مدوّن و مرتب: عرفان جاوید
(نیلم احمد بشیر)
اُس کا جی چاہا ٹرین پر ایک زور کا بٹا دے مارے، مگر پھر وہ اِدھر اُدھر دیکھ کر خاموش ہوگیا۔ ایسی حرکت سے اُس کی نوکری بھی جا سکتی تھی۔ چلتی ٹرین کا تو اس میں کوئی قصور نہ تھا۔
’’ارے یہ دیکھ مجھےکیا ملا؟‘‘ موہن نے ٹرین کےجانے کےبعد پٹریوں پہ اُتر کرصفائی کرتے ہوئے چیخنا شروع کردیا۔ سبھی بھاگ کر اُس کے قریب جا کھڑے ہوئے۔ موہن نے ہاتھ نچا نچا کر سب کو ایک پیلی سی چیز دکھائی، جو کسی مسافرعورت کےگلےسےگری ہوئی سونے کی زنجیری ہی لگتی تھی۔ ’’ارے واہ۔ یار! تیری تو قسمت بڑی اچھی ہے۔
ہمیشہ کوئی نہ کوئی قیمتی چیز ہی تیرے ہاتھ آتی ہے۔‘‘ ’’ہاں بھئی پچھلے مہینے تجھے کسی سُندری کا جُھمکا مل گیا تھا اور آج یہ زنجیری… واہ کیا بات ہے۔‘‘ ڈھوکلا رام نے بھی کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے حسد بھرا تبصرہ کیا۔ ’’یار! اپنے ہاتھ تو کبھی کچھ ایسا نہ آیا…‘‘سلیم ٹی اسٹال والا بھی ٹھنڈی سانسیں بَھرنے لگا۔ ’’فکر نہ کر یار! اپنے کو بھی کبھی کچھ نہیں ملا… ہمیشہ خالی ہاتھ ہی گھرجاتے ہیں۔‘‘ رامو نے اُسے تسلی دیتے ہوئے اُس کا کندھا تھپتھپایا۔’’جو چاہا، وہ کبھی نہ ملا۔‘‘ رامو نے دُور ہوتی ہوئی، چھک چھک کرتی سبز سبز ریل گاڑی کے آخری ڈبّے کو گھورتے ہوئے ہولے سے کہا۔
’’بٹوارا ہوگیا، تو کیا ہم سب بچھڑجائیں گے؟‘‘ ایک روز چاچا غلام نبی کو اخبار پڑھتے دیکھ کر موہن نے معصومیت سے سوال کیا۔ ’’وہ کیسے بھئی، امرتسر ہمارا گھر ہے۔ ہم یہاں سے کیسے جا سکتے ہیں؟‘‘ ڈھوکلارام، جھاڑو زمین پہ رکھ کر اُکڑوں بیٹھ کر چاچا غلام نبی کے قریب تر ہوگیا۔ افضل گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا، سو کچھ نہ بولا۔ ’’کچھ پتا نہیں کیا ہونے والا ہے۔
بڑی بُری بُری خبریں آ رہی ہیں-‘‘ چاچا غلام نبی فکرمند لہجےمیں بولا۔ ’’سُنا ہے، کئی شہروں میں ہندو، مسلم فسادات شروع ہو گئے ہیں۔ مَیں نے تو سُنا ہے، ایمن آباد کے دیوانوں نے اپنی بیٹیوں کو اب لاہور پڑھنے جانے کے لیے منع کر دیا ہے۔‘‘ موہن نے رامو کے کان کے پاس آ کر سرگوشی کی۔ ’’تجھے کیسے پتا ہے؟‘‘
رامو تڑپ کر بولا۔ ’’میری پتنی نے بتایا ہے۔ اسُ کی موسی دیوان صاحب کی حویلی میں کام جو کرتی ہے۔‘‘موہن نے تو یونہی سرسری طور پر تذکرہ کر دیا تھا، مگراُسے علم نہیں تھا کہ رامو کے دل پر اس بات سے کتنی بڑی قیامت گزر سکتی تھی۔ ’’مَیں بھی کسی نہ کسی طریقے سے سلطانہ کو کہہ دوں گا کہ اب لاہور نہ جایا کرے۔‘‘ رامو نے دل ہی دل میں فیصلہ کرلیا۔ مگر پھر خیال آیا وہ اُسےکس ناتے سے منع کرسکے گا؟ اور وہ بھلا اُس کی بات کیوں سُنے گی؟ رامو خُود ہی سوال اور خُود ہی جواب سوچتا چلا گیا۔
چند ہی دنوں میں فسادات کی خبریں بڑھ چڑھ کر آنے لگیں۔ ہندو، مسلم کھنچائو بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ مُلک دو ٹکڑے ہونے والا تھا اور ہر کوئی پریشان تھا۔ رامو نے سلطانہ کو بھی بہت دِنوں سے نہیں دیکھا تھا، نہ جانے وہ کیسی تھی، کہاں تھی؟ کیا خبر اُس کے گھر والوں نے بھی اُسے منع کردیا ہو۔ چلو، اچھا ہی ہے۔ ایسے حالات میں لڑکیوں کو گھر سے باہر نکلنا بھی نہیں چاہیے۔ مگر… مَیں اُسے اب دیکھوں گا کیسے۔ رامو سوچ سوچ کے پریشان رہنے لگا۔
ایک روز اُسے اسٹیشن ماسٹر صاحب نے کالے انجن کو چھت پر سے دھونے کا حکم دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ کوئی بڑے انگریز صاحب معائنہ کرنے کے لیے آنے والے ہیں، اس لیے انجن بالکل صاف ہونا چاہیے۔ رامو حسبِ ہدایت کالے بمبوکاٹ انجن کو اچھی طرح دھو کر اُس کی دوسری جانب اُترا ہی تھا کہ اُس کی نظر پلیٹ فارم کی ایک بینچ پر بیٹھی کانتا اور سلطانہ پر پڑ گئی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ دیوار کی اوٹ میں ہوگیا اور اُن دونوں کی باتیں سُننے لگا۔ ’’کانتا! ابّا جان کہہ رہے ہیں، ہمیں لاہورجانا ہی پڑے گا۔
امرتسر میں اب ہمارا رہنا دشوار ہوگیا ہے، مگر مَیں کیسے جائوں… تم تو جانتی ہو وہ یہیں رہے گا… مَیں کیاکروں…بڑی پریشان ہوں۔‘‘ سلطانہ ڈبڈبائی آنکھوں سے کانتا کی طرف دیکھ کرکہہ رہی تھی۔ ’’بھول جا اسے اب۔ حالات بہت خراب ہوگئے ہیں۔ تجھ سے جدا ہونے کےخیال سے میرا دل تو کٹ کے رہ جاتا ہے۔‘‘ کانتا نے پیار سے اُس کا شانہ تھپتھپایا۔ سلطانہ ہولے ہولے سسکنے لگی۔ ’’مگر مَیں اس سے ملے بغیر کیسے جا سکتی ہوں۔ وہ مجھے ڈھونڈے گا۔ مجھے اُس سے ملنا ہے۔
ورنہ مَیں مر جائوں گی۔‘‘ سلطانہ گھگھیا کر بولی۔ ’’پاگل ہوئی ہے کیا؟ کہاں ملے گا وہ تجھے۔ چاروں طرف سے بُری بُری خبریں آ رہی ہیں اور تجھے اُس کی پڑی ہوئی ہے۔ اگر اتنا ہی سچا ہوتا تو آج وعدے کے مطابق ملنے نہ آتا؟‘‘ کانتا ڈانٹ کربولی۔ ’’چل بس، اب گھر چلیں۔ کوئی اور گڑبڑ نہ ہوجائے، چل اُٹھ۔‘‘ کانتا نے اُسے ڈانٹ پلائی۔’’وہ آئے گا… اُس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اب کی بار میرے والدین سے مل کر بات کرے گا۔‘‘’’بھول جا اُسے… یہاں ہم سب کو جان کے لالےپڑے ہیں اورتُو…اُس کے انتظار میں بیٹھی ہے۔
چل جلدی اٹھ، گھرچلیں۔ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے۔‘‘ کانتا اُسے بار بار اُٹھنے کو کہہ رہی تھی۔ ’’مگر، وہ آج آیا کیوں نہیں۔ اِسی ٹرین پہ آنے کا کہا تھا اُس نے؟‘‘ سلطانہ بار بار پلیٹ فارم پر کھڑی ٹرین کو دیکھ کر سوال کرتی تھی۔ ’’اگلے ہفتے تو ہم امرتسر چھوڑ جائیں گے۔ پھر میں اُسے کیسے ملوں گی۔‘‘ ’’انگریز ہے۔
ایسے حالات میں بھاگ ہی گیا ہو گا۔ آخر اُسے بھی تو اپنی جان بچانے کی فکر لگی ہوگی۔‘‘ کانتا بولتی چلی گئی۔ ’’مگرمَیں بھی کسی نہ کسی طرح لاہور جانے سے پہلے اُس کا پتا لگا کرچھوڑوں گی۔‘‘ سلطانہ بولتے بولتے شدتِ جذبات سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’خبردار! اگر تُونےایسی کوئی بےوقوفانہ حرکت کی۔ سُنا تُونے!چل اُٹھ، گھرچلیں۔ پاگل ہوگئی ہے بالکل۔‘‘ کانتا نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور تقریباً زبردستی گھسیٹتی ہوئی اسٹیشن سے باہر لے جانے لگی۔
رامو کی تو رگوں میں جیسےخون جم سا گیا۔ یہ بےوقوف لڑکی بھلا کیا سوچ رہی ہے۔ اِسے تو کوئی عقل، کوئی خوف ہی نہیں ہے۔ روز سُننے میں آتا تھا کہ ہندو، مسلم گروہوں میں چُھرے گھونپنے کی وارداتیں ہو رہی تھیں۔ اسٹیشنوں پر نہ کوئی پولیس کا پہرہ تھا اور نہ ہی کسی اسٹیشن ماسٹر کی خبرگیری۔ ٹی ٹی ٹکٹ چیک کرنا چھوڑچُکے تھے اور لوگ بغیر ٹکٹ ٹرینوں میں سفر کر رہے تھے۔ ایک عجیب نفسانفسی کا عالم تھا۔
مسلمان لاہور ہجرت کرنے کی سوچ رہے تھے، مگر ڈرتے تھے کہ کسی غیرمحفوظ گھڑی کی گرفت میں نہ آجائیں۔ چاروں طرف خوف، بےیقینی، دہشت کے سائے لہراتے تھے۔ چند ہی دِنوں بعد رامو نےسلطانہ کو اپنے خاندان سمیت ٹرین میں سوار ہوتے ہوئے دیکھ لیا۔ اُس کی سلطانہ کے ماتا، پتا اور بھائی اپنا مختصر سا سامان گاڑی میں لدوا رہے تھے، مگر سلطانہ ہر بات سے بےنیاز کھڑکی میں منہ دیے بار بار اِدھر سے اُدھر دیکھے جا رہی تھی، یوں جیسےاسے کسی کا انتظار ہو۔
’’آپ جا رہی ہیں بی بی جی!!‘‘ ضبط کے باوجود رامو کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو تیرنے لگے۔ وہ کھڑکی کے بالکل قریب چلا آیا۔’’وہ میری سہیلی آئے گی ناں، کانتا… وہ آئے گی ضرور… تو اُسے کہنا، مَیں جلد ہی اُسے ملنے آئوں گی…اچھا! کہہ دو گے ناں؟ رامو… یہی تمھارا نام ہے ناں؟‘‘ رامو نے دھیرے سے سر ہلایا اور ٹرین کے پہیے ہولے ہولے پلیٹ فارم سے دور ہونےلگے۔
ٹرین کو گئے ہوئے ابھی ایک گھنٹا بھی نہ گزرا تھا کہ رامو کی نظر اچانک ایک لال بندر پہ پڑ گئی۔ رابرٹ بےچینی سے پلیٹ فارم کو دیکھ کر اِدھر اُدھر نظریں دوڑا رہا تھا۔ یک دم رامو کے دل میں جیسے ٹھنڈ سی پڑ گئی۔ اچھا ہے سالا…اُسے ڈھونڈتا ہی رہے۔ لگتا ہے یہ اُس کے پیچھےہی امرتسرآیا ہے۔
چلو اچھا ہے، یہ اِدھر اور وہ اُدھر۔ رامو دل ہی دل میں سوچ کر خوش ہونے لگا کہ اب سلطانہ کم ازکم اِس بندر کی پہنچ سے تو دُور ہوگئی ہے۔ انگریز کو بے چین دیکھ کر اُس کے لبوں پر ایک مدھ بھری مسکراہٹ کھِلنے لگی اور اس نے ٹی اسٹال سے دو کپ چائے کے پی کر اونچی آواز میں ڈکار لی اور اپنے جھاڑو کو زور زور سے زمین پر مار کر ٹھونکنے لگا۔
گھر پہنچ کر رامو اپنے بستر میں جا گھُسا اور تکیے میں منہ چُھپا کر خُوب رویا۔ اُسے لگا، جیسے اُس کی کوئی قیمتی متاع چھن گئی ہو۔ زندگی ہمیشہ کے لیےاُس سے روٹھ گئی ہو۔ جب کوئی یاد آتا ہے تو بھلا دل میں اتنا درد کیوں ہوتا ہے؟ اُسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ ابھی ماتا نے اُس کے آگے روٹی کی تھالی رکھی ہی تھی کہ یک دم لکڑی کے دروازے کو کسی نے زور سے دھڑدھڑایا۔ ’’رامو…رامو‘‘ ہم سائے دھنی رام کی آواز نے اُسے چونکا کر رکھ دیا۔ ’’ارے کیا ہے دھنی رام! کیوں چِلّا رہے ہو؟‘‘ ماتا ناگواری سے جواباً چلائی۔ ’’کیا آفت آ گئی ہے…خیر تو ہے؟‘‘ رامو کے باپ نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ ’’چاچا… اُٹھو… یہ گھر بیٹھنے کا وقت نہیں ہے۔ لاہور جانے والی ٹرین امرتسر سے تھوڑے ہی فاصلے پر کاٹ دی گئی ہے۔ ہم سب وہیں جارہے ہیں۔ مال بہت ہوگا۔
سالے مُسلے… اپنا سارا سونا لے کر پاکستان جا رہے تھے۔ چل رامو… کاکا تم بھی چلو۔‘‘ ایک اور ہم سائے گرپریت سنگھ نے اندھیرے میں اپنی کرپان لہرائی۔ ’’چلو، چلیں… ورنہ سب کچھ لُٹ جائے گا… باجو کے محلے کے لوگ تو جا بھی چُکے ہیں؟ سارا جتھا جوش و ولولے سے لرز رہا تھا۔’’چل جا… تُو بھی کچھ گھر کے لیے لے آ… تُو تو ہمیشہ خالی ہاتھ ہی آتا ہے؟‘‘ماتا نے کئی قسم کی بھاجی سے بَھری تھالی رامو کے آگے سے کھینچ لی۔
ہائے رام…سلطانہ بھی تو اُسی گاڑی میں سوار تھی۔ اِس خیال کے آتے ہی رامو یوں اپنی پیڑھی سے اُچھلا، جیسے کسی بِھڑ نے اچانک کاٹ لیا ہو۔ ’’چلو، چلیں بھائیو۔‘‘ وہ زور سے پکارا اور پورا جتھا ’’جے رام کی جے‘‘ پکارتا، چُھرے لہراتا، چھلانگیں مارتا اُس کے ساتھ ساتھ سرپٹ دوڑنے لگا۔’’ارے اُن مُسلوں نے اُدھر ہمارے بھائی بہنوں کے ساتھ جو کیا ہے، ہم بھی اِن کو اُس کا مزہ چکھائیں گے۔ مال بھی ملے گا اور عورتیں بھی۔‘‘ جوان ہندو لڑکوں کی خوشی سے باچھیں کھِلنے لگیں۔
جنگل میں اچانک روک دی گئی ٹرین کچھ حیرت زدہ سی کھڑی دِکھتی تھی۔ کالے انجن سے سفید بھاپ اب بھی دھیرے دھیرے خارج ہو رہی تھی۔ جتھے کے پرُجوش نوجوانوں کے قدم بار بار کسی نہ کسی چیز میں اٹک کے رہ جاتے، تو اُنھیں بہت کوفت ہوتی۔ کبھی کسی کا سر پائوں میں آجاتا، تو کبھی کسی کی ٹانگ۔ کسی کا صندوق اُنھیں اُلٹا ملتا، توکسی کی بندھی ہوئی گھڑی اورکُھلی ہوئی آنکھیں اُنھیں گھورتی نظر آتیں۔ چاروں طرف خون آمیز کیچڑ تھی۔
سنی ہوئی لاشوں پر مکھیوں کے بھنبھناتے ہوئے غول تھے۔ آہیں اور سسکیاں تھیں۔ بھوک سے بلکتے بچّوں کی کُرلاہٹیں تھیں اور موت کے لرزتے، بھیانک سائے۔ سبھی لوگ سامان لوٹنے، سونا، عورتیں ڈھونڈنے میں مصروف ہوگئے، رامو بھی… مگر اُسے تو بس ایک ہی سامان، ایک ہی عورت کی آرزو اور تلاش تھی۔ اپنی نورجہاں کو ڈھونڈنے کے لیے اس نے ہر ڈبّا کھنگال مارا۔ ہر جوان لڑکی کا چہرہ گُھما، الٹا کر دیکھا، مگر وہ اُسے نظر نہ آئی۔
اس کے ساتھی، رقصِ وحشت میں مست، مَردوں، عورتوں کی بوٹیاں نوچتے، ٹکڑے کرتے، زیورات سے اپنی جھولیاں بھرتے، دھمالیں ڈال رہے تھے اور رامو ایک کونے میں دُبکا، یہ سب تماشا ایسے دیکھ رہا تھا، جیسے وہ خود یہاں وہاں موجود ہی نہ ہو۔ وہ کوئی اور ہو۔ رات کافی بھیگ چُکی تھی اور لُوٹ بھی کافی جمع ہوچُکی تھی۔ اس لیے لٹیروں نےگھر جانے کی ٹھانی اور اندھیرے میں اپنی لوٹ سنبھالتے، قہقہے لگاتے گھروں کو روانہ ہوگئے۔
جب چاروں طرف خاموشی چھا گئی تو رامو دھیرے سے اُٹھا اور پھر سے اپنی تلاش شروع کردی۔ ایک جگہ پر سلطانہ کے ماں باپ، بہن بھائی کو ٹکڑوں میں کٹا ہوا دیکھ کر اس کے رونگٹےکھڑے ہوگئے، مگرسلطانہ کہیں دکھائی نہ دے رہی تھی۔ ’’کہاں ہے وہ…؟‘‘ وہ اپنے آپ بڑبڑاتا، دھیرے دھیرے پکارنے لگا۔ ’’سلطانہ، سلطانہ!!‘‘ یک دَم اُسے ٹھوکر لگی اور وہ ایک خاردار جھاڑی پر جا گرا۔ اُسے ایسا لگا، جیسے جھاڑی نے اُس کے پائوں ہی پکڑ لیے ہوں۔
پھر جھاڑی دھیرے دھیرے ہلنے لگی اور اس کے نیچے سے کوئی دکھائی دینے لگا۔ رامو نے تو سلطانہ کے چہرے کو کبھی آنکھ بھر کے بھی نہ دیکھا تھا، کجا یہ کہ بکھرے ہوئے بالوں، ہونق چہرے، متوحش آنکھوں والی، خوف سے لرزتی ہوئی نیم برہنہ سلطانہ اُس کے سامنے پڑی تھی۔ کسی ٹوٹے پَروں والےفرشتے کو اُس نے اِس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ اُس کی کٹی ہوئی ناک اور بازوؤں سے سُرخ خون رِس رِس کر جم چُکا تھا۔ منہ سے خرخر کی عجیب سی آوازیں آ رہی تھیں۔
وہ سلطانہ نہیں، کوئی اورہی غیرانسانی مخلوق دکھائی دیتی تھی۔ رامو کے منہ سے ایک دل دوز چیخ نکلی، مگر اُس چیخ میں کوئی آواز کیوں نہیں تھی۔ اُسے سمجھ میں نہ آیا۔ وہ تھرتھر کانپنے لگا اور جلدی سے سلطانہ کے جسم پر قریب پڑا ایک کپڑا ڈال دیا۔ اس کی نورجہاں اُس کی طرف جذبات سے عاری آنکھوں سے دیکھےجا رہی تھی اور رامو بھیں بھیں روئے چلا جا رہا تھا۔ یہ سب کیا اور کیوں ہوا تھا، اُسےکچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
’’ارے رامو تو کہاں رہ گیا تھا۔ تیرا باپو تو کب سے گھر آیا ہوا ہے؟ دیکھ تو سہی، تیرا باپو کیا کیا لایا ہے۔‘‘ رامو کو گھر میں گھستے ہی ماں کی کھنک دار آواز سُنائی دی۔ رامو نے ماں کی طرف دیکھا تو وہ سونےکے دَمکتے گلوبند، جُھمکے، کپڑے اور چوڑیاں پہنے کسی نئی نویلی دلہن کی طرح اِترا اِترا کر اپنے پتی کی طرف دیکھےجارہی تھی۔ گھرمیں چاروں طرف لوٹ کا سامان بکھرا ہوا تھا، جسے اُس کے چھوٹے بہن بھائی ہاتھ لگا لگا کر، دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔
ایک جشن کا سماں تھا۔ ’’دیکھ تو سہی، تیرے باپو نے ہمارے لیے کتنا اچھا انتظام کردیا ہے۔ ارے ہمارے تو دن ہی پھرگئے ہیں۔ ہے بھگوان! تیری کرپا ہے۔‘‘ ماتا نے جھوم کر دیوی کے آگے ماتھا ٹیکا اور پیار بَھری نظروں سے اپنے پتی کی طرف دیکھنے لگی، جس نے اُسے اتنا سیراب کردیا تھا۔ غربت کےسب اگلےپچھلے گلے شکوے دھو دیے تھے۔ ’’ارے تُو رہ کہاں گیا تھا؟
رامو، کوئی مال ہاتھ لگا کیا؟‘‘ باپو نے رامو کو چُپ چاپ کھڑا دیکھ کر کہا۔ ’’ہاں بتا ناں… کچھ لے کر آیا ہے یا ہمیشہ کی طرح خالی ہاتھ ہی گھر آیا ہے؟‘‘ امّاں نے اپنے پتی کے سامنے کھیر کا پیالہ رکھتے ہوئے اپنے لاڈلے سے پوچھا۔ ’’ہاں لایا ہوں ماتا جی۔‘‘ رامو نے ہولے سےجواب دیا۔ ’’بہت قیمتی سامان ہے۔‘‘
باپو مسکرایا۔ ’’لے بھئی، تیرے پُت نے بھی آخر کوئی کام کر ہی دکھایا ہے۔ اس کے ہاتھ تو کبھی سونے کا کوئی تار یا چھلا بھی نہ لگا تھا۔ آج یہ کہہ رہا ہے، بڑا قیمتی سامان لایا ہے۔‘‘ باپو کی بتیسی کھل گئی اور وہ کھیر کو انگلیوں سے نکال نکال کر کھانے لگا۔ ’’ارے اب دکھا بھی دے۔ دیر کیا ہے؟ ہے کہاں؟‘‘ ماتا بےچینی سے بولی۔
رامو آرام سے اُٹھا۔ گھر سے باہرگیا اور ایک بڑا سا گٹھڑلا کر کٹیا کے بیچوں بیچ رکھ دیا۔ ’’ارے باپ رے… اِس میں کیا ہے؟‘‘ رامو کی چھوٹی بہن اچک کے کھڑی ہوگئی۔ رامو نے احتیاط سے گٹھڑی کوزمین پہ رکھا اور دھیرے دھیرے اُس کے بل کھولنے شروع کر دیے۔