• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ہی دن میں اتنے بہت سے ستارے بجھ گئے۔ سہ پہر میں محترمہ سیدہ عارفہ زہرا کے انتقال کی خبر آئی۔ رات گئے معلوم ہوا کہ استاذی عرفان صدیقی بھی رخصت ہو گئے۔ کوئٹہ سے برادرم عابد میر نے اطلاع دی ہے کہ میرے مہربان بزرگ اور سیاسی استاد سرور آغا بھی دس نومبر ہی کو داغ مفارقت دے گئے۔ سیاست اور تمدن کے ستاروں کا اوجھل ہونا کسی قوم کے لئے سیاسی اتار چڑھائو کے جلتے بجھتے ستاروں کے دائمی کھیل سے بڑا سانحہ ہوتا ہے۔ تاہم یہ سچ ہے کہ دس نومبر ہی کو ایوان بالا نے ستائیسویں آئینی ترمیم منظور کر کے ملک میں اختیار، فیصلہ سازی اور جوابدہی کے بندوبست کی بنیاد بدل ڈالی۔ اڑھائی سو ملین نفوس کے اس کلبلاتے ملک میں اس بندہ بے چہرہ کی اختلافی آواز کیا حیثیت رکھتی ہے؟ ساہیوال کے مرد درویش مجید امجد کی نظم ’فرد‘ کے دو دوامی مصرعوں کا سہارا ابھی باقی ہے۔ مصرعے کیا ہیں، تخلیق کار کے کلک دروں بیں نے چند لفظوں میں کائناتی تشکیک کا ایک اشارہ رکھ دیا ہے۔ ’اتنے بڑے نظام سے میری اک نیکی ٹکرا سکتی تھی / اگر اک میں ہی سچا ہوتا‘۔ سچ جھوٹ کے فیصلے تو وقت کے بیجوں میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ہم نے اس ملک میں ان گنت مدوجزر دیکھے۔

کیا ہم نے 12 اگست 1948 کو بابڑا (چار سدہ) میں وزیر اعلیٰ عبدالقیوم کے حکم پر سینکڑوں سیاسی کارکنوں کی شہادت نہیں دیکھی؟ 21 فروری 1952 کو ڈھاکہ میں مادری زبان کے نام پر بنگالی طالب علموں کی لاشیں گرتے نہیں دیکھیں؟ 8 جنوری 1953 میں طلبا حقوق مانگنے والوں پر کراچی میں گولی چلتے نہیں دیکھی؟ 6 مارچ 1953 کو لاہور میں مارشل لا کی پہلی مشق نہیں دیکھی؟ 17 اپریل 1953 کو بیورو کریٹ غلام محمد کے ہاتھوں خواجہ ناظم الدین کی برطرفی نہیں دیکھی؟ 24 اکتوبر 1954 کو ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا سانحہ ارتحال نہیں دیکھا؟ فوج کے سربراہ ایوب خان اور اسکندر مرزا کو وفاقی کابینہ کا رکن بنتے نہیں دیکھا؟ 10 مئی 1955 کو جسٹس محمد منیر کی دستور ساز اسمبلی کے انہدام پر مہر تصدیق لگتے نہیں دیکھی؟ ایوب خان کی تجویز پر وفاق پاکستان کی مغربی اکائیوں کو 22 نومبر 1954 کو ون یونٹ میں مدغم ہوتے نہیں دیکھا؟ 7 اکتوبر 1958 کے مارشل لا پر نظریہ ضرورت کی روایت قائم ہوتے نہیں دیکھی؟ اخبارات پر ریاستی قبضے اور صحافی کے لیے پریس ایڈوائس کا طوق نہیں دیکھا؟ 1962 میں فرد واحد کو خود نوشتہ دستور مسلط کرتے نہیں دیکھا؟ 4 جنوری 1965کو اہل کراچی کو فاطمہ جناح کی حمایت کی سزا ملتے نہیں دیکھی؟ 1968 میں کمانڈر انچیف یحییٰ خان کو صدر پاکستان ایوب خان کو یرغمالی بناتے نہیں دیکھا؟ 7 دسمبر 1970 کے انتخابی نتائج کو مسترد کر کے آپریشن سرچ لائٹ کی قیامت نہیں دیکھی؟ بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت برطرف ہوتے نہیں دیکھی؟ 23 مارچ 1973کو لیاقت باغ میں گولی چلتے نہیں دیکھی؟ منتخب حکومت کے زیر اہتمام پہلے عام انتخابات میں وزیراعظم اور تمام وزرائے اعلیٰ کو بلامقابلہ منتخب ہوتے نہیں دیکھا؟ نوے روزہ مارشل لا کو گیارہ برس طویل ہوتے نہیں دیکھا؟ مذہب کے نام پر سیاست، تعلیم اور تمدن کی دیواریں منہدم ہوتے نہیں دیکھیں؟ جہاد کے نام پر ملک کو اسلحے اور منشیات کا ٹھکانہ بنتے نہیں دیکھا؟ غیر جماعتی انتخابات میں قومی سیاست کا جنازہ اٹھتے نہیں دیکھا؟ 16 اکتوبر 1985 کو دھونس دھمکی سے آٹھویں آئینی ترمیم منظور ہوتے نہیں دیکھی جس نے پارلیمانی نظام حکومت کو صدارتی نظام میں بدل دیا۔ ملک میں فرقے اور زبان کے نام پر مسلح گروہ کھڑے کر کے ہزاروں شہریوں کے خون سے ہولی کھیلتے نہیں دیکھی؟ ذاتی مفاد کے لیے سیاسی جماعتوں کے نام پر برساتی کھمبیوں کی کاشت نہیں دیکھی؟ ملکی مفاد کو غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھ رہن رکھتے نہیں دیکھا؟ ملکی معیشت کو پیوستہ مفادات کی دلدل میں اترتے نہیں دیکھا؟ دستور کی خود ساختہ دفعہ اٹھاون (2 بی) کی گلوٹین پر منتخب حکومتوں کے گلے کٹتے نہیں دیکھے؟ عوام کا حق حکمرانی غصب ہونے پر عدالت عظمیٰ کو منقار زیر پر نہیں دیکھا؟ کیا ہم نے سیاست کو حرف دشنام قرار پاتے، سیاست دان کو قابل نفرین کہلاتے اور مرغان دست آموز کو اقتدار کی راہداریوں میں راج ہنس کی چال چلتے نہیں دیکھا؟ان دنوں جو صحافی قطار اندر قطار ’فائلیں دیکھنے‘ کا اعتراف فرما رہے ہیں کیا ان سے کسی نے دریافت کیا کہ سرکاری دستاویزات تک ان کی رسائی کیسے ہوئی اور ان کی صحافتی ژرف نگاہی پر آفرین ہے کہ وقتی مفاد کے لیے قوم کو گمراہ کرتے رہے۔ 27 ویں آئینی ترمیم پر نقد و نظر تو آج کے چوگان کی تفصیل ہے ہم تو 22 دسمبر 2010 کو عدلیہ کے حکم پر 19ویں آئینی ترمیم بھی منظور کر چکے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ذوالفقار علی بھٹو نے مارچ 1976 میں قائم کیا تھا اور اس منصب پر فائز ہونے والے پہلے عسکری رہنما جنرل محمد شریف جولائی 1970 کے مارشل لا کو کھلے عام ’غیر آئینی اقدام‘ قرار دیتے تھے۔ جنرل خالد محمود عارف کے مطابق انہوں نے جولائی 1977 ہی میں استعفیٰ پیش کر دیا تھا۔ اگرچہ یہ عہدہ بنیادی طور پر اعزازی تھا اور اسے عسکری معاملات پر کوئی حقیقی اختیار حاصل نہیں تھا لیکن نصف صدی تک یہ امر بہت سے رجال کار کی آنکھوں میں چبھتا رہا کہ انہیں رسمی طور پر ایک سینئر رہنما سے نچلا درجہ حاصل تھا۔ بالآخر نصف صدی کی رستاخیز رنگ لائی۔ اب فوج کے سربراہ اور چیف آف آرمڈ فورسز کے مناصب کو یکجا کر دیا گیا ہے اور نوتخلیق منصب کو جوابدہی سے استثنا دے کر سربراہِ مملکت کے برابر لا کھڑا کیا گیا ہے۔ آئینی عدالت کے قیام اور ہائیکورٹ کے ججوں کے تبادلہ جات سے قطع نظر، بنیادی بات یہ ہے کہ ہائبرڈ نظام حکومت کو آئین کے صفحات پر جگہ مل گئی ہے۔ آج کے خبر نویس سے توقع رکھنا تو کار لاحاصل ہے۔ آنے والا مورخ بتائے گا کہ اس تبدیلی سے ملک کے سیاسی مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ فی الحال معراج فیض آبادی کا شعر ملاحظہ کیجئے۔

مرے تھکے ہوئے شانوں سے بوجھ اتر تو گیا

بہت طویل تھا یہ دن مگر گزر تو گیا

تازہ ترین