• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدوّن و مرتب: عرفان جاوید

(نیلم احمد بشیر)

نیلم احمد بشیر، معروف کہانی کار، ناول نگار، سفرنامہ نویس، شاعر اور ناقد، بالخصوص خاکہ نگاری میں باکمال، معروف گھرانے سے تعلق، والد احمد بشیر جری اور ممتاز صحافی و ادیب، بہنیں بشریٰ انصاری، سنبل شاہد اور اسماءعباس فنِ اداکاری میں نام وَر، نفسیات میں تعلیم، ممتاز مفتی کی جانب سے ادبی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی، قریباً درجن بھر کتب کی مصنفہ، کئی اعزازات بہ شمول تمغۂ امتیاز سے سرفراز، انوکھے انوٹھے موضوعات پر خامہ فرسائی، بےباک اور کھرا اندازِتحریر، حقوقِ نسواں کی علم بردار، انسانی حقوق کے تحفّظ کی پرچارک۔

’’قیمتی‘‘ تقسیمِ ہند کے زمانے کی ایک کہانی، ایک خاکروب کو بالائی طبقے سےتعلق رکھنے والی حسین لڑکی سے یک طرفہ عشق ہوگیا، اور… بالآخر وہ اُسے اپنے گھر لانے میں کام یاب ہو ہی گیا۔ یہ ایک دل گیر قصّہ ہے۔

نہ جانے اُس کا نام کیا ہوگا؟ رامو سوچتا۔ چہرہ تو بالکل فلم اسٹار نورجہاں کی طرح تھا۔ گول مٹول، سُرخ سفید، بَھرا بَھرا۔ روشن چمکتی آنکھیں اور پھر آواز یوں، جیسے گرمیوں کی رُت میں لچھمن کاکا کے آموں کے باغ میں کوئل کُوکتی ہو۔ کیسے ہونٹ گھما کر اپنی سہیلی کو آواز دیتی تھی۔ ’’کانتا… اری کانتا، جلدی کر… ٹرین چھوٹنے والی ہے۔‘‘ 

بالکل نور جہاں لگتی تھی۔ رامو نے پچھلے ہفتے ہی دلیپ اور نورجہاں کی فلم ’’جگنو‘‘ منروا سنیما میں دیکھی تھی اور تبھی سے وہ نورجہاں کا گرویدہ ہوگیا تھا۔ یہ لڑکی بھی تو ویسی ہی دِکھتی تھی۔ پیاری، معصوم، حوصلہ مند… حوصلہ مند نہ ہوتی، تو یوں بھلا امرتسر سے لاہور کے کسی کالج میں پڑھنے کے لیے کبھی جاتی؟ ایسا تو کوئی جی دار لڑکی ہی کر سکتی تھی۔ 

اوپر سے مسلمان۔ یہ تو حد ہی نہیں ہوگئی تھی۔ کالا برقع پہنے، جارجٹ کا نقاب الٹتی تو یوں لگتا، جیسے چاند نکل آیا ہو۔ پھب ایسی نرالی کہ اُس کے پلیٹ فارم پرقدم رکھتے ہی پورا امرتسر اسٹیشن بغیر بتیاں جلائے جگمگ جگمگ کرنے لگتا تھا۔

وہ ہر پندرھواڑے باقاعدگی سے اتوار کے روز دن دو بجے کی گاڑی سے سوار ہوتی اور پھر دو ہفتے بعد جمعے کی شام چار بجے والی ٹرین سے واپس امرتسر آجاتی تھی۔ جاتے سمے ہاتھ میں کتابیں، ٹفن کیریئر، کئی قسم کی ٹوکریاں اور ہینڈ بیگ ہوتے، جو واپسی پر خالی نظرآتے۔ رخصت کرتےسمے اُس کے ماں باپ، بہن بھائی کی نم آنکھیں، اُسے بار بار چومنا، سر پہ ہاتھ پھیرنا، نصیحتیں کرنا، ایسے مناظر تھے، جو رامو ہر بار دیکھتا تھا، مگر رَجتا نہ تھا۔ 

پلیٹ فارم پہ جھاڑو پھیرتے پھیرتے وہ اکثر اُس کی کھڑکی کے قریب آ کر دھیرے دھیرے ہاتھ چلانے لگتا تاکہ اُس کی اور اس کے گھر والوں کی آپس کی باتیں سُن سکے۔ اُس کے ساتھ اُس کی سہیلی کانتا بھی ہوتی تھی، جو شاید اُسی کی کلاس میں پڑھتی تھی، کیوں کہ اکثر وہ دونوں اپنے کالج کی باتیں کرتی دکھائی دیتیں۔

کبھی کبھار وہ صفائی کرتے کرتے ان کے ڈبے کے اندر تک آجاتا، تو وہ دونوں ہنستی ہوئی اُس سے خصوصی صفائی کرنے کو کہتیں اور پھر انعام کے طور پہ کوئی کھانے کی چیز یا کچھ پیسے اُس کے ہاتھ میں تھما دیتیں، تو وہ خوشی اور شرم سے لال ہوجاتا۔ بار بار نہ نہ کرتا مگر وہ اُسے کچھ دے کر ہی چھوڑتیں۔ کتنا اچھا لگتا تھا اُسے، اُن کے قریب ہو کر چند لمحے اُن کی کھنکتی ہوئی ہنسی سُننا۔ رامو سرشار ہوکر جھاڑو اپنے کاندھے سے لگا کے گنگنانے لگتا۔ قوسِ قزح کےسارے رنگ اس کے قدم چومتے، گدگداتے تو وہ نہال ہو جاتا۔ 

اُسے کبھی کبھار خیال آتا کہ اِن لڑکیوں کے ماں باپ کیسے الٹے اورعجیب ہیں۔ بھلا کیسے اپنی دو کِھلے گلاب کی طرح خُوب صُورت جوان بیٹیوں کو شہر سے اتنی دُور پڑھنے کے لیے بھیج دیتے تھے۔ یہ تو اُس کے علم میں تھا کہ کئی لڑکے بھی امرتسرسےسائیکلوں پہ سوار ہوکرلاہور پڑھنے جاتے تھے، مگر لڑکیاں؟ یہ بات اُس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ 

یقیناً یا تو یہ لڑکیاں بائولی ہیں یا پھر اِن کے ماں باپ کو اِن کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ اور پھر اپنی نورجہاں، یہ نام اُس نے خود ہی گھڑ لیا تھا، وہ بائولی تو نہیں لگتی تھی۔ ٹھیک ٹھاک، عقل مند اور سمجھ دار دِکھتی تھی۔ بہادر ہوگی، مگر خیر اتنی بہادر بھی نہیں تھی۔ رامو اُس کے بارے میں اکثر سوچتا رہتا تھا۔ اُسے یاد آیا، ایک روز سیٹ کے نیچے ایک چوہا نظر آجانے پر نورجہاں بی بی نے اتنی زور سے چیخ ماری تھی کہ سب مسافر اُس کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ 

پھر پلیٹ فارم پہ کھڑے راموکوجب نورجہاں نےہاتھ کے اشارے سے اندر بلایا تو اُسے یوں لگا، جیسے وہ اُسے پیار کا کوئی سندیسہ دے رہی ہو۔ وہ لپک، جھپک اپنا بڑا سا جھاڑو، مور کے پنکھ کی طرح پھیلائے، ڈبےکے اندر گھُس آیا اور چوہے کو کسی نہ کسی طرح پکڑ کر ہی دَم لیا۔ مَرے ہوئے چوہے کو جھاڑو پہ لٹا کر وہ فخریہ انداز میں نورجہاں کے پاس سے گزرا، تو جی چاہا اُس خبیث کو دُم سے پکڑ کر اپنی ملکۂ عالیہ کے دربار میں پیش کردے، مگر پھر نہ جانے کیوں ایسا کرنا اُسے مناسب نہ لگا۔ کیا خبر وہ پھر سے ڈر جائے، بلکہ ڈر کے کہیں ٹرین سے چھلانگ ہی نہ لگا دے۔ اُس نے دل ہی دل میں سوچاکہ نہیں، ایسا نہیں ہوناچاہیے۔ 

پھر نورجہاں کی خوف زدہ آنکھوں اور زرد چہرے نے بھی اُسے یہی بتایا کہ اس نے ٹھیک ہی فیصلہ کیا۔ نورجہاں کی متشکرانہ نگاہوں نے دُور تک اُس کا تعاقب کیا تو رامو کا سینہ کچھ اور چوڑا ہوگیا، چال میں ایک عجب سا بانک پن دَر آیا۔ اُسےگمان ہواکہ وہ اُس کی طرف دیکھ کر ہولے سےمُسکرائی بھی تھی، مگر رامو میں اتنی جرات پیدا نہ ہوئی کہ وہ اُسے جی بھر کے دیکھ ہی لیتا کہ وہ واقعی مُسکرائی تھی یا اُسے بس یوں ہی لگا تھا کہ وہ مُسکرائی ہے۔

اُس روزاُس نے گھر پہنچ کر ماتاجی سے شکر کی بَھری روٹی کی فرمائش کی اور خُوب پیٹ بھر کھانا کھایا۔ اُسے غیر معمولی طور پر خوش دیکھ کرماتا بھی پوچھے بغیر نہ رہ سکی کہ آخر ہوا کیا ہے۔’’کیوں پُتّر! آج تُو بڑا خوش لگ رہا ہے۔ کیا کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے؟‘‘ رامو نے سُن کر منہ لٹکا لیا۔

اُسے پتا تھا امّاں نے اُسے کس بات کا طعنہ دیا تھا۔ بستی کے اکثر جمع داروں کو ٹرینوں، پلیٹ فارموں کی صفائی کرتے کرتے کوئی نہ کوئی قیمتی چیز ہاتھ لگ جاتی، تو اُس کا خوب ڈھنڈورا پیٹا جاتا۔ کبھی کسی مسافر کا کوئی گِرا ہوا کرنسی نوٹ، کوئی سونے کا جُھمکا، کنگن، قیمتی دوشالہ، کمبل یا پورا بٹوا بھی مل جایا کرتا تھا۔ 

ایسے میں ڈھونڈنے والے کی خوشی دیدنی ہوتی، وہ ساتھیوں کی حسرت بَھری، چبھتی نگاہیں بھول کراپنی دریافت پرخوش ہوکر ناچ اُٹھتا اور سبھی اُسےجھوٹے دل سےمبارک باد دینے لگ جاتے۔ اتفاق کی بات تھی کہ رامو کو کبھی کوئی کام کی چیز ہاتھ نہ لگی تھی۔ کبھی کبھار وہ کسی کی گری ہوئی بالوں کی کلپ، کانچ کی چوڑی، پیچھے رہ جانے والی ایک چپل، پانی کا گھڑا، ہولڈال میں سے گرا ہوا تکیہ اُٹھا بھی لاتا تو ساتھی اور گھر والے ہنستے ہنستے دہرے ہو جاتے۔ رامو بھی کھسیانی ہنسی ہنسنے لگ جاتا اور بات آئی گئی ہو جاتی۔

رامو کو اب تک اتنا ضرور پتا چل گیا تھا کہ اُس کی نورجہاں کا نام سلطانہ تھا، مگر رامو اسُے من ہی من میں نورجہاں ہی پکارتا تھا۔ وہ نظر آتی تو وہ نظریں اُس پہ ٹکائے رکھتا۔ اُس کی ہر بات، ہر ادا پرغور کرتا۔ ’’ایسی کیا بات ہے، اس لڑکی میں؟‘‘ وہ اپنے آپ سے سوال کرتا، مگر اُسے کوئی جواب نہ ملتا، تو وہ اُسے اپنے دماغ کا خلل سمجھ کر خُود کو سمجھانے بیٹھ جاتا۔ کبھی کبھار کانتا اور سلطانہ اُس سے اپنا سامان اُٹھوانے، قلی کو بلانے یا اسٹیشن ماسٹر سے ٹرین چُھٹنے کا ٹائم پوچھ کر آنے کو کہہ دیتیں تو رامو کے بازوؤں میں بجلیاں سی بھر جاتیں۔ 

ایسے لگتا اُس نے جھاڑو نہیں، کوئی سُر کیا ہوا ستار تھام رکھا ہو، جس میں سے مدھر نغمے پھوٹ کر فضا میں جادو بکھیر رہے ہوں۔ کبھی وہ کومل سے تیور اور تیور سے کومل میں چلا جاتا، تو کبھی اُس کا الاپ لمبا ہو کر پھولوں بَھری وادیوں کی راہ داریوں میں بہتا چلا جاتا۔ دوسرے خاکروبوں کو بھی راموکی سلطانہ میں دل چسپی کا علم ہوچُکا تھا۔ 

اِس لیے وہ اکثراُسےچھیڑ کے ٹرینوں کی آمد و رفت کے بارے میں خواہ مخواہ ہی پوچھتے رہتے۔ ’’لے بھئی، آرہی ہے تیری گاڑی۔‘‘ وہ ٹرین کے پلیٹ فارم پر دکھائی دینے سے پہلے ہی اُس کے کانوں میں سرگوشیاں کرنے لگتے۔ رامو یوں شرما کے نظریں نیچی جُھکالیتا، جیسے اُس کی کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔ اپنے قلی دوست افضل کو ہولے سے ٹہوکا دے کر ٹرین کی طرف دوڑاتا تاکہ وہ سلطانہ کا سامان احتیاط سے زمین پہ اُتار دے۔ لوگوں کے بیچوں بیچ سے افضل کے لیے جلدی جلدی راستہ بناتا تاکہ اسے ڈبّے تک پہنچنے میں دقّت نہ ہو۔

سارا سلسلہ بڑا اچھا، ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ رامو اپنی یک طرفہ پریم کہانی میں مگن، مست تھا کہ یکایک ایک روز ایک غیرمتوقع ولن بیچ میں آن کُودا۔ رامو کو بڑی کوفت ہوئی۔ یہ کیا؟ سلطانہ اُس کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی تھی؟ یہ تو بڑی گڑبڑ ہوگئی تھی۔ رامو کےدل پرایک گھونسا سا لگا۔ اُس نے زور زور سے زمین پر جھاڑو چلانا شروع کردی۔ اُس کی نورجہاں تو کسی فاختہ کی طرح معصوم اور بھولی تھی مگر اب ایک جنگلی کبوتر اُس کے گرد غٹرغوں غٹرغوں کرکے چکر لگانا شروع ہوچکا تھا۔ 

اُسے ایسے ہی وہم نہیں ہوا تھا۔ اُس نے خُود اپنی آنکھوں سے سلطانہ کو اُس کے ساتھ چلتی ٹرین میں ایک کونے میں کھڑے باتیں کرتے دیکھا تھا۔ نورجہاں چُھٹیوں کے بعد واپس کالج جا رہی تھی۔ اُس کے ہاتھوں میں منہدی اور کلائیوں پہ دھانی چوڑیاں قوسِ قزح کا نظارہ پیش کر رہی تھیں۔ رامو مبہوت ہو کر ان گورے گورے ہاتھوں کو دیکھتا چلا جا رہا تھا کہ یک دَم اُسے کسی تیسرے کی موجودگی کا احساس ہوا۔ 

یہ کون اُن دونوں کے سُکھ چین میں مخل ہوگیا تھا۔ کچھ ہی دیر میں وہ دونوں سیٹ پر بیٹھ گئے۔ نورجہاں نے کتاب اپنے چہرے کے آگے کر لی اور دھیمے دھیمے انداز میں باتیں ہونے لگیں۔ گاڑی ہلتی تو نورجہاں کے چہرے سے کتاب بھی لمحے بھر کو کھِسک جاتی۔ اُس کے کانوں کا ایک بالا جُھولتا نظر آتا اور چند آوارہ لٹیں گالوں کو چومنے لگتیں۔ کیا عجب نظارہ تھا۔ 

دیکھتے جی ہی نہیں بھرتا تھا۔ رامو نے حیرت سے اُسے کئی بارغور سے دیکھا۔ یہ تو آج کوئی اور ہی لڑکی دِکھ رہی تھی۔ جس کے لب کسی نئے،انوکھے جذبے کی شدّت سے کانپتے اور آنکھیں بےوجہ چمک اُٹھتی تھیں۔ آج رامو بھی ٹرین کے اندر صفائی کی ڈیوٹی دے رہا تھا۔ 

سلطانہ کے پہلو میں بیٹھا وِلن بھی کوئی معمولی ولن نہیں تھا۔ یہ کوئی شکیل، جمیل، سلیم، موہن داس، مہندر، گوپی چند نہیں بلکہ گورا چٹا، لانبا، خُوب صُورت، پُروقار شخصیت والا باوردی انگریز تھا، جو شاید فوجِ برطانیہ کے لوٹ جانے والے آخری جتّھوں میں سے تھا۔ 

’’یہ سالے انگریز ہمارے پوتّر دیش سےآخر دفعان کیوں نہیں ہو جاتے؟‘‘ رامو نے دل ہی دل میں اُسے مرصّع گالیوں سے نوازنا شروع کردیا، اور پھر اپنے جی کو صفائی کے کام میں لگانے کی کوشش کرنےلگا، مگر دل بڑا ظالم تھا۔ کسی طرح قابو ہی میں نہیں آتا تھا۔ سلطانہ نے بھی اُسے دیکھ لیا تھا۔ 

اُسے بھی یہ خاکروب کوئی عام سا خاکروب نہیں لگتا تھا۔ کئی بار اُس کے دل میں بھی یہ خیال آیا تھا۔ اجلے کپڑوں میں ملبوس، بالوں میں کنگھی پٹی جمائے، تمیز سے بات کرتا ہوا یہ لڑکا کسی کالج کا اسٹوڈنٹ بھی ہوسکتا تھا، افسوس کہ بےچارہ محض ایک خاکروب ہے۔ اُسے کئی بار دل میں افسوس ہوا۔

اُسے تقدیر کی اس بےانصافی پہ افسوس ہوتا، مگر پھرسوچتی ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ ’’کیا تم بھی لاہورجارہے ہو؟‘‘ سلطانہ نے دروازے میں بیٹھے ہوئے رامو سے یونہی پوچھ لیا۔ رامو کو لگا، اُس سے سلطانہ نہیں، جیسے پوری دنیا مخاطب ہوگئی ہو، رحمتوں کی بارش کا نزول شروع ہو گیا ہو اور دھرتی خوشی سے ناچ اُٹھی ہو۔ ’’نام کیا ہے تمھارا؟‘‘ سلطانہ کے خُوب صُورت ساتھی نے مُسکرا کر سوال کیا تو رامو کو لگا زہر میں بھیگے ہوئے کئی نشتر آگ کے دائروں میں سے اچھل کر اُس کی جانب بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ 

رامو کو خوش بوئوں میں بسا ہوا انگریز اتنا بدبُو دار اورکریہہ النظر لگا کہ اُس نے نفرت سے اپنی ناک سکیڑ کے چہرہ نیچے کرلیا۔ ’’رامو۔‘‘ اُس کے لبوں سے ایک سسکی سے نکلی۔ ’’اچھا رامو بھیّا! ہماری سیٹ کےنیچے ذرا اچھی طرح صفائی کردینا۔ یہ بی بی جو ہیں ناں… اِنھوں نے مونگ پھلی کےبہت سے چھلکے نیچے گرا دیے ہیں اوراب مجھےڈر ہے، سیٹ سے اُترتے ہوئے انہی کےپائوں میں چُبھ نہ جائیں۔‘‘ 

انگریز نے مضحکہ خیز انگریزی لب ولہجے میں بولی ہوئی ہندی میں رامو کو پیار سے مخاطب کیا۔ ’’اسٹاپ اٹ… رابرٹ! چھلکے مَیں نے نہیں، تم نے گرائے ہیں۔ جھوٹے کہیں کے۔‘‘ سلطانہ کھِل کھِلا کے ہنسی تو اُس کی نقرئی آواز سے ٹرین میں مندر کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ عیسیٰ، رام کا نام زور زور سے چاروں طرف گونجنے لگا۔ رامو نے سیٹ کے نیچے جھاڑو تو پھیر دی، مگر یہ دیکھ کر اُس کے کلیجے میں ٹیس سی اُٹھی کہ چھلکوں کے بیچ کہیں کہیں رنگ بہ رنگی چوڑیوں کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے بھی تھے۔ ’’یہ چوڑیاں؟‘‘ 

رامو نے خُود سے سوال کیا۔ ’’نہیں نہیں، سلطانہ بی بی تو ایسی نہیں ہے۔ وہ تو نیک، معصوم، گنگا جل کی طرح پوتّر ہے۔ اچھے خاندان کی پڑھی لکھی لڑکی ہے۔ وہ کوئی غلط کام نہیں کرسکتی۔ اُس نے اپنے سلگتے ہوئے دل کو تسلی دی۔ بھلا اُسے اس لال بندر رابرٹ میں کیا نظر آتا ہے؟ یہ بندر ضرور اُسے کوئی نقصان پہنچا کر ہی چھوڑے گا۔ مگر مَیں یہ ہونے نہیں دوں گا…‘‘ رامو نے دل ہی دل میں فیصلہ کرلیا اور چوکنّا رہنے لگا۔ اُس کاجی چاہا، وہ سلطانہ کوخبردار کردے، مگر وہ خُود میں ایسی جرات کا حوصلہ نہ پاتا تھا۔

’’بےوقوف لڑکی۔ جانتی نہیں کہ یہ گورے ہمارے دیش پر حکومت کرتے کرتے ہمیں اپنا ماتحت ہی سمجھتے ہیں، مگر اب تو سُنا ہے، دیش آزاد ہونے والا ہے۔ ان سالوں کی ایسی کی تیسی۔‘‘ ایک دن وہ یونہی بیٹھا چاچا غلام نبی کے سامنے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے لگا، تو چاچا نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ ’’فکر نہ کر رامو…انگریز راج تو بس گیا ہی سمجھ۔۔ مگر میرا دل ڈرتا رہتا ہے۔ 

نہ جانے کیا ہونے والا ہے۔ بٹوارے کی خبریں تو آ رہی ہیں، مگر سمجھ میں نہیں آیا کہ مُلک بھلا دو ٹکڑوں میں کیسے تقسیم ہوسکتا ہے؟‘‘ پلیٹ فارم پہ بیٹھی ایک ہندو عورت نے غلام نبی کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے اپنا بھوجن اوٹ میں کرلیا اور ہندو پانی کے گھڑے سے اپنے بچّوں کو پانی لا کردینے لگی۔ 

چاچا مُسکرایا اور پھر ٹھنڈی آہ بھر کر اخبار پڑھنے لگا۔ ’’تجھے کچھ خبر بھی ہے، تیری نورجہاں کے اب کیا حال ہیں؟‘‘ ایک روز اس کے دوست موہن خاکروب نے اُس کے کان میں یوں سرگوشی کی، جیسے کسی بہت بڑے راز سےپردہ اُٹھانےجارہا ہو۔ رامو خاموش رہا۔ کچھ دیربعد بولا۔ ’’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے؟‘‘ 

موہن گنگناتا ہوا ٹی اسٹال پہ جا پہنچا اور ایک کپ گرم چائے ہاتھ میں تھام کر پرچ میں انڈیل کر یوں گھونٹ گھونٹ اپنے اندر اُتارنے لگا، جیسے اپنے کلیجے میں دنیا بھر کی ٹھنڈک بھر لینا چاہتا ہو۔ جیسے آگ رامو کے نہیں، اُس کے اندر مچی ہوئی ہو، جیسے سلطانہ اُس کی بھی کچھ لگتی ہو۔ رامو نے کئی بار رابرٹ اور سلطانہ کو ٹرین میں آتے جاتے دیکھا۔ کبھی کبھی کانتا بھی اُن کے ساتھ ہوتی تھی۔ 

وہ تینوں آپس میں بڑے خوش نظر آتے تھے۔ ایک روز رامو سے رہا نہ گیا۔ جیسے ہی ٹرین سلطانہ اورگورے بندر کو لےکر کھسکنے لگی اس نے زور سے زمین پہ تھوک دیا۔ پہیے سلطانہ کو اُس سے دُور لیے جا رہے تھے اور وہ بس دیکھے جا رہا تھا۔ (جاری ہے)

سنڈے میگزین سے مزید