش کی تھی، تاہم اس کا پوسٹ مارٹم آج مجسٹریٹ کی نگرانی میں کیا گیا۔
پولیس ذرائع نے بتایا ہے کہ عرفان کے جسم پر تشدد کے 7 بڑے نشانات پائے گئے، سر پر چوٹ کے نشان تھے، چہرے اور کمر پر بھی تشدد کیا گیا، تاہم اس کی موت کا تعین کیمیکل ایگزامن رپورٹ کے بعد ہو سکے گا۔
واضح رہے کہ اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ (ایس آئی یو) کی حراست میں مبینہ تشدد سے 14 سالہ عرفان نامی نوجوان دم توڑ گیا تھا۔
عرفان کے رشتے دار اظہر ضیاء کے مطابق عرفان کو اس کے دیگر 3 رشتے داروں کے ہمراہ بدھ کی صبح عائشہ منزل سے حراست میں لیا گیا تھا، عرفان احمد پور شرقیہ کا رہائشی تھا اور وہاں پر آنے والے سیلاب کے باعث وہ کراچی میں محنت مزدوری کرنے آیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ حراست میں لیے جانے کے بعد چاروں لڑکوں کے موبائل فون بند کر دیے گئے، اہلِ خانہ مختلف مقامات پر انہیں ڈھونڈتے رہے، جمعرات کی شام کو عرفان کے چچا کو فون کر کے ایس آئی یو کے دفتر بلا کر عرفان کی موت کے بارے میں بتایا گیا۔
اظہر ضیاء کے مطابق بدھ کو ناشتہ کرنے کے بعد عرفان دوستوں کے ساتھ ٹک ٹاک ویڈیو بنا رہا تھا کہ ایس آئی یو اہلکاروں نے مشکوک سمجھ کر انہیں حراست میں لیا، انہیں موبائل میں بٹھا کر گھماتے رہے اور ان پر بیہیمانہ تشدد کیا گیا۔
عرفان کی موت کے بعد پولیس اہلکار اس کی لاش جناح اسپتال لائے اور بتایا کہ اس کی موت دل کے دورے کے باعث واقع ہوئی ہے، باقی 3 لڑکوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور واقعے کے بعد جب انہیں چھوڑا گیا تو ان کی آنکھوں سے پٹی ہٹائی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ عرفان کے والدین بہاولپور میں ہیں، اس کی ہلاکت کی اطلاع ملتے ہی اس کی والدہ کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔
ورثاء نے الزام عائد کیا ہے کہ عرفان ایس آئی یو پولیس کے تشدد سے ہلاک ہوا ہے اور ملوث اہلکاروں کے خلاف قتل کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔
ورثاء نے سی آئی اے سینٹر کے باہر احتجاج بھی کیا اور وزیرِ اعلیٰ سندھ اور آئی جی سے اپیل کی کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائے۔
دوسری جانب واقعے میں ملوث 7 پولیس اہلکاروں کو معطل کیے جانے کی اطلاع ہے۔