تین کتابیں ایسی پڑھیں جن سے حضرت اقبال کیساتھ میرے تعلق اور شناسائی کی تجدیدہوئی۔پہلی کتاب ’اقبال درون خانہ ‘ہے جو ان کی بھتیجی وسیمہ کے صاحبزادے خالد نظیر صوفی نے تحریر کی۔اس کتاب کے آئینے سے ہم نےحضرت اقبال کی شخصیت کی بڑی دل پذیر تصویریں دیکھیں، اقبال کی فطری سادگی و بے ساختگی کا بیان ہے ۔ اقبال کا اپنے خاندان کے ساتھ تعلق، بچوں سے محبت اور اپنی والدہ کے ساتھ ان کی محبت کی جھلک ہے، بیرسٹر اقبال اپنی والدہ کی محبت میں فالودہ کو پھلودہ کہتےتھے جب والدہِ جاوید اعتراض کرتیں کہ سیالکوٹی زبان چھوڑ دیں تو کہا کرتے کہ میں اپنی ماں کی تعلیم کو کیسے چھوڑوں۔ یہ کتاب کیا ہے ایک الگ دنیا ہے اقبال سے ملاقات کرنی ہے تو یہ کتاب ضرور پڑھیںمیری تجویز ہے کہ یہ میٹرک تک یا کالج میں بچوں کو پڑھانی چاہیے ۔نصاب میں ہمیں اقبال جس انداز میں پڑھایا جاتا ہے اقبال کے ساتھ ایک خشک سا تعلق بنتا ہے ہم نےاپنے بچوں کو اقبال سے جوڑاہی نہیں کہ خود بخود ان کا ایک تعلق اور محبت پروان چڑھے اور وہ ان کے بارے میں جانیںان کی عظمت کو پہچانیں اور انکے کہے کو سمجھنے اور اپنانے کی کوشش کریں۔ دوسری کتاب بہاولپور کے ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹرممتاز اقبال شناس ،ع ۔م چوہدری کی شاندار تصنیف’ اقبال بعد از وصال‘ ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سےکھلا کہ اقبال محض شاعر نہیں تھے بلکہ وہ ایک روحانی وجود بھی رکھتے تھے۔اقبال کے والد نور محمد خود ایک صاحب طریقت بزرگ تھے اقبال کی شخصیت کو روحانیت کی جاگ یہیں سے لگی ۔ بعض اوقات اقبال خود بھی باری کے بخار کے مریضوں کو پیپل کے پتوں پر قرآنی آیات کا وردکر کے دیتے تھے جسکےبعد مریض کا بخار اتر جاتا تھا۔کسی نے علامہ اقبال سے سوال کیا کہ آپ نےمغربی تہذیب میں رہ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کی پھر عملی طور پر کیسے اسلام کی طرف راغب ہوئے اور کیسے عشق رسول ﷺکے رنگ میں رنگے گئے؟ حضرت علامہ اقبال نےجواب دیا میں مغرب میں بھی رہا تو صبح کی نماز سے پہلے نوافل ضرور ادا کرتا ،دعا کرنے کے دوران ندامت کے آنسو جاری ہو جاتےپھر گڑ گڑاکر التجا کرتا
تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
میری دانش ہے افرنگی میرا ایماں ہے زناری
یہ دعا اللہ کے ہاں قبول ہوئی نیم بیداری اور نیم خوابی کی حالت میں رسول پاکﷺ کی زیارت کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ حضور کی اپنے ادنیٰ امتی اور غلام پر نگاہ رحمت تھی ۔نبی کریم ﷺنے اپنی رحمت کے طفیل میری چارہ سازی فرمائی ۔کہا جاتا ہے کہ اقبال درود خضری کا ورد بہت خضوع خشوع سے کرتے تھےاور درود کو انسان کی جسمانی اور باطنی بیماریوں کا علاج سمجھتےتھے۔ علی بخش ،حضرت اقبال کے خادم خاص تھے جو ان پرگزرنے والی روحانی وارداتوں کے شاہد اور رازدار تھے۔علی بخش نے کئی موقع پر ایسے روحانی واقعات بیان کیے کہ صوفیا اور بزرگ ہستیاں اقبال سے ملنےکیلئےان کے گھر تشریف لاتیں ،اقبال ان سے محو کلام ہوتے ۔ تیسری کتاب جو انتہائی اہم اور بڑی کتاب ہے وہ فرزند اقبال کی تحریر کردہ اقبال کی سوانح حیات ،زندہ رود ہے ،اس کتاب میں اقبال اپنی شخصیت کے ہزارہا رنگوں کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کتاب نہیں حضرت اقبال کی شخصیت پر ایک نگار خانہ ہے ایک دفعہ اس میںداخل ہو جائیں پھر نکلنا مشکل ہے۔ان کی شخصیت کی مکمل تصویر دیکھنے کو ملتی ہے جسے دیکھنے سمجھنےکیلئے علمی شعور اور ظرف چاہیے کیونکہ ہم اپنی پسندیدہ قومی شخصیات کو اپنی پسند کے خانوں میں فٹ کرنا چاہتے ہیں اس حقیقت کو سمجھے بغیر کہ کوئی شخصیت کتنی بھی بڑی ہو انسانی سطح پر اس کی وہی ضرورتیں ،خواہشیں ،خواب ہو سکتے ہیں جو کسی بھی ایک عام انسان کے اندر ہوں خوبیوں کے ساتھ انسانی کمزوریاں اور کوتاہیاں بھی شخصیت میں ہوسکتی ہیں ،اس کا راستہ بھی وہی ہو سکتا ہے جو کسی عام انسان کا راستہ ہے ۔زندہ رود میں ہمیں اقبال ایک عام انسان کے طور پر نظر آتے ہیں فکر معاش سے گزرتے ہیں پھر ان کے ازدواجی زندگی کے بحران ان کی پہلی شادی کی ناکامی اور ذہنی اذیت سے گزرتے ہوئے،یہ سب عین انسانی حالات ہیں کسی بھی انسان کو درپیش ہو سکتے ہیں۔ازدواجی زندگی کا باب اقبال کیلئے اتنا شاندار نہیں رہا، اقبال جیسے عالی دماغ کی کسی عام نیم تعلیم یافتہ خاتون سے ذہنی ہم آہنگی نہیں ہو سکتی تھی۔تین شادیوں میں ایک اہلیہ بھی اقبال کی ذہنی سطح کی نہ تھیں یہ خلا یقیناً ان کی ازدواجی زندگی میں موجود رہا ۔مغرب میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران وہ مغرب کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خوبصورت اور ذہنی طور پر عالی ذہن خواتین کی طرف ملتفت ہوئے ان کی دوستی ہوئی خط و کتابت بھی ہوتی رہی لیکن ظاہر ہے کہ ان کی شادی نہ ہو سکی ۔یہ سب وہ کچھ ہے جو ایک عام انسان کو درپیش ہو سکتا ہے انہوں نے شاعری بھی مسلمانوں کے زمانہ تنزل کےایک روایتی غزل گو کی حیثیت سے کی مگر یورپ کےقیام میںوہ ایک ذہنی اورقلبی انقلاب سے گزرے۔مسلمانوں کی دگرگوں حالت پر کڑھتے اور اپنی تحریروں میں ،خطوں میں اس کا تذکرہ کھل کر کرتے۔ انہوں نے اپنی شاعری سے فیصلہ کیا کہ احیائے ملت کا کام لیں گے۔وہ رفتہ رفتہ اپنے ذہنی اور روحانی ارتقا کے عروج پر پہنچے اسرار خودی لکھنے کا زمانہ ایک تخلیقی تجربے کے ساتھ ایک روحانی تجربہ بھی تھا۔ اقبال نے خود کہا کہ یہ مجھ سے لکھوائی گئی ہےان کی زندگی بتدریج ایک روحانی اور ذہنی ارتقا سے گزری قرآن کی حکمت اور معرفت بیسویں صدی میں جتنی علامہ اقبال پر منکشف ہوئی شاید کسی اور پر اس طرح سے منکشف نہیں ہوئی، اقبال کا یہ جوہر خاص ان کے کئی ہم عصر غیرمسلم اکابرین بھی پہچانتے تھے ۔سروجنی نائیڈو نے کہا تھا’’زمین لاکھ اقبال کی خاک کو پوشیدہ کرے مگر ان کا بے مثل جوہر آنے والی نسلوں کو خیرہ کرتا رہے گا ‘‘ لاہور کی زمین خوش قسمت ہے کہ اقبال جیسا عظیم روحانی پیشوا یہاں محوِ استراحت ہے۔خشک نصابی راستوں سے ہم اقبال کو نہیں سمجھ پائے اس تعلق کی تجدید کیلئے ان تین کتابیں کا مطالعہ ضروری ہے۔