اسرائیلی اخبارات دعویٰ کررہے ہیں کہ پاکستان سمیت کچھ مسلم ممالک کی فوج کو غزہ میں قیام امن کیلئے تعینات کرنے کی ایک تجویز زیر غور ہے۔میں نے اس دعوے کے بارے میں ڈپٹی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا کیونکہ غزہ بھجوائی جانے والی انٹر نیشنل فورس کی ذمہ داریوں کا ابھی تعین نہیں ہوا ۔ میں نے ڈار صاحب کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے اس بیان سے بھی آگاہ کیا جس میں اُس نے بڑے رعونت آمیز انداز میں کہا کہ اسرائیل فیصلہ کرئیگا کہ کس مسلمان ملک کی فوج کو غزہ بھیجنا ہے اور کس مسلمان ملک کی فوج کو غزہ نہیں بھیجنا۔ ڈار صاحب نے کہا کہ ہم نے غزہ کیلئے انٹرنیشنل فورس میں اپنے فوجی دستے شامل کرنے پر آمادگی تو ظاہر کی ہے لیکن ہماری آمادگی اس فورس کی ذمہ داریوں کی نوعیت سے مشروط ہے۔ جب ذمہ داریوں کا فیصلہ ہوجائے گا تو ہم بھی کوئی فیصلہ کرلیں گے۔ پاکستان کے ارباب اختیار کو یاد رکھنا چاہئے کہ شرم الشیخ میں اسرائیل اور حماس میں ایک امن معاہدے کے بعد اسرائیلی یرغمالی رہا ہو گئے تو ان یر غمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل نے بڑی بے شرمی سے نا صرف غزہ پر دوبارہ بمباری شروع کردی بلکہ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کا اعلان بھی کر دیا ۔
مغربی کنارے پر قبضے کے اعلان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی پریشان کر دیا اور انہوں نے یقین دلایا کہ ایسا نہیں ہو گا ۔ کیا ہم ٹرمپ پر یقین کر سکتے ہیں ؟ ٹرمپ امریکا کی تاریخ کے وہ واحد صدر ہیں جنہوں نے اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا۔ جب وہ ایک طرف نیتن یاہو کی تعریف کرتے ہیں اور دوسری طرف شہباز شریف کی بھی تعریف کر ڈالتے ہیں تو ہم جیسے سادہ لوگ سوچ کے سمندر میں غوطے کھانے لگتے ہی۔ جب ہم سے کوئی عرب، ایرانی یا افغانی صحافی یہ پوچھتا ہے کہ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ نتین یا ہو اور شہباز شریف دونوں نے ٹرمپ کو نوبل امن انعام کیلئے نامزد کیا تو ہمارا کوئی بھی جواب اُن کیلئے تسلی بخش نہیں ہوتا ۔ بہر حال ہم کسی کی نیت پر شک کئے بغیر اپنے حقیر تجربے کی روشنی میں بڑے مودبانہ انداز میں صرف یہ عرض کریں گے کہ پاکستانی فوج کو غزہ بھیجنے کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر ہونا چاہیے ۔ ہماری فوج کا اصل کام پاکستان کی سرحدوں کا دفاع ہے ۔ پہلے پاک افغان سرحد کو تو محفوظ بنا لیں ۔ بعد میں کسی اور طرف رخ کریں۔ غزہ کے فلسطینی پاکستان کی بہت عزت کرتے ہیں ۔ میں نے آج بھی وہ فلسطینی کو فیہ سنبھال کر رکھا ہوا ہے جو مجھے غزہ میں ایک فلسطینی صحافی نے تحفہ میں دیا تھا ۔ اس کو فیہ پر ایک طرف فلسطین اور دوسری طرف پاکستانی پرچم بنایا گیا تھا اور درمیان میں بیت المقدس ہے ۔ اگر تو پاکستانی فوج کو غزہ کے فلسطینیوں کی حفاظت اور مدد کیلئے بھیجا جاتا ہے تو بہت اچھی بات ہے ۔ ایسی صورت میں پاکستانی فوج کو اقوام متحدہ کی چھتری تلے بھیجنا زیادہ مناسب ہے اور اس امن فوج کی کمان بھی کسی مسلمان فوجی افسر کے پاس ہونی چاہئے ۔ اگر پاکستانی فوج کوحماس کے خلاف آپریشن کیلئےبھیجا گیا اور حماس کو غیر مسلح کرنے کے نام پر کسی کارروائی کا حصہ بنایا گیا تو یاد رکھئے کہ مقامی آبادی شدید مزاحمت کرئیگی۔ غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو عرب ممالک کی حکومتوں سے بہت شکوے شکائتیں ہیں ۔ آپ حماس کی پالیسی سے جتنا بھی اختلاف کریں لیکن غزہ کے فلسطینی حماس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر پاکستانی فوج کو کسی مغربی ملک کے فوجی افسر کی کمان میں غزہ بھیجا گیا تو اسرائیل کوئی نہ کوئی ایسی سازش ضرور کرئیگا جسکے نتیجے میں مقامی فلسطینیوں اور پاکستانی فوج میں غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ پاکستانی فوج نے مئی 2025 ء میں بھارت کو عبرتناک شکست دیکر جو مقام بنایا ہے اس مقام و مرتبے کو اسرائیلی سازشوں کے براہ راست نشانے پر نہ لائیں ۔صرف فلسطینی نہیں بلکہ عام پاکستانی بھی یہ چاہتے ہیں کہ افواج پاکستان کو غزہ میں حماس کو غیر مسلح کرنے کیلئے نہیں بلکہ بیت المقدس کی آزادی کیلئے بھیجا جائے ۔ یہ بات کچھ لوگوں کو اچھی نہیں لگے گی اور وہ اپنی عقل و دانش کا رعب جھاڑنے کیلئے میرا مذاق بھی اڑائیں گے ۔ آپ میرا مذاق ضرور اڑائیے لیکن پا کستان کے کسی بھی شہر یا قصبے کے چوک میں کھڑے ہو کر عام پاکستانیوں سے پوچھ لیں کہ پاکستانی فوج کو غزہ کیوں بھیجنا چاہئے؟ اکثریت کہے گی کہ اپنی فوج کو فلسطینیوں کی حفاظت اور بیت المقدس کی آزادی کیلئے بھیجیں۔ ہمارے ہاں کچھ ایسے دانشور بھی پائے جاتے ہیں جو فرماتے ہیں ہمیں بیت المقدس سے کیا لینا دینا؟ یہ تو عربوں کا معاملہ ہے۔ عرب جانیں اور اسرائیل جانے ۔تو پھر پاکستانی فوج کو غزہ بھیجنا کیوں ضروری ہے؟ ہمیں یہ ضرور غور کرنا چاہئے کہ ہمارے جن بزرگوں نے پاکستان بنایا وہ مسلسل فلسطینیوں کی حمایت کیوں کرتے رہے ؟ جب بھی رجب کے مہینے میں شب معراج آتی تھی تو قائد اعظم محمد علی جناح ’’ يوم فلسطین ‘‘کیوں مناتے تھے ؟ دراصل بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے ۔ یہ لا الہ الا اللہ پڑھنے والے ہر مسلمان کے ایمان کا مسئلہ ہے ۔ بیت المقدس کو انبیائے کرام نے تعمیر کیا۔ وہ سرزمین فلسطین جس پر آج اسرائیل قائم ہے یہ دراصل سرزمین ِانبیاء ہے ۔ وہ عرب حکمران جو ٹرمپ کے معاہدہ ابراہیمی میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اصل وطن تو عراق تھا لیکن وہ ہجرت کرکے فلسطین آگئے ۔ یہاں اُن کا جس علاقے میں زیادہ وقت گزرا وہ آج بھی الخلیل کہلاتا ہے ۔ اس علاقے میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ۔ یہودی اس علاقے کو حیبرون کہتے ہیں ۔ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام اور اُن کے اہل خانہ کی قبریں ہیں ۔ الخلیل کے قریب حلحول ہے جہاں مقام یونس ہے ۔ اس جگہ حضرت یونس علیہ السلام نے وقت گزارا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت ذوالکفل علیہ السلام سمیت کئی انبیاء کی قبریں بیت المقدس کے آس پاس ہیں ۔ مسجد اقصیٰ کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا ۔ حضرت مریم مسجد اقصٰی کے قریب عبادت کیا کرتی تھیں ۔ فلسطین کے شہر الخلیل میں ناصرت کا علاقہ ہے جہاں حضرت عیسی علیہ السلام کا بچپن گزرا ۔ انکی جائے پیدائش بیت اللحم ہے ۔
واقعہ معراج نے مکہ مکرمہ کو بیت المقدس سے جوڑ دیا تھا اسی لئے تاریخ اسلام میں فلسطین کو حجاز کا حصہ قرار دیا گیا ۔ سرزمین فلسطین میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے اور پھر اسی مقام سے آسمان کی طرف اُٹھا لئے گئے ۔ مسلمانوں کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیت المقدس تشریف لائے اور پھر اسی مقام سے آسمان کی طرف سفر معراج فرمایا ۔ ایک حدیث میں فرما یا گیا کہ حوض کوثر کی لمبائی خانہ کعبہ سے بیت المقدس تک ہے ۔ بیت المقدس کی آزادی کیلئے جدو جہد کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے ۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے کی مذمت کی گئی ہے لہٰذا پاکستان کو ایسے کسی بھی عالمی بندوبست سے دور رہنا چاہئے جس سے یہ تاثر ملے کہ پاکستان بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر بیت المقدس پر قابض اسرائیل کی سہولت کاری کررہا ہے۔