• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ کے موجودہ عہد ظلمات کو آئندہ مؤرخ مقبولیت پسندی سے منسوب کرے گا۔ مقبولیت پسندی صرف سیاسی ہتھیار ہی نہیں، صحافت میں بھی رائے عامہ گمراہ کرنے میں کام آتی ہے۔ اس کا پہلا اصول پارسائی کی ڈھال اٹھا کر دوسروں پر تیر اندازی کرنا ہے۔ مقبولیت پسندی کو دلیل یا توازن سے نہیں، اندھے جذبات کے بیوپار سے غرض ہوتی ہے۔ مقبولیت پسندی رائے عامہ میں موجود مخالف یا ناپسندیدہ دھاروں کی نفی کرتے ہوئے خود کو ملک و ملت کا واحد نمائندہ اور خیر خواہ ثابت کرتی ہے۔مقبولیت پسند رہنما یا صحافی غلطی سے مبرا ہوتا ہے۔ وہ کچھ آزمودہ تعصبات کو ہوا دے کر یا مسلمات کے کندھے پر سوار ہو کر اپنی سروقامتی کا پھریرا لہراتا ہے۔ اسے سیاسی عمل کی حرکیات سے غرض نہیں ہوتی البتہ گاہے گاہے ہوا کا رخ دیکھ کر ایسا مؤقف ضرور اپناتا ہے جس سے اس کی ہوا بندھی رہے۔ مقبولیت پسندی کو ایک دشمن کی ضرورت ہوتی ہے جس پر تبریٰ کر کے وہ اپنی ہی خوش بیانی پر پھدکتا رہے۔ بظاہر اقتدار اور اختیار کو للکارتے ہوئے درون خانہ رہ و رسم آشنائی قائم رکھے۔ یہ آج کے عہد کی حقیقی عیاری ہے۔

ہماری صحافت میں اس عیاری کی روایت قدیم ہے۔ علامہ اقبال کے ایک عہد ساز شاعر اور عمیق مفکر ہونے میں دو رائے نہیں لیکن ان کی سیاست تاریخ کا حصہ ہے۔ وہ قائداعظم کے مقابل بننے والی شفیع لیگ کے جنرل سیکرٹری رہے۔ سائمن کمیشن کی لاہور آمد پر استقبالیہ وفد کا حصہ تھے۔ پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی میں چار سالہ رکنیت کے دوران ان کی کسی پالیسی تقریر یا قانون سازی میں سرگرم حصے کا تذکرہ نہیں ملتا۔ وہ اول و آخر ایک شاعر اور مفکر تھے۔سیاسی چک پھیریوں سے انہیں کم ہی تعلق تھا۔ قائداعظم کے ساتھ ان کی خط و کتابت مئی 1936 ء سے نومبر 1937 ء تک کل تیرہ خطوط پر محیط ہے۔ قائداعظم نے 27مارچ 1943 ء کو ان خطوط کے مجموعے پر پیش لفظ میں افسوس ظاہر کیا ہے کہ ان کے پاس اقبال کے نام لکھے خطوط کی نقول موجود نہیں ۔ جناح صاحب نے لاہور میں اقبال کے قریبی حلقوں سے بھی دریافت کیا لیکن انہیں اپنا کوئی خط دستیاب نہیں ہو سکا۔ دونوں رہنمائوں کے سیاسی مکالمے کا اہم ترین حصہ قائداعظم کے نام اقبال کا آخری دستیاب خط ہے جو 10نومبر 1937ء کو تحریر کیا گیا۔ اس خط میں اقبال نے سکندر جناح پیکٹ کی مخالفت کرتے ہوئے قائداعظم کو خبردار کیا کہ یونینسٹ پارٹی سے اتحاد پنجاب میں مسلم لیگ کو شدید نقصان پہنچائے گا۔ اقبال کے اس مؤقف کی تائید عاشق حسین بٹالوی کی کتاب ’اقبال کے آخری دو برس ‘کے آخری باب سے ہوتی ہے۔ یہ راز صوفی تبسم اپنے ساتھ قبر میں لے گئے کہ اقبال کے کاغذات میں سے قائداعظم کے خطوط جیسی قیمتی دستاویزات کیسے گم ہوئیں۔ اس میں اس زمانے کے ایک ’جذباتی ‘ صحافی کا نام آتا ہے۔

قیام پاکستان سے جہاں لاکھوں مسلمانوں کو جانی اور مالی اتلاف کا سامنا ہوا وہاں کچھ گروہوں کی بن آئی۔ مسلمان سرکاری افسروں نے تو 7اگست 1947 ء کو دہلی میں قائداعظم سے ملاقات ہی میں اپنی ممکنہ ترقیوں کا تذکرہ چھیڑ دیا تھا۔ جون 1948 ء میں اسٹاف کالج کوئٹہ میں بھی یہ تذکرہ چلا ۔ ایک دوسرا گروہ ان مقامی جاگیرداروں کا تھا جنہیں بیٹھے بٹھائے آزاد پاکستا ن میں سیاسی قیادت مل گئی تھی۔ ہم تو آج تک یہ معلوم نہیں کر پائے کہ 16 اگست 1946 ء کو کلکتہ کے فسادات اور 4مارچ 1947 ء کوشمالی پنجاب کے فسادات کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ کچھ ’جذباتی صحافی ‘ اپنے ہم عصر ’نام نہاد درویش‘ صحافیوں کو مسئلہ کشمیر پر اختلاف رائے کا طعنہ دیتے ہیں لیکن یہ بتانا پسند نہیں کرتے کہ فروری 1989 ء سے جنوری 2004 ء تک کشمیر میں بدامنی پر ان کا نقطہ نظر کیا تھا۔ 5اگست 2019 ء کو بھارت نے یک طرفہ طور پر کشمیر کا آئینی درجہ ہی بدل ڈالا۔ اس پر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کا ردعمل کیا تھا؟ یہ وہی عمران خان ہیں جن کے بارے میں ’نام نہاد درویش صحافی‘ نے 20جنوری 2018 ء کو اسی اخبار میں لکھا تھا ’عمران خان ابھی میرے وزیراعظم نہیں بن سکتے‘۔ اس موضوع پر ’جذباتی صحافی‘ کی 6اگست 2018 ء کی تحریر بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ ’عمران خان یس مین نہیں‘۔ درویشی اور عیاری میں امتیاز کا ایک ہی پیمانہ ہے کہ کون سی بات کب اور کہاں کہی جاتی ہے۔ رواں برس میں عرب دنیا کا نقشہ بدل چکا لیکن ہمارے جذباتی صحافی حماس کا قضیہ اٹھا کر ’نام نہاد ‘ درویشوں کے خلاف اشتعال انگیزی کرنا چاہتے ہیں۔ شاید انہیں خبر نہیں کہ یہودیت ایک مذہب ہے جبکہ صہیونیت نامی سیاسی تحریک 1897ء میں قائم ہوئی۔ عرب اسرائیلی تنازع 1881 ء تک جاتا ہے۔ لیگ آف نیشن نے سلطنت عثمانیہ کے بکھرنے کے بعد فلسطین کو برطانیہ کی تولیت میں دے دیا تھا۔ روس اور پولینڈ سمیت یورپ سے برطانیہ کے زیر انتظام فلسطین میں یہودیوں کی آمد بیسویں صدی کے آغاز سے شروع ہو گئی تھی۔ اس میں جہاں بالفور اعلامیہ آتا ہے وہاں جون 1922 ء میں چرچل کا وائٹ پیپر بھی ملتا ہے۔ اکتوبر 1930 ء میں Passfield White Paper کا مرحلہ بھی پیش آیا ۔ اس دستاویز میں یہودیوں کی آبادکاری پر پابندیاں لگائی گئی تھیں۔جون 1941 ء میں عراق حکومت کے ساتھ مل کے ’الفرہود‘ قتل عام میں ہزاروں یہودی قتل کیے گئے تھے۔ اردن میں ستمبر1970 کے فلسطینی قتل عام میں ایک پاکستانی’ اسلام پسند بریگیڈیئر‘ کانام بھی آتا ہے۔ 1948 سے آج تک اس تنازع کے فریقین سے ان گنت غلطیاں ہوئی ہیں۔ اسرائیلی مظالم کی مذمت اور مزاحمت بنیادی انسانی فریضہ ہے لیکن ’نام نہاد درویشوں‘ کے نزدیک یہ مذہبی مسئلہ نہیں ، ایک سیاسی اور زمینی سوال ہے۔ اہل فلسطین کے جلتے گھروندوں سے ہاتھ تاپنے والے اگر اس انسانی المیے کی آڑ میں اپنے مخالف ہم وطنوں پر چاند ماری کرنا چاہتے ہیں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’جس نے تاریخ فرشتہ لکھی / وہی دربار عزازیل کا قصہ لکھے / خط عارض میں لکھے حلقہ گردن کی گرفت / اسی گردن کی جو عیار کی زنبیل میں ہے‘۔

تازہ ترین