• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی اے سی ذیلی کمیٹی کا ایف بی آر کے آڈٹ اعتراضات پر اظہارِ تشویش، 4 ہفتوں میں رپورٹ طلب

فائل فوٹو
فائل فوٹو

پبلک اکاؤنٹس کی ذیلی کمیٹی کے کنوینر شاہدہ اختر علی کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے متعلق سال 11-2010 اور 14-2013 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔

ایف بی آر کی جانب سے درآمدی پالیسی آرڈر 2009 کی خلاف ورزی کا آڈٹ کیا گیا، استعمال شدہ اور سیکنڈ ہینڈ آٹو پارٹس کی غیر قانونی کلیئرنس کا انکشاف ہوا۔

رپورٹ کے مطابق درآمدی پالیسی آرڈر 2009 کے تحت استعمال شدہ آٹو پارٹس کی درآمد پر پابندی تھی، اسلام آباد اور ملتان کسٹمز نے سیکنڈ ہینڈ آٹو پارٹس کی کلیئرنس ریڈمپشن فائن کے ذریعے کی۔

آڈٹ حکام نے بریفنگ میں بتایا کہ آٹوپارٹس کی یہ کلیئرنس درآمدی پالیسی کی خلاف ورزی تھی، ڈی اے سی نے وزارتِ تجارت سے وضاحت طلب کرنے کی ہدایت دی، وزارتِ تجارت کی پالیسی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔

بلال احمد خان نے سوال کیا کہ کیا آڈٹ نے اس حوالے سے وزارت قانون کو یہ وضاحت لکھی تھی؟

آڈٹ حکام نے بریفنگ میں کہا کہ آڈٹ کا کام وضاحت دینا نہیں چیزوں کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے، ہماری نظر میں دونوں آٹوپارٹس کی کلیئرنس میں تضاد ہے۔

کنوینر کمیٹی شاہدہ اختر نے کہا کہ آڈٹ میں ایف بی آر کا ہر دوسرا کیس کورٹ کیس ہے، ایف بی آر کے جتنے بھی آڈٹ پیراز ہیں سارے کورٹ کیسز ہیں، عدالت میں زیر التوا معاملات ہم سیٹل نہیں کرسکتے۔

چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے کہا کہ وکیلوں کی فیس اب بڑھ گئی ہے، ہم نے ایک ایک وکیل کو 30-30 لاکھ تک بھی دیا ہے۔

کنوینر کمیٹی نے کہا کہ ریفارمز کی طرف جانا چاہیے، زیادہ تر آڈٹ پیراز آپ لوگوں کے ہیں، ایف بی آر میں ریفارمز کی کوشش جاری رکھیں۔

 پرال میں غیر مجاز پی سی ٹی ہیڈنگز اور کسٹم ڈیوٹی ریٹس شامل کرنے سے 2 کروڑ 3 لاکھ روپے کے نقصان کا انکشاف ہوا۔

آڈٹ حکام کے مطابق 2006 کے پاک چین معاہدے کے تحت 5،909 چینی اشیا پر کسٹم ڈیوٹی میں رعایت دی گئی، ایم سی سی اسلام آباد نے درآمدی سامان کو غلط پی سی ٹی ہیڈنگز میں درج کیا، کسٹم اور پرال حکام نے غلط اندراج پر کوئی کارروائی نہیں کی۔

آڈٹ حکام نے کہا کہ کم کسٹم ڈیوٹی ریٹس کے اطلاق سے قومی خزانے کو 2 کروڑ 13 لاکھ روپے کا نقصان ہوا، کسٹم حکام اور پرال حکام دونوں غلط اندراج کے ذمہ دار ہیں۔

ممبر پی اے سی بلال احمد نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پرال میں غلط اندراج کیا جائے، اس سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ آپ کے لوگ بھی ملے ہوئے تھے۔

ایف بی آر حکام نے بتایا کہ پرال سے آدھے لوگوں کو فارغ کردیا گیا، اس کو مکمل ری ویمپ کیا جارہا ہے، پرال کا الگ سے بورڈ بنایا اور اس کو مکمل ایک آزاد باڈی بنا رہے ہیں، پرال کو ایف بی آر کے اثر سے بھی نکال رہے ہیں۔

ممبر ایف بی آر سید شکیل نے کہا کہ پرال میں جن لوگوں کی غفلت پائی گئی وہ گرفتار بھی ہوئے ہیں، یہ رقم تو بہت چھوٹی ہے لیکن غلطی بہت بڑی ہے، چین کے ساتھ 17 ارب کی تجارت ہوتی ہے، اس بڑے حجم کو بھی دیکھا جائے۔

 پی اے سی ذیلی کمیٹی نے ایف بی آر سے چار ہفتوں میں تفصیلی رپورٹ مانگ لی۔

قومی خبریں سے مزید