• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک چھوٹا سا سوال ہے۔ یہ سوال اُٹھانے پر مجھے بڑی بڑی گالیاں دینے کی بجائے صرف ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں- سوال صرف اتنا سا ہے کہ اگر ظہران ممدانی پاکستانی ہوتا اور کراچی یا لاہور جیسے کسی بڑے شہر میں میئر کا الیکشن لڑ رہا ہوتا تو کیا وہ میئر کا الیکشن جیت سکتا تھا ؟ یہ سوال اُٹھانا اسلئے ضروری ہے کیونکہ ظہران ممدانی ایک 34 سالہ نوجوان ہے جو بڑے فخر سے اپنے آپ کو سوشلسٹ کہتا ہے اور امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کھلم کھلا اُسکی مخالفت کر رہے تھے۔ اگر پاکستان کا صدر، وزیر اعظم یا کوئی وزیر اعلیٰ ظہران ممدانی جیسے سوشلسٹ اُمیدوار کا مخالف ہوتا تو کیا وہ کراچی یا لاہور کا میئر بن سکتا تھا ؟ ظہران ممدانی کے والد محمود ممدانی کا تعلق بھارتی گجرات سے ہے محمود ممدانی گجراتی مسلمان ہیں لیکن انکی اہلیہ میرا نائر کا تعلق دہلی کے ایک ہندو خاندان سے ہے ۔ میرا نائر نے 1991ء میں اپنے پہلے خاوند سے علیحدگی اختیار کر کے محمود ممدانی کے ساتھ شادی کی۔ میرا نائر ایک فلم میکر ہیں۔ 2013ء میں انہیں اسرائیل کے شہر حیفہ میں ایک فلم فیسٹیول کا مہمان خصوصی بننے کی دعوت دی گئی لیکن انہوں نے فلسطینیوں پر اسرائیل کے ظلم و ستم کے خلاف بطور احتجاج اس فلم فیسٹیول میں شرکت سے انکار کر دیا۔ اگر ظہران ممدانی لاہور یا کراچی سے الیکشن لڑتے تو بہت کم لوگ اُنکی والدہ میرا نائر کے سیاسی نظریات کو اہمیت دیتے بلکہ انکے سیاسی مخالفین یہ اعتراض اٹھاتے کہ ایک ہندو ماں کا بیٹا پاکستان کے کسی شہر کا مئیر کیسے بن سکتا ہے؟ عرض یہ کرنا ہے کہ ظہران ممدانی جیسا ایک پڑھا لکھا نوجوان ٹرمپ کی مخالفت کے باوجود صرف امریکا میں الیکشن جیت سکتا ہے۔ ظہران ممدانی جیسا پڑھا لکھا مسلمان نوجوان ناں تو بھارت کے کسی شہر کا میئر بن سکتا ہے نا ہی مصر جیسے کسی عرب ملک کی حکومت ممدانی کو اپنے کسی شہر کا میئر بننے دیتی کیونکہ اس نوجوان نے غزہ میں اسرائیل کے حالیہ مظالم کی بہت کھل کر مذمت کی۔ کچھ دن پہلے تک جب میں ظہران ممدانی کو اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف بیان بازی کرتے دیکھتا تو سوچتا تھا کہ صیہونی لابی اس جوشیلے نوجوان کو نیویارک کا میئر بننے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔ ممدانی نے اعلان کیا کہ وہ مئیر بن گیا تو نیتن یاہو کو نیو یارک آنے پر گرفتار کرلے گا۔ جب میں ظہران ممدانی کے جلسوں میں ہر رنگ ونسل کے لوگوں کی بڑی تعداد کو دیکھتا اور وہ بلند آواز میں اسرائیل کی مخالفت میں نعرے لگاتے تو مجھے یقین ہونے لگا کہ غزہ نے نیو یارک کو بدل دیا ہے۔ ظہران ممدانی کی جیت صرف ڈونلڈ ٹرمپ کی نہیں بلکہ نیتن یاہو کی بھی شکست ہے ۔ ظہران ممدانی کی جیت غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی جیت ہے۔ممدانی کے مخالفین نے انکے خلاف مذہبی بنیادوں پر نفرت پھیلانے کی بھر پور کوشش کی ۔ ایک ریڈیو شو کے میزبان نے بڑے طنزیہ انداز میں کہا کہ اگر نیویارک پر گیارہ ستمبر 2001ء جیسا ایک اور حملہ ہو جائے تو ظہران ممدانی بہت خوش ہو گا ۔ آپ ذرا سوچیے کہ نیو پارک وہ شہر ہے جس پر گیارہ ستمبر 2001 ء کو اُسامہ بن لادن نے ایک حملہ کرایا جس میں ہزاروں امریکی مارے گئے ۔ اس حملے کے بعد امریکی صدر جارج بش نے ایک نئی صلیبی جنگ کا اعلان کیا۔ صلیبی جنگ کی اصطلاح استعمال کر کے بش نے دنیا بھر میں مسلمانوں کیخلاف نفرت پھیلائی۔ نائن الیون کے بعد صرف امریکا میں نہیں بلکہ پورے یورپ میں اسلامو فوبیا نے ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کرلی ۔ مسلمانوں کے خلاف بھر پور کتابیں لکھی گئیں ، فلمیں بنائی گئیں اور اسلامو فوبیا کچھ سیاسی عناصر کا ہتھیار بن گیا۔اسلاموفوبیا کو مسلم ممالک تو شکست نہ دے سکے بلکہ اسلاموفوبیا کو خود مغرب نے ہی مسترد کرنا شروع کر دیا ۔ اسلامو فوبیا کی پہلی بڑی شکست صادق خان کی صورت میں سامنے آئی ۔ لندن کے لوگوں نے صادق خان کو اپنا مئیر منتخب کر کے اسلاموفوبیا کو شکست دی۔ڈونلڈ ٹرمپ کو صادق خان سے اتنی نفرت ہے کہ موصوف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ڈائس پر کھڑے ہو کر یہ الزام لگا دیا کہ صادق خان لندن میں شریعت نافذ کرنا چاہتا ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ظہران ممدانی سے نفرت کی وجہ بھی یہی ہے کہ ظہران ممدانی کو اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے ۔ ممدانی نے اپنی انتخابی مہم اسلام کے نام پر نہیں چلائی ۔ اُس نے نیو یارک کے شہریوں کے مسائل حل کرنے کے وعدہ کئے اور انسانی حقوق کے تحفظ پر زور دیا ۔ نیو یارک کے شہریوں نے رنگ، نسل، زبان اور مذہب کی تفریق سے بالاتر ہو کر ایک ایسے نوجوان کو اپنا مئیر بنایا ہے جو اُن کے معاشی مسائل کو کم کرنے کا عزم رکھتا ہے ۔ مختصر یہ کہ ظہران ممدانی نے نیو پارک کی مہنگی زندگی کو کچھ سستا کرنے کا وعدہ کیا ہے اور اسی لئے صرف مسلمان ، مسیحی ، ہندو اور سکھ نہیں بلکہ بہت سے یہودی بھی ظہران ممدانی کی انتخابی مہم میں آگے آگے نظر آئے ۔ ظہران ممدانی کی جیت کے بہت سے پہلو ہیں۔ نیو پارک کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک مسلمان کا میئر بننا امریکا اور مسلمانوں میں بہت سی غلط فہمیوں کے ازالے کی وجہ بن سکتاہے ۔ مسلمانوں کو امریکی حکومتوں کی کچھ پالیسیوں سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن امریکی ریاست کا سسٹم مسلمان مخالف نہیں ہے ۔ ظہران ممدانی کی جیت نے واضح کر دیا ہے کہ امریکا کےتمام شہری برابر ہیں ۔امریکا میں بارک اوبامہ جیسا افریقی نسل کا سیاہ فام صدر بن سکتا ہے اور ظہران ممدانی جیسا مسلمان نیو یارک کا میئر بھی بن سکتا ہے۔ اوبامہ اور ظہران ممدانی نے الیکشن اس لئے جیتے کہ امریکا میں بہت سی برائیاں ہونگی لیکن وہاں قانون کی حکمرانی ہے ۔ امریکی عدالتوں پرصدر ٹرمپ کسی آئینی ترمیم کے ذریعہ اثر انداز نہیں ہو سکتے ۔ ظہران ممدانی کی جیت دراصل قانون کی حکمرانی کی جیت ہے ۔ محمدانی یوگنڈا میں پیدا ہوا اور نیویارک کا میئر بن گیا ۔ کیا یوگنڈا کا کوئی شہری پاکستان کے کسی شہر کا مئیر تو دور کی بات پاکستان کی شہریت بھی حاصل کر سکتا ہے ؟ رشوت دیکر غیر قانونی طریقے سے پاکستان کی شہریت حاصل کرنا آسان ہے لیکن قانون کے راستے پر چل کر پاکستانی شہریت حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ ظہران ممدانی جیسا نوجوان قانون کے راستے پر چلتے ہوئے پاکستان کی شہریت حاصل کر سکتا ہے اور ناں ہی پاکستان میں آزادنہ سیاست کر سکتا ہے ۔ ظہران ممدانی جیسا پڑھا لکھا نوجوان پاکستان کے کسی شہر میں میئر کے الیکشن میں کھڑا ہو بھی جائے اور شہریوں کی بڑی اکثریت اُسے ووٹ ڈال بھی دے تو الیکشن کا نتیجہ اُس کے حق میں نہیں آئے گا ، وجہ آپکو اچھی طرح معلوم ہے ۔پاکستان میں الیکشن کمیشن کے نام سے ایک ادارہ ہے جسے فارم 47 نے بہت بد نام کردیا ہے۔پاکستان میں ظہران ممدانی سے زیادہ قابل اور ذہین نوجوان موجود ہیں لیکن وہ کسی شہر کے مئیر تو دور کی بات کو نسلر بھی نہیں بن سکتے ۔ پاکستان کا آئین امریکہ کے آئین سے زیادہ اچھا ہے لیکن پاکستان کی حکمران اشرافیہ اس آئین سے زیادہ طاقتور ہے۔ پاکستان اور امریکا میں اصل فرق فارم 47کا ہے۔جب تک ظہران ممدانی جیسے نوجوان فری اینڈ فیئر الیکشن کے ذریعے پاکستان کے کسی شہر کے میئر نہیں بنتے تب تک کوئی نئی آئینی ترمیم اور ٹرمپ کا منظور نظر کوئی بھی حکمران پاکستان کو عظیم ملک نہیں بنا سکتا۔

تازہ ترین