• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی سرحدوں سے ملحق وسیع پٹی پر کچے ( یاکچہ) کا علاقہ اگرچہ ماضی بعید سے ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کی آماجگاہ کے طور پر متعارف ہے اور اس کی زمینی ساخت کی وجہ سے اس کے بارے میں بعض پر اسرارکہانیاں بھی گردش کرتی رہی ہیں مگر حقائق یہ ہیں کہ دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر واقع علاقے بعض مجرمانہ سرگرمیوں کے حوالے سے صدیوں سے حکومتوں کی کم یا زیادہ توجہ اپنی جانب مبذول کراتے رہے ہیں۔تاہم حال ہی میں شکارپور میں 70 سے زیادہ ڈاکوؤں کے ہتھیار ڈالنے کی ایک تقریب کی کیفیت ماضی کے بعض آپریشنوں اور ڈاکوؤں کو راہ راست پر لانے کی کوششوں سے کچھ مختلف محسوس ہوئی۔ جبکہ پنجاب میں سڑکوں کے ذریعے سفر کرنے والوں کیلئے موٹر وے ایم فائیو پر رات کے وقت حفاظتی قافلوں کے بندوبست سمیت بعض اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر علاقے کے حالات وکیفیات کے لحاظ سے موثر اقدامات نہ صرف وقت کی ضرورت ہیں بلکہ مختلف حکمت عملیاں بروئے کارلائی بھی جارہی ہیں۔ اس وقت، کہ وطن عزیز کو فتنہ خوارج اور فتنہ ہند کے حوالے سے چیلنجوں کا سامنا ہے، ہر اعتبار سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔اس وقت ہمارے پیش نظر’’ کچہ‘‘ کہلانے والے علاقے کے حوالے سے کی جانے والی جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی کی وہ کاوشیں ہیں جو اس علاقے کی جغرافیائی کیفیت کے باعث ماضی بعید سے مشکل سمجھی جاتی رہی ہیں۔ پاکستانی ریاست اور اس کے عوام جس عزم کے ساتھ ہر قسم کے چیلنجوں سے نبرد آزما ہورہے ہیں اور رب جلیل کے کرم سے دفاعی، سفارتی، معاشی، سماجی میدانوں میں واضح کامیابیوں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، اسی طرح کچے کے علاقے یا کچہ کہلانے والے علاقے سے سامنے آنے والے مسائل سے نمٹنے کی سمت بھی پیشرفتیں سامنے آرہی ہیں۔

مغلوں کے دور میں کچے کے علاقوں میں مستقل انتظامی کنٹرول ممکن نہ تھا تاہم سرکاری اہل کار کبھی کبھار گھوڑوں پر سوار آکر ان علاقوں کی صورت حال کی سن گن لیتے رہتےتھے۔ برطانوی دورمیں پہلی بار ان علاقوں کے نقشے بنے، سروےہوئے اور تھانے قائم کئے گئے مگر زمین کی ساخت نے نہ انگریزوں کے دور میں ان علاقوں میں قانون کی موثر عمل داری قائم ہونے دی نہ بعد میں عملی طور پر ایسا نظر آیا۔ کچی ( یعنی پکے پن سے عاری) نرم زمین پر مبنی یہ پٹی ’’کچہ‘‘ کا علاقہ اسی لئے کہی جاتی ہے کہ اس کی ماہیئت بدلتی رہتی ہے۔ سیلاب اور بارشوں کے زمانے میں بعض علاقے زیر آب چلے جاتے ہیں۔ بعد ازاں پانی اترتا ہے توکہیں جزیرے نمودار ہوجاتے ہیں، کہیں کوئی اور نقشہ نظر آتا ہے۔مٹی کے کٹاؤ اور پانی میں ڈوبتے ابھرتے جنگلات کی صورت گری اس علاقے کی ہیئت بدل کررکھ دیتی ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں Riverine belt کہلانے والے اس علاقے میں ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ افراد کے چھپ جانے کی اطلاعات پر برطانوی حکومت نے خصوصی ریورائن پولیس قائم کی مگر دریا کے بہاؤ اور جنگلات کے باعث مکمل کنٹرول ممکن نہ ہوا۔ یہ صورت حال اب تک جاری ہے، ڈاکو اور جرائم پیشہ افراد یہاں چھپتے رہے۔ سیاسی یا ذاتی دشمنیوں کی بناپر روپوشی اختیار کرنے والوں نے بھی اس علاقے کو اپنی پناہ گاہ بنالیا۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کچے کے علاقے میں رہنے والے بیشتر افراد زراعت، مویشی بانی، کشتی رانی یا شہروں میں جاکر روزگار کرنے والوں کی ہے مگر باہر سے آکر ان علاقوں کو اپنا مسکن بنانے والی اقلیت نے اسلحے کے بل پر لوٹ مار کی وارداتوں، اغوا برائے تاوان ، قتل وغارت، منشیات اور ہتھیاروں کے پھیلاؤ،غیر قانونی اشیاء کی اسمگلنگ کا غیر رسمی راستہ دینے سمیت ہر قسم کے جرائم میں ملوث ہوکر ایسی صورت حال پیدا کردی کہ1980ء کی دہائی سے لیکر بار بار کئے جانے والے چھوٹے بڑے آپریشنوں کے باوجود ڈاکو ختم نہ ہوسکے۔ اس کے برعکس ڈاکواینٹ ائرکرافٹ گناور راکٹ لانچر سمیت جدید آلات، کشتیوں، موٹر بوٹس سے لیس ہوتے رہے۔ایک طرف زمینداروں، سرکاری افسروں،تاجروں سمیت مختلف شعبوں کے باحیثیت افراد کے ساتھ امام مسجد جیسے لوگوں کے اغوا برائے تاوان کے واقعات سامنے آئے، دوسری جانب مختلف مقامات پر ناکے لگانے سمیت مختلف طریقوں سے لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہا۔اس منظر نامے میں سندھ حکومت کی سر نڈر پالیسی کے تحت 22اکتوبر کو پولیس لائن شکارپور میں سیاسی وسماجی شخصیات اور قبائلی عمائد ین کی موجودگی میں 70سے زیادہ خطرناک ڈاکو رضا کارانہ طور پر گرفتاری دیتے اور ہتھیار جمع کراتے نظر آئے تواس کا بڑا مفہوم یہی ہے کہ انہوں نے اپنا راستہ بدل دیا ہے۔ اس موقع پر وزیر داخلہ سندھ ضیاالحسن النجارنے اپنے خطاب میں جو باتیں کہیں، ان میں صدر مملکت آصف علی زرداری کی اس فراست کا عکس نمایاں تھا جس کے تحت کچے کے علاقوں میں پائیدار امن کے قیام کے لئے ایک تاریخی پالیسی منظور کی گئی مذکورہ پالیسی کے تحت قانون کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ کئے بغیر اور قانونی عمل کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ جاری رکھتے ہوئے سرینڈر کرنے والوں کے خاندانوں کی کفالت، تعلیم اور جانی مالی سماجی تحفظ پر خاص توجہ دی جائے گی۔ سماجی تحفظ کا ٹاسک اتنا اہم ہے کہ اس پر فوری عمل ہوتا نظر آنا چاہئے۔اتنا بڑا اور دوررس اثرات کا حامل منصوبہ برادری کے بڑوں سے رابطے اور ڈاکوؤں کو قائل کرنے کی تمام ممکنہ کاوشوں کے نتیجے میں ہی آگے بڑھ سکتا تھا اور اسی طریقے سے آنیوالے وقتوں میں مزید ڈاکوؤں کے قومی دھارے میں لائے جانے کی امید کی جاسکتی ہے۔اس باب میں کچے کی سرگرمیوں سے متاثر ہونیوالے تینوں صوبوں کی قیادتیں مشترکہ میکنزم کے ذریعے مشاورت کا سلسلہ جاری رکھیں تو مشترکہ اور علیحدہ علیحدہ کارروائیوں کے نتائج زیادہ جلد اور موثر طور پر ظاہر ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

تازہ ترین