• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چار نومبر کو امریکہ کے شہر نیویارک میں ہونے والے میئر کے انتخابات میں ظہران ممدانی کی کامیابی کے چرچے دنیا کے ہر کونے میں پھیلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور گمان گزرتا ہے کہ جیسے پوری دنیا نے ان انتخابات کے نتائج پر نظریں جما رکھی تھیں ۔ دنیا کی سپر طاقت امریکہ کے سب سے بڑے شہر میں پہلی دفعہ ایک مسلمان امریکی شہری کا میئر بن جانا ایک سیاسی اور سماجی انقلاب سمجھا جا رہا ہے۔ظہران ممدانی کو اس کے علاوہ 1892کے بعد نیو یارک کا سب سے کم عمر مئیر بننے کا اعزاز بھی حاصل ہو گیا ہے ۔ اس انتخاب پر پوری دنیا کی نظریں مرکوز ہونے کی وجہ جہاں اس امیدوار کا مذہبی اور ثقافتی پس منظر تھا تو وہاں اسکی شہرہ آفاقیت میں امریکی سیاسی اشرافیہ کا کھلم کھلا ظہران ہمدانی کی مخالفت میں میدان میں اُترنا بھی تھا ۔

ممدانی جب اپنی پارٹی کی اشرافیہ کو شکست دے کر ڈیموکریٹک پارٹی کا امیدوار نامزد ہوا تو اسکی پارٹی میں نامزدگی کے مرحلے پر شکست پانے والا نیویارک کا سابق گورنر اینڈریو کومیو بطور آزاد امیدوار اُسکے سامنے آگیا اور پھر وقت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ ظہران ممدانی کی کامیابی کو روکنے کیلئے امریکی صدر ٹرمپ کو اپنی مخالف سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک آزاد اُمیدوار کی حمایت میں میدان میں کودنا پڑ گیا۔ یہی نہیں بلکہ ممدانی کو ناکام بنانےکیلئے صدر ٹرمپ نے اپنی ساری قوت صرف کرتے ہوئے نیو یارک کے ووٹروں کو ڈرانے کیلئےوفاقی گرانٹ روکنے کی دھمکی سے لے کر ظہران پر ذاتی نوعیت کےسخت سیاسی وار بھی کئے جس میں اُسے کیمونسٹ گردانا جو کہ امریکہ میں سیاسی گالی تصور کی جاتی ہے اور پھر ظہران ممدانی کو جہادی تک قرار دے دیا گیا لیکن نیویارک کے رائے دہندگان نے ان تمام الزامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ظہران ممدانی کے حق میں ووٹ دے کر اُسے کامیاب کروادیا۔ جو رائے دہندگان کے سیاسی شعور کی بلوغت کی عکاسی ہے۔

ظہران ممدانی کی کامیابی یہ نہیں کہ ایک انڈین نژاد جیت گیایا ایک مسلمان جیت گیا ہے بلکہ اسکی فتح یہ ہے کہ نیو یارک کا ایک شہری امریکی سیاسی مقتدرہ کی خواہش کے برعکس جیت گیا جسکا مطلب یہ ہے کہ اس شہر کو چلانے والے دستور نے اپنے لوہا منواکر یہ پیغام دیا ہے کہ میری آغوش میں پرورش پانے والے اور اس شہر میں امان لینے والے کو یہ حق ہے کہ وہ اس کے شہریوں کو اپنی قابلیت کا یقین دلا کر انکی تائید و حمایت سے اس شہر کی باگ ڈور سنبھال لے اور اس منصب تک دسترس کیلئے اس کا مذہبی عقیدہ اور آبائی پہچان رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ قائدانہ اہلیت و صلاحیت کی بنیاد پر وہ لوگوں کی حمایت حاصل کرتے ہوئے انکے شہر کا نظام و انصرام چلائے گا لہٰذا ظہران ممدانی کی کامیابی جہاں اسکی شخصی کامیابی ہے وہاں یہ اس دستور کی کامیابی ہے جو اپنے شہر کی سربراہی کیلئے طریقہ انتخاب کے حوالے سے رنگ ونسل، مذہب اور لسانی وابستگی سے متعلق اندھا اور بہرہ ہے لہٰذا اس نظام اور اس شہر والوں نے اس کو اسلئے چنا ہےکہ وہ اس شہر کی حکمرانی کی دوڑ میں میدان کے اندر موجود دوسرے امیدواروں سے زیادہ قابل ہے اور شہری انتظامیہ کو دوسرے امیدواروں سے بہتر چلا سکتا ہے اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور شہری مسائل کا بہتر ادراک رکھتا ہے۔ اسکے ساتھ یہ بھی ذہین نشین رکھا جائے کہ ظہران ممدانی کے حق میں ووٹ دینے والے اسکے مذہبی عقیدہ اور آبائی وابستگی سے بے خبر نہیں تھے لیکن انکے نزدیک یہ بات ثانوی حیثیت رکھتی ہے اُنکی اول ترجیح اُمیدوار کی سیاست ہے ۔ اور یہی وہ اصول پسندی اور خود اعتمادی ہے جس سے سرشار نیویارک کے ووٹروں نے ظہران ہمدانی کے خلاف مذہبی اور لسانی کارڈ کے استعمال کو سختی سے رد کرتے ہوئے بھاری اکثریت سے اُسے کامیاب کروایا جو اُنکا اپنے نظام پر مکمل اعتماد اور اسکی مضبوطی اور پائیداری پر غیرمتزلزل یقین کا ثبوت ہے ۔ کیونکہ انہیں یقینِ کامل ہے کہ اُنکا منتخب کردہ سربراہ امریکی روایات کے مطابق اپنی مذہبی اور آبائی پہچان کو نظام پر فوقیت نہیں دے گا اور اگرخدانخواستہ کبھی ایسا ہو بھی گیا تو پھر اس نظام میں اتنی سکت و قوت ہے کہ وہ اسکو اندر سے روک لگا دے گا۔لہٰذا اس انتخاب نے نیویارک شہر کی جمہوریت کے حُسن اور قوت کو مزید نکھارا ہے۔ ظہران ممدانی کی کامیابی اور اس جیسے جمہوری نظام میں کہیں اور بھی جب اقلیتی مذہب اور لسانی پس منظر رکھنے والوں کو موقع دستیاب ہوتا ہے تو اُن کی ذمہ داری بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے کیونکہ انکوصرف اس عہدے کے تقاضوں کے مطابق ہی اپنی کارکردگی نہیں دکھانی ہوتی بلکہ وہ کسی ضابطے اور تقاضےکی عدم موجودگی کے باوجود اپنی مذہبی وابستگی اور لسانی یا آبائی پہچان کے سفیر کی ذمہ داری بھی لا شعوری طور پر ادا کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ایسے منتخب عہدہ پر انکی اچھی کارکردگی انکی مذہبی اور ثقافتی شناخت کیلئے خیر سگالی کا باعث بنتی ہے ایسی صورتحال میںاحسن طریقے سے اپنے منصب سے عہد برآ ہونا انکے مذہب کیلئے ایک مثبت تاثر کی بنیاد بن جاتا ہے، جس سے کثیر المذہبی ہم آہنگی تقویت پاتی ہے۔آج جو مسلمان بطور تشکر یا بطور فخر ظہران ممدانی کی کامیابی پر اسکے مذہبی پس منظر کو نمایاں کر رہے ہیں تو ان پر اب یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی نمایاں ہونے والی مذہبی وابستگی کو مد نظر رکھتے ہوئے ،بحیثیت اُن شہر وں کے شہری ،ایسے رویوں کو اپنائیں جس سے مسند اقتدار پر بیٹھے انکے ہم مذہب سربراہ کیلئےآسانیاں پیدا ہوں اور اس کی نیک نامی میں اضافہ ہو۔لہٰذا اب حالات اُن سب سے اُسی فراخدلی ، رواداری اور متانت کا تقاضہ کرتے ہیں جسکے پیش نظر دوسرے مذاہب کے لوگوں نے ایک مسلمان قائد پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسےاپنے شہر کے سب سے بڑےاور معتبر عہدے کیلئےمنتخب کیاہے۔ کثیرالثقافتی اورکثیرالمذہبی معاشروں کے شہری کی حیثیت سے مذہبی رواداری ایک اہم اصول ہے جس میں انسان باہمی رشتوں کی بنیاد پر اجتماعی فلاح و بہبود اور بھائی چارے کی فضا کو فروغ دیتے ہیں تاکہ معاشرہ سب کیلئے امن اور خوشحالی کا گہوارہ بن سکے۔

تازہ ترین