سینیٹ سے منظوری کے بعد آج قومی اسمبلی میں بھی 27ویں آئینی ترمیم منظور کرلی گئی، آئینی ترمیم کی حمایت میں 234 ارکان نے ووٹ دیا جبکہ 4 نے مخالفت میں ووٹ کیا۔
اس سے قبل 27ویں آئینی ترمیم کی تمام 59 شقیں دو تہائی اکثریت سے منظور کی گئیں، جس کے بعد حتمی منظوری دی گئی۔
ووٹنگ کا عمل ڈویژن سے ہوا، ترمیم کے حق اور مخالفت میں ووٹ کرنے والے اراکین کو الگ الگ لابی میں جانے کی ہدایت کی گئی۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27ویں آئینی ترمیم کی تحریک پیش کی، جس کے بعد آئینی ترامیم پر شق وار ووٹنگ کا عمل شروع ہوا۔
قومی اسمبلی میں حکومت نے 27 ویں آئینی ترمیم میں 8 نئی ترامیم پیش کیں، چار شقیں نکالنے اور چار شقیں ڈالنے کی ترامیم پیش کی گئیں۔
آئین کے آرٹیکل 6 کی شق 2 میں وفاقی آئینی عدالت کا لفظ شامل کیا گیا، آئین کے آرٹیکل 10 میں لفظ سپریم کورٹ کا اضافہ کیا گیا ہے۔
آرٹیکل 176 میں ترمیم کی گئی کہ موجودہ چیف جسٹس کو ٹرم پوری ہونے تک چیف جسٹس پاکستان کہا جائے گا۔
آرٹیکل 255 شق دو میں ترمیم کی گئی کہ موجودہ ٹرم کے بعد چیف جسٹس پاکستان کی تعیناتی سے متعلق ہے، چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت میں سے سینئر ترین چیف جسٹس پاکستان ہو گا۔
اپوزیشن ارکان نے اسپیکر ڈائس کے سامنے دھرنا دے دیا، جے یو آئی نے مخالفت میں ووٹ دیا۔
اپوزیشن ارکان نے قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کیا، پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی سید خورشید شاہ ویل چئیر پر پارلیمنٹ پہنچے۔
حکومت کو ترمیم کیلئے 224 اراکین کی حمایت درکار ہے، خورشید شاہ کے اجلاس میں شریک ہونے کے بعد حکومت کے پاس 234 اراکین ہوگئے، حکومت کی قومی اسمبلی سے آئینی ترمیم منظور کروانے کیلئے پوزیشن مستحکم ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہم نے 27ویں ترمیم کے خدوخال سامنے رکھ دیے تھے، چیف جسٹس پاکستان سے متعلق ترامیم میں کچھ ابہام تھا، چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی ہی چیف جسٹس رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان کا عہدہ برقرار رہے گا، آئینی عدالت اور سپریم کورٹ سے جو جج سینئر ہوگا وہ چیف جسٹس پاکستان کہلائے گا۔
وزیر قانون نے کہا کہ اچکزئی کی باتوں کا جواب نہیں دوں گا۔