جانے مظلوم کی آہ ساتویں آسمان تک پہنچتی ہے یا نہیں پہنچتی لیکن یہ طے ہے کہ اشرافیہ کی کوئی بھی قِسم ہو اس کی آواز کی مرضی ہے کہ وہ ساتویں آسمان پر بھی رُکے ، نہ رکے ، کیونکہ وہ اس سے بھی آگے نکل جاتی ہے... اس لئے مظلوم کو کسی قسم کی خوش فہمی پالنے کے بجائے کسی نُکر میں لگ کر آرام سے بچے پالنے چاہئیں مگر اس خیال کے ساتھ کہ بچے کم ہی اچھے گر زیادہ ہوگئے تو فائدہ اشرافیہ ہی کا ہے، کل کو اس کے ہاتھ مضبوط کریں گے۔ مظلوم نے تو بس پالنے ہی ہیں۔ آگے رب کی مرضی کہ وہ کس اشرافیہ کا ایندھن بنتے ہیں یا کس کے ووٹرز ؟ عام آدمی کی زندگی اور خوشی دونوں ہی بڑے مختصر ہوتے ہیں لیکن شبِ غم بہت طویل، اور اشرافیہ کی شادمانیاں دن دیکھتی ہیں نہ رات ، ہمواری دیکھتی ہیں نہ ناہمواری اپنا راستہ اور اُلو سیدھا کر ہی لیتی ہیں گویا منزل اور عام آدمی ہمیشہ اشرافیہ کے قدم چومتے ہیں۔اجی، ایک اسرائیل اور کینیڈا ہیں یا نیوزی لینڈ اور برطانیہ ہیں کہ وہاں جمہوریتیں بھی پھلدار اور حاکمین اور ملازمین بھی شجر سایہ دار ، ریاستیں بھی جنت نظیر کہ وہاں کی اشرافیہ کو عوام کے حقوق کی فکر کھائے جاتی ہے اور عوام کو اپنے فرائض کی ادائیگی سے فرصت نہیں۔ متذکرہ ممالک کی طرح سویڈن اور سان مارینو میں بھی اینکوڈڈ (مدوٌن) آئین نہیں۔ لوگ اخلاقی اقدار ، عدالتی فیصلوں اور قانونی خطوط ہی پر خوش و خرم جیتے جا رہے ہیں۔ وہاں حزب اختلاف اپنے ضوابط سے نہیں نکلتی اور حزبِ اقتدار اپنے اصول اور دائرے نہیں چھوڑتی۔ نہ کہیں ہوس کو دریچے کھلے ملتے ہیں نہ حرص پروان چڑھتی ہے کہ صاحبانِ اقتدار ملت سے جڑتے ہیں کسی اسٹیٹس کو سے نہیں!وضاحت یہ کہ غیر مدوّن آئین کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بنیادی قواعد حرفی طور پر’’غیر تحریری‘‘ ہیں۔ مطلب کچھ یوں کہ جہاں ملک چلانے والے قوانین اور اصول کسی ایک رسمی قانون کے طور پر یا اعلیٰ دستاویز میں موجود نہیں ہوتے۔ قانون سازی بھی ہوتی ہے مگر پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعے، کیس لا اور کامن لا ( عدالتی فیصلے) معاشی و معاشرتی نظیر ہوتے ہیں، رسم و رواج و معمولات اور بین الاقوامی معاہدے انسانی حقوق اور ریاست کے پاسبان ہوتے ہیں۔ توازن کی وجہ یہ ہے کہ ایک ادارہ دوسرے ادارے اور ایک عہدہ دوسرے عہدے سے نہیں ملا ہوتا سبھی عوام ، انسانی حقوق اور ریاست سے ملے ہوتے ہیں۔اچھا اب کوئی یہ نتیجہ نہ اخذ کر لے کہ خدا نخواستہ ہم آئین بیزار ہیں یا کسی دستور زباں بندی کے قائل ہیں۔ جی نہیں۔ ہم آئین کو زندہ دستاویز سمجھتے ہیں۔ ہم اس میں ترامیم کے بھی قائل ہیں۔ ہم مانتے ہیں امریکہ جیسے عظیم آئین میں بھی شقیں کہیں آپس میں متصادم اور کبھی خاموش ہو جاتی ہیں، کئی دفعہ دفعات خود سوال اٹھانا شروع کر دیتی ہیں اور کبھی کبھی پاپولر بیانیے کے خلاف کھڑی ہوتی دکھائی دیتی ہیں مگر ہر صورت میں انصاف، معیار ، پیار اور اختیار کی ضمانت دیتی ہیں... پھر بھی اس دھند ، اس فوگ اور اس قحط الرجال میں’’ تمہیں آنکھیں نہیں ملتی ہمیں چہرہ نہیں ملتا‘‘ یقین کیجئے اور اشرافیہ کو یقین دلائیں کہ غریب اور امیر دونوں انسان ہیں، ریاست میں مسلم اور غیر مسلم دونوں انسان ہیں، افسر اور ماتحت دونوں انسان ہیں۔ کیا یہاں بیوروکریٹ بادشاہ نہیں؟ کیا یہاں اشرافیہ در اشرافیہ بغیر بجلی بنائے غریب آدمی کو بجلی نہیں بیچتے؟ کیا یہاں جج قانون نہیں بیچتے؟چھوڑئیے ایک لطیفہ سنیےبانی پی ٹی آئی کہا کرتے تھے 18 ویں ترمیم سے وفاق کمزور ہو گیا سب صوبے لے جاتے ہیں اور وفاق پر دفاع کا بوجھ ہے سو مقروض ہو جاتا ہے۔ آج پی ٹی آئی کہتی ہے صوبوں کی خودمختاری پر آنچ نہیں آنے دینگے، 18ویں ترمیم اچھی ہے۔ اور شگوفہ یہ بھی کہ 2010میں 18ویںترمیم والوں کیساتھ 8ویں ترمیم والے بھی آگئے جیسے میثاقِ جمہوریت میں آئے تھے آج دیکھئے کہ آنے والے جانے کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ہم رعایا نے کیا کہنا ہے ترامیم کریں یا ہمیں تقسیم کریں جان کی امان پا کر بس عرض یہی ہے کہ این ایف سی ایوارڈ ، آئینی عدالتیں ، بہبود آبادی، الیکشن کمشنر تعیناتی ڈیڈ لاک اور 243 ’’ آپ کے سنگین مسائل‘‘ہیں مگر رعایا کا صرف ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ ہے نصیب کا ، صحت کا ، بےروزگاری کا، تعلیم و اعلیٰ تعلیم کا، اس ہائیر ایجوکیشن کی وزارتوں کو دوبارہ مرکز کو دیتے وقت ہو سکے تو ایک رتی برابر رعایا کو بھی دیکھ لیجئے گا کہ کسی اتھل پتھل سے تعلیمی انارکی نہ ہو...آپ کی تعلیمی ایمرجنسی بھی تو خاک ہوگئی تھی بہرحال ہم امید پر قائم عوام ، اچھے ہی کی امید رکھتے ہیں ۔ تعلیم مرکز کو دے کر بھی گر عاقبت نااندیش چیئرمین ایچ ای سی لگا دیں وہ بھی سفارش پر ، یا اصول ہی بدل ڈالیں کسی خاص کو ایف بی آئی سی ای کا چیئرمین لگاتے ہوئے یا متکبر وزیر لگا دیں، تو کسی خالی ترمیم سے کیا ہو جائے گا؟ اب پنجاب اور سندھ کی ایچ ای سیز کا کیا کریں گے؟ جو پنجاب میں سربراہانِ جامعات کی بڑی سفارشی لاٹ آئی ہے مرکز کس ویکسی نیشن سے ان سے یونیورسٹیوں کا بول بالا کرا لے گا؟ ویسے اپنا نہیں خیال کہ مریم نواز اور مراد علی شاہ ہائیر ایجوکیشن کو مرکز میں جانے دیں! این ایف سی ایوارڈ کے مقرر کردہ تقریباً 57 ٪ فیصدسے پیپلز پارٹی ادھر ادھر نہیں ہٹے گی حالانکہ اس پول سے تقریباً 52 فیصد پنجاب اور 24٪ فیصدسندھ کو ملتا ہے۔مختصر یہ کہ ترمیم سے موجودہ آئینی بینچ کی جگہ ایک نئی علیحدہ آئینی عدالت کا قیام ہوگا جو 9 ججوں پر مشتمل ہوگی اور مقصد آئین کی تشریح ہو گا۔ ججوں کی بالائی عمر کی حد 68 سے 70 سال کر دی جائے گی...ایگزیکٹو مجسٹریسی نظام کو بحال کیا جائیگاکہ جسے 2001 ءمیںختم کیا گیا تھا۔ بحالی کا بہرحال مقصد بنیادی امن و امان اور پرائس کنٹرول میں بہتری ہے... آرٹیکل 200کی ترمیم کہ، ہائیکورٹ ٹو ہائیکورٹ ٹرانسفرکیلئے متعلقہ جج اور چیف جسٹس کی رضامندی کی شرط کا خاتمہ ہو۔ آرٹیکل 243میں ترمیم یعنی مسلح افواج کا کمانڈ اور کنٹرول، اس میں کسی کو اعتراض نہیں، پیپلزپارٹی و دیگر سب راضی ہیں... صوبائی خود مختاری بہرحال 18 ویں ترمیم کی روح ہے،لیکن یاد رہے کہ انسانی حقوق اور انسانیت جو پورے آئین کی روح ہے، اس کا کیا ؟ اشرافیہ کبھی رعایا کا بھی سوچے گی کہ اپنا ہی؟ آئین اور ترمیم کا مسئلہ نہیں مسئلہ یہ ہے، کہ اشرافیہ میں ترامیم کب؟