’’دُنیا سب سے بڑی درس گاہ اور تجربہ سب سے افضل سند ہے۔‘‘ جب ایک بھکاری نے مُجھے شعور کا معیار بتلایا، تو مُجھے اس بات کا احساس ہوا۔ وہ مُجھ سے چند روپے کی بھیک لینے آیا تھا اور بیش قیمت علم دے کر چلا گیا۔ گداگر نے کہا، ’’تم میرے نام کوئی خط لکھتے ہو، مگر جب وہ سندیسہ مُجھے ملتا ہے، تو مَیں اُسے کھولے بغیر ہی کسی ریشمی غلاف میں لپیٹ کر کسی بلند مقام پر رکھ دیتا ہوں، تو مُجھے بتاؤ کہ اُس خط کی کیا حیثیت، اہمیت اور فائدہ ہوگا؟
یہی سلوک ہم کلام اللہ یعنی قرآنِ پاک کے ساتھ کرتے ہیں، جس کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔‘‘ بھکاری کی یہ بات میرےدل کو لگی اور مَیں اُس کی طرف پوری طرح متوجّہ ہوگیا۔ کچھ توقّف کے بعد وہ بولا۔ ’’جب تم کسی سے کہتے ہو کہ تم نے فلاں کام کرنا ہے۔
یہ تمہارا فرض اور ذمّے داری ہے۔ تمہیں اس کا معاوضہ ملے گا اور اس میں سراسر تمہاری ہی بھلائی ہے، تو کیا اب اُس شخص پر یہ لازم نہیں ہے کہ اگر وہ اپنے نفع و نقصان کا ادراک رکھتا ہے، تو وہ تمہارا حُکم مانے اور تم نے اُس کے ذمّے جو کام لگایا ہے، اُسے خوش اسلوبی سے مکمل کرے؟ اوراگروہ ایسا نہیں کرتا، تو تمہاری نظر میں اُس شخص کی کیا حیثیت ہوگی؟ کیا تم اس سے راضی ہوگے؟‘‘
ایک بھکاری کے منہ سے اس قدر پُرمغز باتیں سُن کر مُجھے شدید حیرت ہوئی۔اس کی گفتگو میں میری دل چسپی مزید بڑھ گئی۔ پھر اُس نے گہری سانس لی اور دوبارہ سلسلۂ کلام جوڑتے ہوئے بولا۔ ’’اللہ ربّ العزّت نے انسان کو اس دُنیا میں کسی خاص مقصد کے تحت بھیجا ہے۔ اُس کے رزق کا ذمّہ خود اُٹھایا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آج کے ترقّی یافتہ دَورمیں انسان اپنے اصل مقصدِ حیات سے بھٹک گیا ہے۔
اُسے پتا ہی نہیں کہ وہ اس دُنیا میں کس لیے آیا تھا، کیا کر رہا ہے، کس سمت جارہا ہے؟ تو کیا اُس کا خالق و مالک اُس سے ناراض نہیں ہوگا۔ ہم میں سے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی مشکلات اور زوال کا سبب اُن کی سیاہ بختی و بدقسمتی ہے، حالاں کہ ایسا نہیں، اصل وجہ اُن کے سیاہ اعمال ہیں۔ اور بُرے اعمال کا نتیجہ اچّھا نہیں نکل سکتا کہ یہ قدرت کا ایک اٹل اصول ہے۔‘‘
اسی قسم کا جملہ مَیں نے فرانسیسی مفکّر، ڈاکٹر گستاؤلی بان کی کتاب، ’’The Psychology of People ‘‘ میں بھی پڑھا تھا، جس کا اُردو ترجمہ ’’فلسفۂ عروج و زوالِ اقوام‘‘ کے نام سے ہوا ہے۔ فرانسیسی مفکّر لکھتا ہے کہ ’’جب کوئی مؤرخ کسی قوم کی تاریخ لکھنے بیٹھتا ہے، تو اگر وہ اُس قوم کی عادات و خصائل سے واقف نہیں، تو وہ اُس قوم کے عروج و زوال کو بخت یعنی قسمت کا نتیجہ قرار دے گا۔‘‘ اور دوسری دفعہ مَیں یہی بات اُس بھکاری سے سُن رہا تھا۔
مُجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میرے سامنے بیٹھا ایک بھکاری علم و حکمت کے ایسے موتی بکھیر رہا ہے۔ وہ کسی دینی مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے والا عالم تھا اور نہ ہی کسی بڑی یونی ورسٹی کا پی ایچ ڈی اسکالر۔ نہ ہی وہ کسی بڑے علمی و ادبی گھرانے کا چشم و چراغ تھا اور نہ ہی کسی علمی و ادبی تنظیم سے وابستہ کوئی دانش وَر یا ادیب۔ وہ محض ایک میٹرک پاس بھکاری تھا۔
چند روز پہلےمَیں ایک جگہ بیٹھا اخبار پڑھنے میں مصروف تھا کہ اچانک ایک عُمر رسیدہ بھکاری میرے ساتھ والی کرسی پر آکر بیٹھ گیا اور اُس نے مجھ سے اخبار مانگا۔ مُجھے شدید حیرانی ہوئی کہ ایک بھکاری بھی اخبار پڑھنے، حصولِ علم و آگہی میں دل چسپی رکھتا ہے۔ بہرکیف، مَیں نے عالمِ استعجاب میں اخبار لپیٹ کر اُس کے حوالے کردیا۔
کچھ ہی لمحوں بعد اُس نے اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے پر گفتگو شروع کردی اور مظلوم فلسطینیوں کے ضمن میں اُمّتِ مسلمہ کے کردار کو کوسنے لگا۔ مَیں اُس کی باتیں خاموشی سے سُنتا اور اُس کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا۔ جب اُسے یہ یقین ہوگیا ہے کہ مَیں اُس کی گفتگو دل چسپی سے سُن رہا ہوں، تو اُس نے وہ پُرمغز اور مدلّل باتیں شروع کردیں، جن کا مَیں نے ابتدا میں ذکرکیا۔ بھکاری کی ان متاثر کُن باتوں نے مُجھے اُس سے کچھ سوالات پوچھنے پر مجبور کردیا۔
لہٰذا جب وہ کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہوا، تو مَیں نے پہلا سوال کیا کہ ’’آپ کی تعلیم کتنی ہے؟‘‘ اُس بوڑھے گداگر نے جواب دیا کہ ’’میٹرک پاس ہوں۔‘‘ مَیں نے حیرت سے استفسار کیا کہ ’’پھر آپ اس حال میں......؟‘‘ تو وہ میرا سوال مکمل ہونے سے پہلے ہی گویا ہوا، ’’مَیں نے میٹرک کے بعد کچھ عرصہ فوج میں ملازمت کی اور پھر محنت مزدوری شروع کردی۔
اچّھی گزر بسر ہو رہی تھی کہ اچانک ٹانگ کی تکلیف میں مبتلا ہوگیا، جس کا سبب مَیں آج تک نہیں جان سکا کہ یہ کیوں اورکیسے ہوا۔ ٹانگ میں تکلیف کے سبب مَیں کھڑا ہوسکتا ہوں اور نہ زیادہ دیر تک بیٹھ سکتا ہوں۔ میرے پانچ بچّے ہیں، جو پڑھ رہے ہیں۔ مَیں اچّھی طرح جانتا ہوں کہ مَیں جس طریقے سے اپنے بیوی، بچّوں کا رزق سمیٹ رہا ہوں، وہ حقیرترین ذریعۂ معاش ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسا وقت کسی دشمن پر بھی نہ لائے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔
بھکاری کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ایک گھنٹا اس قدر تیزی سےگزرا کہ مُجھے پتا ہی نہیں چلا۔ تاہم، اُس روز مُجھے اندازہ ہوا کہ علم و حکمت اور دانش کا معیار محض اسناد اور ادارے نہیں ہوتے۔ نیز، اس دُنیا سے بڑی کوئی درس گاہ اور تجربے سے افضل کوئی سند نہیں۔ بس، آپ کو خاموشی، لاعلمی، معصومیت اورحیرت کی چادر اوڑھنے کی ضرورت ہے۔