ہر سال کی طرح آج 13نومبر کوانسانیت کا درد رکھنے والے عالمی یومِ مہربانی منارہے ہیں، ورلڈ کائینڈنیس ڈے کا مقصد عصرحاضر کے نفسانفسی کے دور میںرنگ، نسل،قومیت اور ہر قسم کے تفرقات سے بالاتر ہوکر انسانوں میں ہمدردی، رحم دلی، محبت اور خیر خواہی کے جذبے کو پروان چڑھانا ہے۔تاریخی طورپر عالمی یومِ مہربانی کی ابتداء آج سے ستائیس سال قبل ہوئی جب جاپان، کینیڈا، آسٹریلیا، یو اے ای، امریکہ، برطانیہ سمیت دیگر ممالک کی فلاحی و سماجی تنظیموں نے باہمی طور پر ورلڈ کائینڈنیس موومنٹ کے تحت طے کیا کہ دنیا کے مختلف معاشروں میں بسنے والوں کو مہربانی کےآفاقی رشتے میں پروتے ہوئےایک دوسرے کے قریب لایا جائے، اس اجلاس میںہر سال 13نومبر کا دن اس کارِخیر کیلئے مختص کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ آج یہ دن درجنوں ممالک میں زوروشور سےمنایا جاتا ہے،اس موقع پر تعلیمی ادارے، سماجی تنظیمیں اوردردمند افراد مختلف فلاحی سرگرمیوں کے ذریعے دوسروں کی مدد اور نیکی کے کاموں کو فروغ دیتے ہیں، کہیں مفت کھانے تقسیم کیے جاتے ہیں، کہیں خون کے عطیات دیے جاتے ہیں، تو کہیں معذوروں یا بزرگوں کیلئے خصوصی پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں۔بلاشبہ آج ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں انسان کے پاس ہرقسم کی سہولت، ہر جدید ایجاد اور ہر ممکن آسائش تو موجودہے مگر انسانی دِلوں سے مہربانی،نرمی اور احساس ختم ہوتا جا رہا ہے، آئے روز ایسی بھیانک، انسانیت سوز خبریں سامنے آتی ہیں جن سے میرے جیسا ہر دردمند انسان لرز اُٹھتا ہے۔آج اکیسویں صدی میں معاشرہ ضرور ترقی کر رہا ہے لیکن بدقسمتی سے انسانیت زوال پذیر ہے۔میں نے دنیا کے ہر مذہب کا مطالعہ کیا ہے اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہر مذہب کی مشترکہ بنیاد انسانیت ، رحم دلی اور مہربانی ہے، اللہ نے اپنے آخری نبی ﷺکو خود تمام جہانوں کیلئے رحمت اللعالمین قرار دیا، انہوںنے فرمایا کہ’ جو رحم نہیں کرتا ، اس پررحم نہیں کیا جائے گا‘،آپ نے اپنےدشمنوں کے ساتھ بھی نرمی اور درگزر کا سلوک کیااور کبھی کسی کیلئے بُرا نہیں چاہا۔ہندو دھرم میں اہنسا (عدم تشدد)کے تحت کسی بھی جاندار بشمول انسان چرند پرند کو نقصان پہنچانا سخت گناہ ہے،بھگوت گیتا اور ویدوں میں یہ درس ملتاہے کہ انسان کو سب کے ساتھ احترام اور شفقت سے پیش آنا چاہیے، کرما تھیوری یہ کہتی ہے کہ جو شخص دوسروں کیلئے بھلائی کرتا ہے، اسکو اوپر والا مالک نیکی کا پھل کئی گنا بڑھا کر واپس دیتا ہے۔ مسیحیت کی تعلیمات کے تحت اگر کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو اپنا دوسرا گال پیش کردو۔گوتم بدھا نے اپنے پیروکاروں کو تلقین کی کہ اگر تم دنیا میں امن سے رہنا چاہتے ہو تو سب جانداروں کیلئےاپنے دل میں محبت رکھو۔ جین پیروکار نہ صرف انسانوں بلکہ تمام جانداروں، حتیٰ کہ کیڑے مکوڑوں تک کو نقصان پہنچانے سے اجتناب کرتے ہیں۔باباگرو نانک دیو جی نے فرمایاکہ جو دوسرے کے دُکھ کو اپنا دُکھ سمجھے، وہی سچا انسان ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہر دین دھرم میں دھرتی کےمالک کی خوشنودی سیوا (خدمت) میں پنہاںہے، اگر ہم کسی پر مہربانی کرتے ہیں تو دراصل ہم مالک کی لاتعداد رحمتوں اور برکتوں کے قریب ہو جاتے ہیں، مہربانی ایک ایساروحانی فریضہ ہے جو انسان کو پاکیزگی، سکون اور نجات کی طرف لے جاتا ہے۔میری نظر میں مہربانی آپ کی شخصیت کے ہر پہلو سےچھلکنی چاہیے،اگر آپ کسی بزرگ کو سڑک پار کرانے میں مدد کرتے ہیںتو یہ مہربانی ہے،اگر آپ کسی کی بدکلامی کے جواب میں خاموش ہوجاتے ہیںتویہ بھی مہربانی ہے، اگر آپ گالم گلوچ نہیں کرتے اور اپنی گفتگو میں الفاظ کا اچھا چناؤ کرتے ہیں تو یہ بھی مہربانی ہے۔اگر آپ کسی کی تعریف کرتے ہیں، کسی کو حوصلہ دیتے ہیں، یاانتقام لینے کی طاقت رکھنے کے باوجود کسی کو معاف کر دیتے ہیں تو یہ سب مہربانی کے مظاہرہیں۔تاہم بدقسمتی سے پاکستان جیسے معاشروں میں مہربانی کا فقدان نظر آتا ہے، گزشتہ سال جب مجھے ایک خوفناک ٹریفک حادثے کا سامنا کرنا پڑا شدت سے احساس ہواکہ سڑک پر کوئی زخمی پڑا ہو تو لوگ تصویریں بناتے ہیں مگر مدد نہیں کرتے،اپنی مصروف زندگی میں مگن رہتے ہیں لیکن کسی سے ہمدردانہ کلمات کیلئے بھی وقت نہیں نکالتے۔ہماری سیاست میں بھی مہربانی کا پہلو ناپید ہو چکا ہے،میں نے ٹی وی ٹاک شوز میں شریک ہونا اس بناء پر ترک کردیا ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما ایک دوسرے پر الزام تراشی، تضحیک اور نفرت انگیز زبان کا استعمال عام کر چکے ہیں ۔پاکستانی سماج کا یہی وہ تکلیف دہ خلا ہے جسے پُر کرنے کیلئے میں نے تھرپارکر کے پسماندہ علاقے میں پریم نگرکے قیام کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا ہے، ایک سو دس ایکڑ پر محیط وانکوانی پریوار کا یہ فلاحی میگا پراجیکٹ عنقریب پاکستان میں بھلائی، ہمدردی اور انسانیت کا عملی نمونہ بنے گا، یہاں پر انسانیت کے ناطے یتیم بچوں، بوڑھے افراد، معذوروں، بیواؤں اور دیگر کو عزت و احترام سے رہنے کیلئے شیلٹر فراہم کیا جائے گا ، میں نے تعلیم، صحت اور باعزت روزگار کے دیگر منصوبوںکے تحت معاشرے کے پسے ہوئے افراد کو کارآمد ،مفید شہری بنانےکیلئے عملی روڈمیپ کی تیاری میں اس امر پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے کہ پریم نگر میں قائم تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل اسٹوڈنٹس اور مستفید ہونے والے افراد خدمت انسانیت کے جذبے سے سرشار ہوں۔ میری زیرسرپرستی پاکستان ہندو کونسل کے زیراہتمام سیوا سیچرڈےکے تحت بھلائی، ہمدردی اور مہربانی کے جذبات اجاگر کرنے کیلئےہفتہ وار آگاہی مہم چلائی جارہی ہے۔ آئیے، عالمی یومِ مہربانی پر یہ عہد کریں کہ ہم دوسروںکیلئے آسانیاں پیدا کریں گے، غمزدہ دِلوں کو تسلی دیں گےاور انسانیت کی خدمت کریں گے۔اگر ہم مہربانی کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تومجھے یقین ہے کہ نہ صرف انتقام،جرائم، غصہ اور منفی رویوں پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ برداشت اور مکالمے کی فضا پیدا ہونے سے ہماری دھرتی امن کا گہوارا بن جائے گی۔ کرو مہربانی تم اہل زمیں پر ،خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر…!