• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوجوان وکیل نے بپھرے ہوئے لہجے میں پوچھا کہ آپ تو کہتے تھے کہ پاکستان کا آئین امریکا کے آئین سے بھی بہتر ہےاب بتائیے ستائیسویں ترمیم کے بعد اس آئین کو کسی ملک کا آئین کہا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ یہ نوجوان و کیل اکیلا نہیں تھا۔ اُس کے ساتھ تین اور وکیل بھی تھے اور وہ پارلیمنٹ میں محمود خان اچکزئی کو تلاش کر رہے تھے ۔ میں پارلیمنٹ ہاؤس کی لائبریری کی طرف جا رہا تھا ۔ آجکل پارلیمنٹ ہاؤس میں معمول کارش نہیں ہوتا ۔ کالے کوٹوں میں ملبوس چار وکلاء فرسٹ فلور پر اپوزیشن لیڈر کے خالی چیمبر کے سامنے آنے جانے والوں سے محمود خان اچکزئی کے بارے میں پوچھ رہے تھے لیکن مجھے دیکھ کر انہیں اچکزئی صاحب بھول گئے تھے ۔ میں نے چہرے پر مسکراہٹ سجا کر انہیں کہا کہ مجھے ذرا جلدی ہے لیکن ایک وکیل نے کہا کہ ہم آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے بس یہ بتا دیں کہ کیا آپ ستائیسویں ترمیم کے بعد بھی پاکستان کے آئین کو امریکا کے آئین سے بہتر قرار دیں گے ؟ میں نے اپنی سانس درست کی اور نوجوان وکیل سے کہا پیارے بھائی ! آپ آئین پاکستان کی دفعہ 38 کو بار بار پڑھیں اس دفعہ کی پہلی شق میں کہا گیا ہے کہ ریاست کسی بھی جنس ، ذات اور نسل سے بالاتر ہو کر تمام شہریوں کا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے دولت اور ذرائع پیداوار کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کو روکے گی۔ اس آئینی دفعہ کی دوسری ذیلی شق کہتی ہے کہ ریاست ملک میں دستیاب ذرائع، وسائل کے مطابق ہرشہری کو روزگار فراہم کرےگی ۔دفعہ 38 کی تیسری ذیلی شق کہتی ہے کہ ریاست ہر شہری کو سوشل سیکورٹی اور لازمی سوشل انشورنس بھی فراہم کرےگی اور دفعہ 38 کی چوتھی ذیلی شق کہتی ہے کہ ریاست ہر شہری کو روٹی ، کپڑا اور مکان بھی فراہم کرئےگی ۔ جب میں یہ عرض کرتا ہوں کہ پاکستان کا آئین امریکا کے آئین سے بہتر ہے تو ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ اس آئین پر عمل درآمد نہیں ہوتا ۔ اس آئین کی جن دفعات سے طاقتور لوگوں کے مفادات وابستہ ہیں اُن پر تو عمل درآمد ہوتا ہے اور طاقت کے چند ہاتھوں میں مزید ارتکاز کیلئے آئین میں بار بار ترمیم بھی کی جاتی ہے لیکن آئین کی جن دفعات کا تعلق عام آدمی کی فلاح سے ہے ان دفعات پر نہ عمل ہوتا ہے اورنہ عام آدمی کے مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے کوئی نئی ترمیم لائی جاتی ہے ۔شکر ہے کہ آئین کی دفعہ 38 کو ابھی تک نہیں چھیڑا گیا ۔ اس دفعہ کی ایک ذیلی شق میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ربا کو ختم کیا جائے گا لیکن ربا کے خاتمےکیلئے کوئی ٹائم لائن مقرر نہیں تھی ۔ چھبیسویں ترمیم میں مولانا فضل الرحمان نےسینیٹر کامران مرتضیٰ کے ذریعہ یہ شق شامل کرائی کہ یکم جنوری 2028 ء تک ربا کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ امید ہے کہ آنے والے وقت میں پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت ہر شہری کو روٹی ، کپڑا اور مکان کی لازمی فراہمی کیلئے بھی کوئی ٹائم لائن مقرر کرنے کی شق آئین میں شامل کرنے کیلئے کوئی ترمیم ضرور لائے گی ۔ میری گفتگو سُن کر نوجوان وکیل نے قدرے نرم لہجے میں کہا کہ اب یہ بھی بتا دیں کہ ستائیسویں ترمیم کے بعد یہ آئین ختم نہیں ہو جائے گا ؟ کیا صرف ایک شخص کو جیل میں رکھنے کیلئے اس آئین کو بار بار بدلنا ملک دشمنی نہیں ؟ اس آئین کو آئین کہنا آئین کی توہین نہیں ؟ ایک ہی سانس میں بہت سے سوالات پوچھنے والے اس نوجوان وکیل سے میں نے بڑے مودبانہ لہجے میں پوچھا کہ جس ادارے کی عمارت میں آپ مجھ سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں اس ادارے کا کیا نام ہے ؟ نوجوان وکیل نے جواب میں کہا کہ اس ادارے کا نام پارلیمنٹ ہے ۔ میں نے تھوڑی بلند آواز میں کہا کہ معاف کیجئے گا اس پارلیمنٹ کو میں اب پارلیمنٹ نہیں سمجھتا لیکن میں پھر بھی یہاں آتا ہوں اور آپ بھی یہاں گھوم رہے ہیں۔جس آئین کو آپ آئین نہیں سمجھتے یہ پارلیمنٹ اُسی آئین کے تحت چلتی ہے لہٰذا جن حالات اور جس ماحول میں ہم زندہ ہیں اُنہی حالات میں مجھے اور آپکو بہتری کا کوئی راستہ تلاش کرنا ہے ۔ نوجوان وکیل نے کہا ہم محمود خان اچکزئی کو تلاش کر رہے ہیں کیونکہ سپریم کورٹ محمود خان اچکزئی بنام ریاست پاکستان کیس میں یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ پارلیمنٹ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف کوئی ترمیم نہیں کر سکتی اور ہم چاہتے ہیں اچکزئی صاحب اسی فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کریں اور ستائیسویں ترمیم کو ختم کرائیں ،آپ ہمیں اچکزئی صاحب سے ملوا دیں۔ مجھے ان نوجوان وکلاء کی معصومیت پر بڑا پیار آیا ۔میں نے انہیں بتایا کہ اچکزئی صاحب نے آٹھویں آئینی ترمیم کیخلاف ایک درخواست دائر کی تھی ۔ سپریم کورٹ نے اس درخواست پر ایک تاریخی فیصلہ تو دیدیا تھالیکن آٹھویں ترمیم کو آخر کار پارلیمنٹ نے ریورس کیا ۔ آٹھویں ترمیم کے ذریعے جنرل ضیاء الحق نے تمام اختیارات پر قبضہ کر لیا تھا ۔ جنرل ضیاءالحق کی دنیا سے رخصتی کے بعد بھی کچھ لوگوں نے جنرل ضیاء بننے کی کوشش کی لیکن آخر کار اٹھارہویں نے آئین پاکستان کے اصل ڈھانچے کو بحال کیا ۔ اٹھارہویں ترمیم کیخلاف ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن راولپنڈی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جس پر سپریم کورٹ کے 17 میں سے 13 ججوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ کی کوئی ترمیم جمہوریت ، وفاقی پارلیمانی نظام اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں تو سپریم کورٹ ایسی کسی ترمیم کو اسٹرائیک ڈاؤن نہیں کر سکتی ۔ جسٹس عظمت سعید سمیت سات دیگر ججوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر کوئی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے تو سپریم کورٹ اُسے اسٹرائیک ڈاؤن کر سکتی ہے ۔اگر آپ یہ معاملہ عدالت لیکر جائیں گے تو اس معاملے کو وہی آئینی عدالت سنے گی جو ستائیسویں ترمیم کے تحت قائم ہوئی ہے اور جسے فی الوقت اُسی آئین کا تحفظ حاصل ہے جس آئین کو آپ آئین تسلیم نہیں کرتے۔میری بات سُن کر چاروں وکلاء معنی خیز انداز میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔ میں نے اُنہیں اچکزئی صاحب کا رابطہ نمبر دیا اور ہاتھ ملا کر آگے بڑھ گیا ۔ میں مجوزہ آئینی ترامیم کے ایک ایسے مسودے کے بارے میں سوچ رہا تھا جو کچھ عرصہ قبل وزیر اعظم صاحب کے سامنے رکھا گیا تھا۔مجھے بھی یہ مسودہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس مسودے میں کچھ ایسی دفعات اور شقیں بھی شامل تھیں جن کا براہ راست تعلق عام آدمی کے مسائل سے تھا ۔ ایک تجویز یہ بھی تھی کہ 25 اے کے تحت پانچ سے سولہ سال تک کے ہر بچے کو مفت تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہو گی۔ اس میں سولہ کو اٹھارہ سال کر دیا جائے ۔ ستائیسویں ترمیم کے مسودے میں یہ شق شامل نہیں کی گئی ۔ اُمید ہے کہ اسے اٹھائیسویں ترمیم میں شامل کر لیا جائے گا۔ کیونکہ اٹھائیسویں ترمیم بھی تیار ہے ۔ عرض ہے کہ کوئی ایک ترمیم ایسی بھی لے آئیں کہ جس پرعام پاکستانی کو یہ احساس ہو کہ شکر ہے ایک ترمیم ہمارے لئے بھی آگئی۔

تازہ ترین