یورپ ایک آزاد اور خودمختار سماج کے طور پر جانا جاتا ہے یہ وہ دنیا ہے جہاں عریانی کو برائی نہیں سمجھا جاتا، جہاں مرد و زن دونوں کو اپنی زندگی اپنے انداز سے گزارنے کی مکمل آزادی ہے بظاہر یہ لوگ’’مادّہ پرست‘‘یا ’’ مادر پدرآزاد‘‘ کہلاتے ہیں، صدیاں ان کی تہذیب پر بیت گئیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ انکی آزادی حدود و ضوابط کے دائرے میں ہے۔ یہاں اگرچہ جسم کی نمائش عام ہے، لیکن نیت اور مقصد میں فرق ہے۔ یہ معاشرے اپنے لوگوں کو سکھاتے ہیں کہ خوبصورتی جرم نہیں، مگر بد نیتی گناہ ہے۔جسکی واضح مثال فرانس کے سابق صدر نکولا سرکوزی کو سنائی گئی پانچ سال سزا ہے جس میں اصل الزامات سے بری کردیا گیا مگر نیتی بددیانتی پر سزا سنا دی گئی۔یورپ کے لوگ کھانے پینے، فیشن، آرٹ اور حسن کے مظاہر پر اپنی دولت لٹاتے ہیں، مگر یہاں کوئی عورت مجبوری کے باعث اپنی عصمت بیچنے پر مجبور نہیں ہوتی۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں برائی سرِعام نہیں، بلکہ چند مخصوص اور چھپے ہوئے حلقوں تک محدودہے، اور عوامی سطح پر اس سے نفرت کی جاتی ہے۔اب آئیے اپنے وطن کی طرف،جواپنے قیام کے وقت ایک خواب، ایک اُمید اور ایک نظریے کی علامت تھا۔ مگر آج ہمارا پیارا وطن ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ستم ظریفی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔یہ وہی ملک ہے جو اخوت، مساوات اور عدلِ اجتماعی کی بنیاد پر قائم ہوا تھا، مگر آج ایسے حالات کا شکار ہے کہ عزت دار، سفید پوش طبقہ بھی اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ عصمت و غیرت جیسے الفاظ بھوک کے سامنے بے معنی ہو گئے ہیں۔کبھی یہ سرزمین حیا و غیرت کی پہچان تھی، مگر آج سوشل میڈیا کے دور میں، انسان کے جذبات اور دکھ سب کے سامنے عیاں ہیں، ہم روز ایسے مناظر دیکھتے ہیں جو دل دہلا دیتے ہیں۔جہاں عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں عزت و احترام حاصل تھا، وہاں آج ستم یہ ہے کہ سفید پوش لوگ، جو کبھی خودداری کی علامت تھے، بھوک، افلاس اور بیروزگاری کے ہاتھوں اس مقام تک پہنچ چکے ہیں کہ عزتِ نفس اور پیٹ کی جنگ میں اپنی حرمت قربان کر رہے ہیں ۔جس سے بہت سوال جنم لے رہے ہیں ۔یہ خواتین غلط کر رہی ہیں یا صحیح؛ اصل سوال یہ ہے کہ وہ اس نہج پر پہنچی کیوں ہیں؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ریاست نے ان کا سہارا بننے کی کوشش نہیں کی ؟ معاشرہ انکے دکھ کو سمجھ سکا یا ہم سب نے اپنی آنکھوں پر غفلت کی پٹی باندھ لی ہے،یہ صورتحال محض انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی بیماری کی علامت ہے۔ جہاں حکومتیں صرف اقتدار کی سیاست میں الجھ جائیں، جب تعلیم کا مقصد کردار سازی کے بجائے صرف ڈگری حاصل کرنا رہ جائے، جب مذہب کو اخلاقی تربیت کے بجائے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کیا جانے لگے تو ایسے ہی مناظر جنم لیتے ہیں۔آج ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم نے یہ معاشرہ خود کیسا بنا لیا ہے۔سوشل میڈیا پر رحم اور تفریح کا فرق مٹ چکا ہے۔ غربت اب المیہ نہیں بلکہ’’مواد‘‘بن گئی ہے۔ ہم دوسروں کے دکھوں پر لائکس دیتے ہیں، مگر مدد کیلئےہاتھ نہیں بڑھاتے۔ حالانکہ اب بھی نیک کاموں کیلئے لوگ دل کھول کر خرچ کرتے ہیں مگربے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ وہ مائیں، جو دعاؤں اور منتوں کے بعد اولاد پاتی ہیں، وہی مائیں روز انسانی اسمگلنگ کے المناک واقعات سننے کے باوجود اپنے لختِ جگرکو لاکھوں روپے دے کر بیرونِ ملک روزگار کیلئے بھیجنے پر مجبور ہیں ۔اگر سوشل میڈیا پر نظر دوڑائیں تو دل دہل جاتا ہے۔ کہیں ایک خاتون کہتی ہے:’’خاوند نے چھوڑ دیا ہے، کوئی میرا سہارا بن جائے۔‘‘کہیں ایک ماں فریاد کرتی ہے:’’بچوں کیلئے کھانے کو کچھ نہیں، مدد کیجیے‘‘اور کہیں ایک خوش لباس عورت اپنی ویڈیو میں کہتی ہے: ’’میں شادی کے قابل ہوں، کوئی ہے جو میری زندگی سنوار دے؟‘‘یہ جملے دراصل چیخیں ہیں بھوک، محرومی اور بے بسی کی چیخیں،یہ چیخیں صرف ان عورتوں کی نہیں، بلکہ پورے نظام کی ناکامی کی علامت ہیں۔ ایک عرصہ سے اس ملک میں جہاں سیاست میں اقتدار کی کرسی مقدس بن چکی ہے، انسان کی عزت رسوا ہو رہی ہے۔ مذہب کو نعروں میں بلند کیا جاتا ہے، مگرمذہبی اصولوں پر عمل نہیں کیا جاتا۔ دولت مندوںکیلئے قانون نرم ہے، اور غریب کیلئے روٹی بھی جرم ہے۔سوال یہ نہیں کہ یہ خواتین ایسا کیوں کر رہی ہیں؛ سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کرنے پر مجبور کیوں ہوئیں؟کیا ریاست نے انہیں سہارا دیا؟کیا معاشرہ انکے ساتھ کھڑا ہوا؟ فرانس میں تو حمل کی تصدیق شدہ تاریخ پروالدہ کو بچے کا خرچہ ملنا شروع ہوجاتا ہے جو اٹھار ہ سال تک ملتا رہتا ہے مگر افسوس کہ جس معاشرے میں’’حیا‘‘کو ایمان کہا گیا، وہاں بے حسی نے ایمان کو نگل لیا۔جہاں عزت دار لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، اور بے حس لوگ عیش میں ڈوبے ہیں۔آج پاکستان کو صرف معیشت نہیں، بلکہ اخلاقیات کی بحالی کی بھی ضرورت ہے۔یہ ملک تبھی سنور سکتا ہے جب عزت، غیرت اور انسانیت کو دوبارہ ان کا اصل مقام دیا جائےگا۔جب ہم دوسروں کے دکھ کو تفریح نہیں، بلکہ فریضۂ ہمدردی سمجھیں گے۔جب سوشل میڈیا مدد کا ذریعہ بنے، تماشہ گاہ نہیں۔اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔اگر ہم واقعی ایک جمہوری اور اسلامی معاشرہ بننا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے نظامِ عدل، معیشت اور اخلاقیات کو از سرِ نو تعمیر کرنا ہوگا۔عزت اور غیرت کو صرف الفاظ نہیں، بلکہ عمل کا حصہ بنانا ہوگا۔کیونکہ اگر حالات اسی طرح چلتے رہے تو’’سفیدپوشی‘‘ محض ایک یادگارِ ماضی بن جائے گی،اور’’عصمت‘‘ایک بھولی ہوئی داستان۔