• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صاحب نے ڈرائیور سے کہا ’’گاڑی نکالو، جم خانے جانا ہے‘‘جم خانہ میں صاحب کے دوست اسکے منتظر تھے۔ جنہیں صاحب نے ایک مشترکہ دوست کی امریکہ سے آمد پرلنچ کیلئے مدعو کیا تھا۔ صاحب نے ڈرائیور کو سو روپے دیئے اور کہا’’ تم کسی قریبی تنور سے کھانا کھا آؤ‘‘۔کھانے کے دوران دنیا جہان کے موضوعات پر گپ شپ ہوئی ، دس بیس سال پرانے دلچسپ واقعات دہرائے گئے اور یوں مشترکہ دوستوںنےاپنی پرانی یادیں تازہ کیں، اس روز صاحب کے ہونٹوں پر بہت دنوں کے بعد مسکراہٹ آئی تھی! کھانے کے بعد ڈرائیور نے گاڑی کا رخ گھر کی طرف موڑا اور گاڑی پورچ میں کھڑی کرنے کے بعد صاحب کے بیڈ روم میں داخل ہو گیا صاحب کو قیلولہ کی عادت تھی اور جب تک ڈرائیور سونے سے پہلے انکی مٹھی چاپی نہیں کرتا تھا۔ اسے نیند نہیں آتی تھی!

جب ڈرائیور کو صاحب کے خراٹے سنائی دیئے ، وہ دبے پاؤں کمرے سے باہر نکل آیا۔بیگم صاحبہ نے اسے کمرے سے نکلتے دیکھ کر آواز دی’’ گاڑی نکالو، اوریگا کمپلیکس جانا ہے‘‘، بچے بھی بیگم صاحبہ کے ساتھ تھے، میکڈونلڈ سے برگر کھانے کے بعد وہ اوریگا کمپلیکس گئے۔ جہاں اسمگلڈ کپڑوں کی تازہ ورائٹی کی وجہ سے کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ عورتیں نئے ڈیزائن کے نہایت مہنگے کپڑوں پر یوں ٹوٹ کر گر رہی تھیں جیسے یہ مفت مل رہے ہوں، بیگم صاحبہ نے دس بارہ سوٹ پسند کئے اور ڈرائیور سے لبرٹی مارکیٹ چلنے کیلئے کہا، بیگم صاحبہ کیلئے کاسمیٹکس یوں تو صاحب امریکہ ہی سے لاتے تھے لیکن عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ کاسمیٹکس کی Consumption میں بھی اضافہ ہو گیا تھا چنانچہ بیگم صاحبہ کو مجبوراً امپورٹڈ لپ اسٹک اور دوسری چیزیں ایمر جنسی میں یہاں سے خریدنا پڑیں حالانکہ انہیں شبہ تھا کہ یہ جنیوئن نہیں ہیں !گھر واپسی پر صاحب جاگ چکے تھے اور دفتر جانے کیلئے تیار کھڑے تھے صاحب کی یہ پرانی روٹین تھی کہ وہ اپنے بریک کے بعد واپس دفتر جاتے اور پھر شام تک پینڈنگ فائلیں نمٹاتے !ڈرائیور دفتر کے باہر بینچ پر بیٹھ گیا۔ اسے صاحب کے انتظار میں دو تین گھنٹے اس عالم میں ان کا انتظار کرنا تھا۔ تاہم آج صاحب جلد ہی اٹھ گئے کیونکہ ان کے’’ٹمی‘‘کی سالگرہ تھی ، واپس گھر پہنچ کر ڈرائیور نے دوسرے ملازموں کے ساتھ مل کر لان میں کرسیاں وغیرہ لگائیں اور دوسرے انتظامات کیلئے بھاگ دوڑ شروع کر دی ، اسکے بچے کی طبیعت خراب تھی، وہ آج جلدی گھر جانا چاہتا تھا مگر صاحب سے بات کرنے کی اسے ہمت نہ پڑی کیونکہ آج ان کے ٹمی کی سالگرہ تھی مہمانوں کی آمد شروع ہوئی تو تھوڑی دیر بعد ایک بڑی میز تحفوں سے بھر گئی ، صاحب اپنے اسٹڈی روم میں مرد مہمانوں کے ساتھ بیٹھے تھے اور ڈرائیور کو ہدایت تھی کہ جب ٹمی نے کیک کاٹنا ہو اس وقت انہیں اطلاع دی جائے، مرد مہمانوں میں بیشتر صاحب کی شام کی محفلوں کے دوست تھے ، ڈرائیور صاحب کے کمرے میں برف کی ڈلیاں، کوک کباب اور شام کی محفل کی دوسری ضروری اشیاء رکھ آیا تھا۔ وہ زرق برق لباس اور زیورات میں لدی ہوئی مہمان خواتین اور ان کے شریر بچوں کی مدارات میں مصروف تھا، اسکے ساتھ دیگر ملازم بھی یہ ڈیوٹی پوری تندہی سے انجام دے رہے تھے مگر ڈرائیور کی فرض شناسی اور اسکی مستعدی کی عادت کی بنا پر بیگم صاحبہ ہر کام کیلئے اسی کو پکارتیں!

جب برتھ ڈے پارٹی ختم ہوئی تو لان بچی کھچی اشیائے خورونوش سے لدا ہوا تھا، صفائی کرتے اور چیزوں کو واپس انکے ٹھکانے پر رکھتے رکھتے رات کے گیارہ بج گئے تھے، صاحب کے دوست بھی جا چکے تھے اور مہمان خواتین بھی رخصت ہو چکی تھیں، صاحب لڑکھڑاتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلے گئے، ڈرائیور ان سے کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اس کا موقع ہی نہیں ملا تھا، وہ بیگم صاحبہ کے پاس گیا اور کچھ کہنے ہی کو تھا کہ اس نے خود ہی بات بدل دی اور کہا ” بیگم صاحبہ میں گھر جاؤں؟‘‘بیگم صاحبہ نے کہا ’’ ہاں اب جاؤ مگر صبح چھ بجے پہنچ جانا ، بچے اسکول سے لیٹ نہ ہوں “ وہ روزانہ یہ بات کہتی تھیں حالانکہ وہ کبھی لیٹ نہیں ہوا تھا:وہ باورچی نوردین کے کوارٹر میں گیا کہ اس سے کچھ پیسے ادھار مانگ لے مگر اسکے پاس کل دو سو روپے تھے،مجبوراً واپس بیگم صاحبہ کے پاس آیا اور کہا ” بیگم صاحبہ، میرا بچہ بیمار ہے مہربانی کر کے تنخواہ میں سے مجھے دو ہزارروپے ایڈوانس دے دیں‘‘، بیگم صاحبہ نے کہا ’’آج مہینے کی بیس تاریخ ہے، مہینے کی ان تاریخوں میں ہم تنخواہ دار لوگوں کے پاس کہاں پیسے ہوتے ہیں‘‘ اور پھر اسے تاکید کی کہ وہ صبح چھ بجے پہنچ جائے تا کہ بچے اسکول سے لیٹ نہ ہوں مگر ڈرائیور صبح چھ بجے بچوں کو اسکول پہنچانے کیلئے صاحب کی کوٹھی نہ پہنچ سکا کیونکہ اسے اپنے ’’ٹمی‘‘کو قبرستان لے جانا تھا۔ اب آخر حسن عباسی کی ایک غزل

ایک وحدت میں عناصر ہیں جدا کچھ بھی نہیں

دور و نزدیک کوئی ہے تو گلا کچھ بھی نہیں

ایسی خاموشی ہے مجھ میں کہ تہ خاک نہ ہو

شور ایسا ہے کہ محشر کی صدا کچھ بھی نہیں

ایک لمحے میں کرشمہ ہوا جس سے بھی ہوا

زندگی بھر تو کسی سے بھی بنا کچھ بھی نہیں

ہم نے دیکھا ہی نہیں ہے تو نیا لگتا ہے

ورنہ سب مال پرانا ہے نیا کچھ بھی نہیں

حادثے جتنے بھی گزرے سبھی مجھ پر گزرے

رب کا صد شکر کے بچوں کو ہوا کچھ بھی نہیں

کچھ کو دریا نے ڈبویا کہیں دریا ڈوبا

کچھ خطا ہو بھی کسی کی تو خطا کچھ بھی نہیں

میں کسی وقت کوئی جرم بھی کر سکتا تھا

ظلم تو دیکھو، نہ کرنے کا صلہ کچھ بھی نہیں

ڈھنگ سے عشق بھی کرنا نہیں آیا ہم کو

مکتب رومی میں جا کر بھی پڑھا کچھ بھی نہیں

جب بھی جھانکوں میں دریچے سے یہی لگتا ہے

اب میرے شہر میں بارش کے سوا کچھ بھی نہیں

میں اگر اس کا نہیں ہوں تو اسے کیا پروا

وہ اگر میرا نہیں ہے تو مرا کچھ بھی نہیں

بزم یاراںمیں حسن کتنی سہولت ہے مجھے

اس میں تاخیر سے آنے کی سزا کچھ بھی نہیں

تازہ ترین