• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تمام لوگ صبح سے ہی اکٹھا ہونا شروع ہو گئے تھے ، یہ شہر کا سب سے بڑا میدان تھا اور عین شہر کے بیچوں بیچ واقع تھا ، مرکزی شاہراہ اس کے قریب سے گزرتی تھی ، تمام اہم اعلانات یہی کئے جاتے تھے ، جس روز کوئی اہم واقعہ رونما ہوتا تو لوگ اپنے آپ یہاں جمع ہو جاتے ، حیرت کی بات یہ تھی جتنے لوگ میدان میں جمع ہوتے اسی تعداد کے مطابق میدان کا سائز تبدیل ہو جاتا، مگر شہر کے لوگوں نے کبھی اس بات کو نوٹ کرکے سراسیمگی کا اظہار نہیں کیا تھا ، شاید وہ اس بات کے عادی تھی ۔ لوگ اپنے تمام اہم فیصلے بھی یہیں نمٹاتے تھے تاہم آج انہیں قاصد کا انتظار تھا ، یہ قاصد ہر سال اس میدان میں آتا ، کہاں سے آتا اور کہاں چلا جاتا یہ کوئی نہیں جانتا تھا مگر اس کا انتظار یونہی ہر سال کیا جاتا، یوں لگتا تھا جیسے شہر کے لوگ ہر برس اس قاصد کا انتظار کرنے پر مجبور ہیں۔ اس اہم موقع کے لئے تمام لوگوں کی حاضری لازم تھی مگر اس کے باوجود ہر سال چند افراد ضرور اس اجتماع سے غیر حاضر پائے جاتے ، یہ لوگ ایسا کیسے کرتے، کوئی نہیں جانتا تھا۔ بہر کیف اس وقت میدان میں قبر میں پیر لٹکائے بوڑھے بھی موجود تھے اور شہر کے جوان بھی، دلکش عورتیں بھی جن کا جوبن اپنے عروج پر تھا اور بوڑھی مائیں بھی جن کے چہروں کی سلوٹوں کی بنا پر کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھنا پسند نہیں کرتا تھا، بچے بھی تھے معصوم اور شرارتی، اپنے ہی حال میں مگن، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ میدان میں کون آئے گا اور وہ یہاں کیوں بلائے گئے ہیں، بس وہ اپنے بڑوں کی انگلیاں تھامے چلے آئے تھے۔
تمام لوگوں کو قاصد کا بے چینی سے انتظار تھا، وہ ہر برس ایسے ہی آتا تھا، اس کے آنے کا باقاعدہ اعلان کیا جاتا اور نہ ہی کسی قاصد کی آمد کا یقینی وقت معلوم ہوتا مگر اس کے باوجود لوگ اسی طرح مقررہ وقت پر میدان میں جمع ہو جاتے۔ تاہم قاصد سے متعلق میدان میں چہ مہ گوئیاں ضرور ہوتیں، لوگ نہ صرف بڑے بوڑھوں سے سوال کرتے بلکہ آپس میں بھی ایک دوسرے سے پوچھتے کہ گزشتہ برس قاصد کیا پیغام لے کر آیا تھا۔ لیکن عجیب بات یہ تھی کہ کسی کو بھی یاد نہ آتا کہ قاصد گزشتہ برس کیا پیغام لایا تھا، اس پر لوگ کچھ خوفزدہ ہوتے مگر بڑے بوڑھے انہیں تسلی دیتے کہ برسوں سے ایسے ہی ہوتا آیا ہے اور ایسے ہی ہوتا رہے گا ، جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے خود کو اسی طرح میدان میں موجود پایا ہے، ہم قاصد کا انتظار کرتے ہیں، وہ ہر سال آتا ہےاور ہمیں ایک کاغذ تھما کر چلا جاتا ہے، ہماری تقدیر اسی کے ہاتھ میں ہے، ہمارے پاس اس کا انتظار کرنے کےسوا اور کوئی چارہ نہیں۔ نو عمر لڑکے اپنے بزرگوں سے سوال کرتے کہ قاصد جوکاغذ تھما کر جاتا ہے اس پر کیالکھا ہوتا ہے، ہم ہر برس اِس طرح اُس کا انتظار کیوں کرتے ہیں، آخر ہم یہاں اکٹھے ہی کیوں ہوتے ہیں، یہاں سے چلے کیوں نہیں جاتے؟بوڑھے ان سوالات کا جواب دینے سے قاصر تھے، انہوں نے بھی اپنی نو عمری میں بزرگوں سے ایسے ہی سوال کئے تھے مگر انہیں بھی کوئی جواب نہیں ملتا تھا۔ میدان سے نکلنے کی کوشش بیکار تھی، یوں لگتا تھا جیسے باہر جانے کا راستہ کسی کو یاد نہ ہو، لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے مگر ہر کوئی نفی میں سر ہلاتا، یوں لگتا جیسے کوئی بھی شخص کسی بات کا علم نہیں رکھتا، وہ کیوں یہاں آیا ہے، اسے کس کا انتظار ہے، وہ کب یہاں سے جائے گا، کسی کو کچھ نہیں پتہ۔ کچھ لوگ ضرور ان باتوں کو جاننے میں دلچسپی رکھتے تھے مگر زیادہ تر کے چہروں سے بیزاری اور لا تعلقی عیاں تھی، ایسے لوگوں کو دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کہ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ قاصد ان کے لئے کیا پیغام لاتا ہے، وہ بس میدان سے جلد از جلد نکلنا چاہتے تھے۔ عورتوں کا حال بھی اپنے مردوں سے مختلف نہیں تھا، انہیں بھی اس ساری کارروائی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، ان کی گود میں بچے تھے جن کے چہروں پر بلا کی معصومیت اور اطمینان تھا، پورے میدان میں شاید بچوں کے علاوہ کوئی بھی پر سکون نہیں تھا۔
شام ڈھل رہی تھی مگر قاصد ابھی تک نہیں پہنچا تھا، لوگوں کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی، جو لوگ ہوش سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ میدان میں آئے تھے اُن کا خیال تھا کہ کوئی نہیں آئے گا اور اُن کے بڑے بوڑھے ہر سا ل کسی غلط فہمی کی بنا پر انہیں یہاں اکٹھا کرتے ہیں اور پھر مایوس ہو کر پلٹ جاتے ہیں۔ انہوں نے واپس جانے کی کوشش کی مگر واپسی کا راستہ کسی کو نہ مل سکا، بے بس ہو کر انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، سوائے انتظار کرنے کے اور کوئی چارہ نہ تھا۔ لیکن شہر کے باسی اس بے بسی کے عادی ہو چکے تھے، میدان سے باہر بھی اُن کی زندگیاں مختلف نہیں تھیں، اُن کے کام کاج نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لی تھی، صبح اٹھ کر وہ مختلف کاموں میں جُت جاتے اور رات گئے واپس آتے، بہت کم لوگ ایسے تھے جن کی زندگی اس روٹین سے مختلف تھی، لیکن میدان میں حاضرہونا اُن لوگوں کی بھی اتنی ہی مجبوری تھی جتنی باقی لوگوں کی، تاہم ان لوگوں نے سوچ رکھا تھا کہ اس مرتبہ وہ قاصد سے اُس کی آمد کے متعلق سوال ضرور کریں گے۔
اچانک میدان کے ایک کونے سے غلغلہ بلند ہوا، کچھ لوگ شور مچا رہے تھے ،سب کی نظریں اُس طرف اٹھ گئیں مگر دھول اور گرد میں کچھ دکھائی نہیں دیا، آہستہ آہستہ دھول چھٹنا شروع ہوئی، اور پھر لوگوں نے دیکھاکہ میدان کے مرکزی دروازے سے ایک شخص داخل ہو رہا ہے، یہ دروازہ اس سے پہلے کسی کو دکھائی نہیں دیا تھا، اس کے ہاتھ میں کاغذوں کا ایک پلندہ ہے او ر وہ ہر شخص کو اس میں سے ایک کاغذ تھما دیتا ہے، بظاہر کاغذوں کی تعداد میدان میں موجود لوگوں سے کم ہے مگر اس کے باوجود قاصد ہر شخص کو پہچان کر کاغذ دے رہا ہے گویا اس کے پاس تمام افراد کے نام پیغام ہے جو ہر شخص کے لئے مخصوص کاغذ میں پوشیدہ ہے۔ قاصد بہت تیزی کے ساتھ میدان میں موجود لوگوں کو کاغذ تھماتا ہے، آن ہی آن میں تمام لوگو ں کو قاصد کے دئیے ہوئے کاغذ مل جاتے ہیں، سب لوگ جلدی جلدی قاصد کا پیغام پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ دیکھ کر اُن کی آنکھیں پھیل جاتی ہیں کہ ان کے کاغذ پر کوئی تحریر نہیں، وہ اسے الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں، ایک دوسرے کے کاغذوں پر نظر ڈالتے ہیں مگر میدان میں موجود تمام لوگوں کے کاغذ ایک جیسے ہیں، کسی پر کوئی تحریر نہیں۔ وہ جواب طلب نظروں سے قاصد کی طرف دیکھتے ہیں جو اسی داخلی دروازے سے باہر نکل رہا ہے جہاں سے اُس کی میدان میں آمد ہوئی تھی۔ جن لوگوں نے قاصد کی آمد پر سوال کرنے کا فیصلہ کیا تھا وہ قاصد کو دروازے پر روک لیتے ہیں، ایک نوجوان بڑھ کر کاغذ لہراتے ہوئے پوچھتا ہے ’’ان کورے کاغذوں کا کیا مطلب ہے، اس پر تو کوئی پیغام نہیں لکھا؟‘‘ قاصد مسکرا کر مجمع کی طرف دیکھتا ہے اور پھر سب کو بلند آواز میں مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے ’’تم اس پر جو چاہو لکھ لو، وہی تمہارے لئے زندگی کا پیغام ہے، اور جو نہیں لکھ پائیں گے وہ اسی طرح ہر برس یہاں اکٹھے ہو کر میرے پیغام کا انتظار کریں گے۔‘‘ یہ کہہ کہ قاصد دروازہ کھولتا ہے اور میدان سے باہر نکل جاتا ہے۔ میدان میں سناٹا چھا چکا ہے۔
تازہ ترین