صاحبان عالی مقام ایسے آہنگ درا سے متصف ہوئے ہیں کہ کبھی صرف فوج کے سربراہ سے مخاطب ہوتے ہیں تو کبھی اپنے فرمودات کسی جلیل القدر سیاسی رہنما کے لئے مختص فرماتے ہیں۔ ہم خرقہ پوش تو اپنے جیسے خاک نشینوں ہی سے مخاطب ہو سکتے ہیں اور ہماری معروضات بھی دستور نامی مختصر کتابچے کی حدود اور دوائر تک محدود ہیں۔ ہم سیاست اور مذہب میں واضح علیحدگی کے قائل ہیں۔ سادہ وجہ یہ ہے کہ سیاست انسانی علم، معاشی حقائق اور تمدنی معاملات کے ہر لحظہ بدلتے خدوخال کی روشنی میں اختلاف رائے سے عبارت ہے۔ سیاسی عمل اختلاف رائے میں مکالمے کی مدد سے سمجھوتے کی راہ نکالنے کا نام ہے۔ دوسری طرف مذہب اپنے پیروکاروں کو واضح احکام دیتا ہے جن میں مکالمہ تو کجا، اختلاف کی اجازت نہیں ہوتی۔ عقیدہ فرد کے ضمیر کی قابل احترام آواز ہے۔ فرد کے حق عقیدہ کا غیر مشروط احترام معاشرے میں امن، رواداری اور نودمیدہ امکانات پر برگ و بار آنے کی ضمانت دیتا ہے۔ سیاست فرد کے حق اختلاف کی تکریم کا مطالبہ کرتی ہے۔ باالفاظ دیگر، سیاست اور مذہب دو مختلف مظاہر ہیں اور ان کا وظیفہ منصبی مختلف ہے۔ انسانی معاشرت میں بدیہی طور پر ایسا تنوع پایا جاتا ہے کہ مذہب انفرادی حق ہونے کے باعث نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ اسے مسلط کرنا تو ’لااکراہ فی الدین‘ (سورہ البقرۃ . 256) کے ذیل میں آتا ہے۔ ناچیز کو علوم دینی میں درک کا دعویٰ نہیں چنانچہ اپنے میدان کی طرف لوٹتا ہوں۔
دستور پاکستان کی شق 20 میں لکھا ہے کہ ’ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہو گا‘۔ گویا عقیدے کو شہری کا انفرادی حق قرار دیا گیا۔ اس آئینی شق کی مزید وضاحت کے لیے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا 19جون 2014ء کا حکم نامہ دیکھ لیں۔ پاکستان ایک جدید قومی ریاست ہے اور اس کی فوج پاکستان کے ہر شہری کی محافظ ہے۔ دستور کی شق 245 میں افواج پاکستان کا وظیفہ منصبی بیان کیا گیا ہے جس میں کوئی مذہبی اشارہ موجود نہیں۔ اکتوبر 2017ء میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اعلان کیا تھا "When we put on the uniform, we are a Pakistani soldier only, irrespective of our religion…".۔ ہمارے محترم احباب پاکستانی فو ج کے ماٹو ’ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ فوج کا یہ نصب العین 1976ء میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاالحق نے مسلط کیا تھا۔ قائداعظم کا عطا کیا ہوا ماٹو ’اتحاد، یقین محکم اور تنظیم‘ تھا۔ قائداعظم نے 14 جون 1948ء کو اسٹاف کالج کوئٹہ میں افواج پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے کسی مذہبی تفریق یا ترجیح کا کوئی اشارہ تک نہیں دیا۔ پاکستان کی فوج اس قومی ریاست کا مشترکہ اثاثہ ہے جس میں شمولیت کے لیے کسی مذہب یا عقیدے کی کوئی قید نہیں۔ 8 اپریل 1950ء کو دہلی میں لیاقت علی خان اور جواہر لعل نہرو میں طے پانے والے معاہدے کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ Members of minority communities will have equal opportunities to participate in public life, hold office, and serve in the civil and armed forces.۔ افواج پاکستان میں مذہبی تلقین کا رنگ بڑھانے کے خواہش مند بھول جاتے ہیں کہ 12 مارچ 1949ء کو قرارداد مقاصد منظور کی گئی تو حکومت پاکستان گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے وسیع تر آئینی دائرے میں چلائی جا رہی تھی۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی شق 298 میں مذہب، علاقے یا نسل کی بنیاد پر کسی شہری سے امتیاز برتنے کی مناہی کی گئی ہے۔ قرارداد مقاصد براہ راست پاکستانی شہریوں کے مذہبی تشخص سے تعلق رکھتی تھی اور اس قرارداد کی دستور ساز اسمبلی میں موجود کسی غیر مسلم رکن نے حمایت نہیں کی۔ اس ضمن میں ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ قانون سازی یا آئینی ترمیم کے لیے ہر قانونی یا دستوری شق کی خواندگی کی جاتی ہے۔ کسی قرارداد کی منظوری کے لیے اس شرط کی پابندی لازم نہیں۔ 12 مارچ 1949ء کو غیر مسلم اراکین دستور ساز اسمبلی کی پیش کردہ ترامیم مسترد کرنے کے بعد اس قرارداد کو منظور کر لیا گیا لیکن 16 اکتوبر 1985ء کو اس قرارداد کو دستور کا نافذ العمل حصہ بناتے ہوئے شق وار خواندگی کی شرط پوری نہیں کی گئی۔ شق وار خواندگی کے بغیر قرارداد مقاصد کو دستور پاکستان کا نافذ العمل حصہ قرار دینا قابل اعتراض ٹھہرتا ہے۔ ہمیں پاکستان کے کسی سرکاری منصب دار کے پارسا ہونے پر رائے دینے کا کوئی حق نہیں۔ ہماری تاریخ میں البتہ بہت سے دلچسپ اشارے موجود ہیں۔ جنوری 1955ء میں مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے گورنر جنرل ملک غلام محمد کو نیکوکار مسلمان ہونے کی سند دی تھی۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل محمد نے جنرل یحییٰ خان کو ’اسلام کا چیمپئن‘ کہا بلکہ آمر کے موعودہ دستور کو بھی ’اسلامی‘ قرار دیا۔ ستمبر 1974 میں مذہبی پیشوائوں نے بھٹو صاحب کی اسلام پسندی پر کماحقہ داد دی تھی۔ جنرل ضیاالحق کی اسلام پسندی پر تو گیارہ برس تک دائیں بازو کے سیاست دان اور صحافی لہلوٹ رہے۔ جسٹس ثاقب نثار کی ’صادق اور امین‘ والی سند، اوریا مقبول جان کے ’خواب‘ اور طارق جمیل کا نیک حکمرانوں کے لئے گریہ پرانی باتیں نہیں۔ پاکستان میں 97 فیصد آبادی مسلمان ہے اور فوج میں اسی تناسب کی عکاسی موجود ہے لیکن افواج پاکستان میں مذہبی تشخص بڑھانے کا مطالبہ کرنے والے شاید نہیں جانتے کہ پاکستان کے فوجی جوان مغربی سرحد پر اس دشمن سے لڑتے ہوئے جانیں قربان کر رہے ہیں جو انہیں کھلے عام کافر قرار دیتا ہے۔ پاکستان کی قومی فوج مذہبی رواداری کی اس حد تک قائل ہے کہ حوثیوں (یمن) کیخلاف پاکستانی فوج سے مدد مانگتے ہوئے فرقہ وارانہ تفریق کا تقاضا کیا گیا تو پاکستانی فوج نے فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم ہونے سے صاف انکار کر دیا۔ ٹھیک جس طرح پاکستان میں تمام شہریوں کو آئینی طور پر یکساں حیثیت حاصل ہے، اسی طرح پاکستانی فوج کا منصب پاکستان کے ہر شہری کا تحفظ ہے۔ پاکستان کی قومی فوج میں مذہبی امتیاز یا غلو کا مطالبہ پاکستان سے دوستی نہیں، ذاتی پارسائی کی تشہیر کے مترادف ہے۔