• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ بڑی ظالم شے ہے۔ تاریخ سے سبق نہ سیکھا جائے تو اپنے آپکو بار بار دہراتی ہے اور اس انداز میں دہراتی ہے کہ سبق نہ سیکھنے والوں کا جغرافیہ تبدیل کر دیتی ہے ۔ آج مجھے آزاد کشمیر کی تاریخ میں موجود کچھ گستاخیاں آپکے سامنے پیش کرنی ہیں جو یقیناً آپکی طبیعت پر گراں گزرے گی لیکن میرا مقصد صرف آپکو خبردار کرنا ہے تاکہ آپ ایسی غلطیاں نہ کریں جو آزاد کشمیر کو بلوچستان اور خیبرپختونخوا بنا سکتی ہیں۔ شاید آپ نہیں جانتے کہ آزاد کشمیر میں وہ سب پہلے ہو چکا ہے جو آج بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہو رہا ہے ۔ آزاد کشمیر کی تاریخ سے نا واقف پاکستان کے ارباب اختیار بار بار پرانی غلطیاں دہرانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اسی لئے اُنہوں نے ایک عدد تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ اپنی اُن غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش شروع کردی ہے جنکا نتیجہ ایک احتجاجی تحریک کی صورت میں نکلا- ان ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ آزادکشمیر میں چار سال میں چوتھا وزیر اعظم لاکر آپ اُن سیاسی کرداروں کیخلاف نفرت میں مزید اضافہ کرینگے جو پہلے ہی عوام کی نفرت کا شکار ہیں۔ اس تحریک عدم اعتماد میں سیاسی وفاداریاں فروخت کرنیوالے نہ تو اپنے لئے عزت کما سکیں گے اور نہ ہی آزاد کشمیر کے لوگوں کو پاکستان کی عزت کرنیکا کوئی نیا جواز مہیا کر سکیں گے ۔ آزاد کشمیر والوں کا سیاسی مزاج مقبوضہ جموں و کشمیر والوں سے ملتا جلتا ہے ۔کشمیریوں کی تحریک آزادی پاکستان سے زیادہ پرانی ہے ۔ آجکل پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حکمران اشرافیہ پنجابی قوم پرستی کے شوق میں مبتلا ہو کر رنجیت سنگھ کو اپنا هہیرو قرار دیتی ہے ۔اس حکمران اشرافیہ کو یہ کون بتائے کہ گستاخ کشمیری بھگت سنگھ جیسے حریت پسند کو تو اپنا ہیرو بنا سکتے ہیں لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ کے پرستار نہیں بن سکتے کیونکہ 1819ء میں رنجیت سنگھ کی فوج نے کشمیر پر حملہ کیا تو سکھ فوج کے مظالم کیخلاف پونچھ اور مظفر آباد میں بغاوت ہو گئی تھی۔ 1837ء میں زبردست خان نے مظفر آباد میں اپنی باغی حکومت قائم کرنے کا اعلان کر دیا تھا ۔ 1846ء میں انگریزوں نے جموں و کشمیر کو راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کر دیا تھا ۔ گلاب سنگھ کیخلاف پونچھ کے سردار شمس خان ملایال ، سبز علی خان اور ملی خان کی مزاحمت کشمیریوں کی تاریخ کا ایک قابل فخر باب ہے۔ منگ میں وہ درخت آج بھی موجود ہے جس پر سبز علی خان اور ملی خان کی لاشیں لٹکائی گئیں- 1929 ء میں پونچھ میں ایک اور بغاوت سردار فتح محمد خان کریلوی نے منظم کی تھی جو لاہور جاکر علامہ اقبال سے رہنمائی لیتے تھے ۔ 13جولائی 1931ء کو سرینگر میں ڈوگرہ پولیس نے 22مسلمانوں کو شہید کیا اور اسی واقعے کیخلاف 14اگست 1931ء کو علامہ اقبال نے لاہور میں جلسہ کیا اور کشمیر کی تحریک آزادی کا اعلان کیا ۔ 14اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آگیا اور 24اکتوبر 1947ء کو آزاد کشمیر کی ایک عبوری حکومت قائم کر دی گئی جسکا سربراہ سردار ابراہیم خان کو بنایا گیا۔اس حکومت کا اصل مقصد بھارت کے قبضے میں موجود علاقوں کو آزاد کرانا تھا لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے آزاد کشمیر میں پاور پالیٹکس کا ایک گندا کھیل شروع کردیا ۔ مسلم کانفرنس کے سربراہ چوہدری غلام عباس اور سردار ابراہیم خان نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا ۔ سردار ابراہیم خان کی حکومت ختم کر دی گئی- 1950 ء میں سردار ابراہیم خان کی حکومت کی بحالی کیلئے آزادکشمیر میں ایک پر تشدد تحریک شروع ہو گئی۔ باغ میں ایک متوازی حکومت قائم کردی گئی جبکہ اصل حکومت کے دفتروں کو تالے لگا دیئے گئے۔ مسلم کانفرنس تقسیم ہو گئی ۔لیاقت علی خان نے آزاد کشمیر میں متوازی حکومت قائم کرنیوالوں کو کچلنے کیلئے راولاکوٹ میں فوجی آپریشن کیا۔ عوام اور فوج آمنے سامنے آ گئے ۔ تین دن تک فوج اور سدھن قبائل میں لڑائی ہوئی جس کا ذکر جسٹس یوسف صراف کی ’’تاریخ کشمیر ‘‘سمیت کئی کتابوں میں ملتا ہے ۔ حال ہی میں شائع ہونیوالی ایک اور کتاب’’آزادی کے بعد‘‘ میں دانش ارشاد لکھتے ہیں کہ1952 ء میں پونچھ والوں نے’’مالیہ نہ دو‘‘ تحریک چلا دی ۔ اس تحریک میں پولیس کے ہتھیار چھین لئے گئے۔ یہ سول نافرمانی کی تحریک بن گئی اور خان محمد خان المعروف خان آف منگ نے ایک دفعہ پھر اپنی متوازی حکومت قائم کرلی۔ اس مرتبہ حکومت پاکستان نے فوج کی بجائے پنجاب کانسٹیبلری کو پلندری ، منگ، ملوٹ اور حویلی کے علاقوں میں بھیجا تو مقامی پولیس نے خان آف منگ کی حمایت کر دی ۔ خان آف منگ نے ڈی سی کو گرفتار کر لیا اور جیلوں سے تمام قیدی رہا کروا لئے ۔ ایک دفعہ پھر فوج بلانا پڑ گئی اور خان آف منگ لائن آف کنٹرول عبور کر کے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کی طرف چلے گئے۔ بھارت نے انہیں تعاون کی پیشکش کی جسے انھوں نے ٹھکرا دیا۔ انہیں واپس آنا پڑا اور وہ گرفتار ہو گئے ۔میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا کی کتاب ’’بمبے سے جی ایچ کیو تک‘‘ میں پونچھ کے فوجی آپریشن کی کافی تفصیل موجود ہے ۔ 1957ء میں سردار ابراہیم خان کو دوبارہ حکومت ملی تو پونچھ کے حالات معمول پر آئے۔ اس زمانے میں میرپور کے لوگوں نے منگلا ڈیم نامنظور تحریک شروع کردی - ایک دفعہ پھر کشمیریوں کیخلاف طاقت کا استعمال ہوا لیکن 1962 ء میں جنرل ایوب خان منگلا ڈیم کا سنگ بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو گئے ۔ 1981ء میں پانی مہنگا کرنے پر میر پور بار ایسوسی ایشن نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی ۔ یہ تحریک پورے آزاد کشمیر میں پھیل گئی۔2022ء میں بجلی کے نرخوں میں اضافے کیخلاف ایک اور تحریک شروع ہو گئی۔ اس تحریک میں جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی سامنے آئی۔ چوہدری انوار الحق کی حکومت نے طاقت کے ذریعہ اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی اور ناکام رہے ۔ پاکستانی ریاست کے فنڈز سے سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلانے والوں نے عوامی حقوق کی اس تحریک پر بھارت کا لیبل لگانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے ۔ حکومت نے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کیا لیکن عملدرآمد سے گریز کیا لہٰذا یہ تحریک 5فروری2024 ء کو دوبارہ بھڑک اٹھی۔ ایک دفعہ پھر مذاکرات کے ذریعہ تحریک کو ٹھنڈا کیا گیا۔ مطالبات پورے نہ ہونے پر 2025ء میں یہ تحریک زیادہ شدت سے اُبھری۔ اب تیسری دفعہ مذاکرات کے ذریعہ اس تحریک کو بریک لگا یا گیا ہے ۔ پاکستان کے ارباب اختیار کا خیال ہے کہ آزاد کشمیر کے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو ختم کرنے کیلئے چوہدری انوار الحق کو ہٹانا ضروری ہو چکا ہے ۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ چوہدری انوار الحق آزاد کشمیر کا انتہائی غیر مقبول وزیر اعظم تھا لیکن وہ تو اس سسٹم کا ایک چہرہ ہے جو کئی دہائیوں سے آزاد کشمیر پر مسلط ہے۔ اس سسٹم کیخلاف کبھی پونچھ ، کبھی میر پور اور کبھی مظفر آباد میں بغاوت ہوتی رہی ہے ۔ آزاد کشمیر کو اسلام آباد سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ چلانے والا یہ سسٹم کشمیری نوجوانوں میں بے چینی کی اصل وجہ ہے ۔ کشمیریوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خان آف منگ کی طرح بھارت کیساتھ گٹھ جوڑ سے نفرت کرتے ہیں لیکن یہ مجبوری اُنکی کمزوری نہیں بن سکتی۔وہ جب چاہیں سڑکوں پر آکر ریاستی ناانصافی سے ٹکرانے کی جرات رکھتے ہیں۔ انہیں ایک نئے وزیر اعظم کی نہیں ایک نئے سسٹم کی ضرورت ہے۔ وہ سسٹم جس کا وعدہ قائد اعظم نے کیا تھا ۔ وہ سسٹم جو آزادی، انصاف اور جمہوریت کے اصولوں پر چلایا جائے۔ آزاد کشمیر کو لوٹا کریسی کی نہیں ڈیموکریسی کی ضرورت ہے ۔ صرف آزاد کشمیر ہی نہیں بلکہ بلوچستان، خیبرپختونخوا ، سندھ، پنجاب اور گلگت بلتستان کے تمام مسائل کا حل صاف اور شفاف انتخابات ہیں۔مجھے پتہ ہے ارباب اختیار کو صاف اور شفاف انتخابات کی بات اچھی نہیں لگتی لیکن میں نے آزاد کشمیر کی تاریخ کے کچھ واقعات آپکے سامنے رکھ کر اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ پاکستان سے محبت کے نام پر آپ کشمیریوں کیساتھ بار بار وعدہ خلافیاں نہیں کر سکتے ۔ کشمیریوں کا پاکستان کیساتھ رشتہ مضبوط کرنے کا واحد راستہ آزاد کشمیر اور پاکستان کو صاف و شفاف انتخابات کے ذریعہ اپنی نمائندہ حکومت قائم کرنیکا موقع دینا ہے۔ گستاخ کشمیری رنجیت سنگھ سے اپنی کھال کھنچوا لیتے ہیں لیکن ظلم کیخلاف مزاحمت سے باز نہیں آتے۔

تازہ ترین