• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے فلاحی نظام کا موازنہ بظاہر ایک مشکل کام ہے، مگر مشاہدے کی روشنی میں یہ اتنا پیچیدہ بھی نہیں، — صرف ایک مردِ قلندر کی ضرورت ہے۔یورپ، بالخصوص فرانس، ایک مضبوط اور منظم عوامی فلاحی (ویلفیئر) نظام رکھنے والا ملک ہے۔ اس نظام کا بنیادی مقصد شہریوں کو سماجی تحفظ، صحت، تعلیم اور روزگار کے مساوی مواقع فراہم کرنا ہے تاکہ سماجی ناہمواری کم ہو اور ہر فرد باعزت زندگی گزار سکے۔فرانس کے فلاحی نظام کے چند اہم پہلو ملاحظہ فرمائیں۔ سوشل سیکورٹی نظام: شہریوں کو بیماری، معذوری، بڑھاپے اور بے روزگاری کے دوران مالی مدد فراہم کرتا ہے۔ تمام ملازمین اور آجر اس نظام میں حصہ ڈالتے ہیں۔صحت کا نظام:فرانس میں صحت کی سہولتیں زیادہ ترریاستی اخراجات سے فراہم کی جاتی ہیں۔ شہریوں کو کم یا بالکل مفت علاج دستیاب ہوتا ہے، اسی لیے فرانس کا ہیلتھ سسٹم دنیا کے بہترین نظاموں میں شمار ہوتا ہے۔پنشن و بڑھاپا الاؤنس: ریٹائر ہونیوالے افراد کو پنشن دی جاتی ہے، جو انکی سابقہ آمدنی کے تناسب سے مقرر ہوتی ہے۔خاندانی و بچوں کے الاؤنس: بچوں والے خاندانوں کو مالی امداد دی جاتی ہے تاکہ تعلیم و پرورش کے اخراجات میں آسانی ہو۔رہائش الاؤنس: کم آمدنی والے افراد کو کرایہ یا مکان کی خریداری میں مالی معاونت دی جاتی ہے۔

فرانس کا فلاحی نظام سماجی انصاف پر مبنی ایک جامع ماڈل ہے جو شہریوں کو غربت، بیماری اور بے روزگاری کے اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس یورپ کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں معاشرتی تحفظ اور معیارِ زندگی نہایت بلند ہے۔پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے نظریے پر وجود میں آیا۔ اسلامی فلاحی ریاست کا بنیادی مقصد ایسا نظام قائم کرنا ہے جس میں دولت کی منصفانہ تقسیم ہو اور کوئی فرد غربت کے باعث بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہے۔اسی مقصد کے تحت مختلف ادوار میں مختلف فلاحی و مالیاتی نظام متعارف کرائے گئے، جن میں زکوٰۃ و عشر کا نظام (1980)پاکستان بیت المال (1992) اوربے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (2008) اپنے اپنے دور میں معاشرتی انصاف اور غربت کے خاتمے کی کوششوں کا مظہر ہیں۔

زکوٰۃ و عشر کا باضابطہ نظام جنرل محمد ضیاءالحق کے دورِ حکومت میں 1980ء میں قائم کیا گیا۔ اس مقصد کیلئےحکومت نے زکوٰۃ و عشر آرڈیننس نافذ کیا۔اس نظام کی تشکیل میں معروف سماجی شخصیت راجہ مجاہد افسر آف ڈنڈوٹ (رکن مجلسِ شوریٰ و بعد ازاں رکنِ قومی اسمبلی) کا کردار کلیدی تھا۔اس نظام کے تحت بینک اکاؤنٹس سے ہر سال رمضان المبارک کے آغاز پر خودکار طریقے سے زکوٰۃ کی کٹوتی کی جاتی اور یکم رمضان کو’’یومِ زکوٰۃ‘‘کے طور پر منایا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی عشر کا نظام بھی قائم کیا گیا جسکے تحت زرعی پیداوار سے مخصوص شرح کے مطابق واجب الادا حصہ وصول کیا جاتا تھا۔زکوٰۃ و عشر فنڈز صوبائی اور ضلعی کمیٹیوں کے ذریعے مستحقین میں تقسیم کیے جاتے تھے۔راجہ محمد افسر مرحوم نے اس موقع پر ایک اور منصوبہ’’ویلتھ پر زکوٰۃ‘‘ کے عنوان سے پیش کیا، جو اگر منظور ہو جاتا تو پاکستان میں ایک ہمہ گیر کفالت پروگرام کی بنیاد رکھ دیتا۔ انہوں نے اس موضوع پر ایک مفصل کتاب بھی تحریر کی۔

پاکستان بیت المال (1992)زکوٰۃ و عشر کے نظام کے تقریباً آٹھ سال بعد، محترمہ بے نظیر بھٹو نے ریاستی سطح پر فلاحِ عامہ کو وسعت دینے کیلئے قائم کیا۔اس ادارے کا مقصد زکوٰۃ فنڈ سے ہٹ کر سرکاری بجٹ سے براہِ راست غریبوں کی مدد کرنا تھا۔ اسکے تحت متعدد فلاحی اسکیمیں شروع کی گئیں، مثلاًمستحقین کی براہِ راست مالی امداد یتیموں اور بیواؤں کی کفالت ،علاج و معالجےکیلئے مالی تعاون، غریب طلبہ کیلئے تعلیمی وظائف ،بے گھر افراد کیلئے رہائشی منصوبے ،پاکستان بیت المال آج بھی فعال ہے، تاہم بدقسمتی سے ادارے کا بورڈ آف گورنرز طویل عرصے سے غیر فعال ہے، جسکے باعث ملازمین کے ترقیاتی معاملات رکے ہوئے ہیں۔ اگر آصف علی زرداری اپنی صدارت کے دوران اس ادارے پر خصوصی توجہ دیتے تو یہ آج ایک مثالی فلاحی ماڈل بن چکا ہوتا۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (2008ء)محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے جولائی 2008ء میں انکے فلاحی وژن کو آگے بڑھاتے ہوئے شروع کیا۔یہ پروگرام پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سماجی تحفظ پروگرام ہے، جس کا مقصد کم آمدنی والے گھرانوں کو مالی مدد فراہم کرنا ہے۔بعد ازاں اس پروگرام کو ڈیجیٹل خطوط پر استوار کیا گیا، ڈیٹا بیس کے ذریعے مستحق خاندانوں کا اندراج کیا گیا اور’’بے نظیر ڈیبٹ کارڈ‘‘متعارف کرایا گیا۔ یہ پروگرام جزوی طور پر احساس پروگرام سے بھی منسلک ہوا مگر آج بھی’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘کے نام سے جاری ہے۔یہ نظام نہ صرف غربت میں کمی کا باعث بنا بلکہ خواتین کو مالی خودمختاری دینے میں بھی اہم سنگِ میل ثابت ہوا۔

بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ و عشر کے نظام میں انتظامی خامیاں اور سیاسی مداخلت بڑھتی گئی۔ صوبہ پنجاب میں زکوٰۃ کمیٹیوں کے قیام اور ارکان کے انتخاب کا عمل بیوروکریسی کے زیرِ انتظام ہونے سے شفافیت متاثر ہوئی۔گزشتہ چار برسوں سے زکوٰۃ کمیٹیوں کے انتخابات تاخیر کا شکار ہیں۔مزید یہ کہ کئی اضلاع میں زکوٰۃ ڈپارٹمنٹ کے ملازمین کو مہینوں تنخواہیں نہیں ملتیں۔

زکوٰۃ و عشر کا نظام اسلامی اصولوں پر مبنی پہلا قدم تھا،پاکستان بیت المال نے اسے ادارہ جاتی شکل دی،اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نے جدید دور میں اس تسلسل کو نئی جہت دی۔تاہم ان تمام نظاموں کی روح اسی وقت برقرار رہ سکتی ہے جب شفافیت، اہلیت اور دیانتداری کو بنیاد بنایا جائے۔اگر حکومت زکوٰۃ فنڈز کے درست استعمال، بیت المال کی مؤثر نگرانی اور امداد کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان واقعی ایک اسلامی فلاحی ریاست بن جائے گا —جہاں کوئی شہری بھوک، افلاس یا محرومی کا شکار نہ ہوگا۔

تازہ ترین