انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے میں سابق وزیراعظم بنگلادیش شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت سنا دی گئی، شیخ حسینہ واجد کو ان کی غیر موجودگی میں سزا سنائی گئی ہے، سیاسی غلبے سے سزائے موت کا ان کا سفر کیسا گزار؟
شیخ حسینہ واجد 1947 میں موجودہ بنگلادیش (اس وقت مشرقی پاکستان) میں پیدا ہوئیں، 5 بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔
1973 میں ڈھاکہ یونیورسٹی سے بنگالی لٹریچر میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے والد شیخ مجیب الرحمان اور ان کے حامی طالب علم کے درمیان رابطہ کار کے طور پر سیاست میں سرگرم رہیں۔
1975 کے فوجی بغاوت میں اپنے والد اور خاندان کے بیشتر افراد کی ہلاکت کے بعد وہ جلاوطنی میں بھارت منتقل ہو گئیں۔ 1981 میں واپسی کے بعد انہیں عوامی لیگ کی قیادت سونپی گئی۔
شیخ حسینہ واجد نے اپنی دیرینہ حریف خالدہ ضیاء جو بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ ہیں کے ساتھ اتحاد بنا کر 1990 میں فوجی حکمران حسین محمد ارشاد کے خلاف جمہوریت کے لیے عوامی تحریک کی قیادت کی۔ تاہم یہ اتحاد زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکا، اور دونوں رہنماؤں کی شدید سیاسی کشمکش، جنہیں ’’بیگم برادرز‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، کئی دہائیوں تک بنگلا دیشی سیاست پر غالب رہی۔
شیخ حسینہ پہلی بار 1996 میں عوامی لیگ کو کامیابی دلا کر وزیرِ اعظم بنیں اور 5 سالہ مدت پوری کی۔ بعدازاں 2009 میں دوبارہ اقتدار حاصل کیا اور مسلسل تین ادوار تک حکومت کرتی رہیں، یہاں تک کہ گزشتہ سال ایک عوامی تحریک کے نتیجے میں انہیں اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔
طلبہ تحریک اور عوامی احتجاج کے بعد شیخ حسینہ نے ملک سے فرار ہوکر بھارت میں پناہ لی، اب ایک سال بعد انہی واقعات کے تناظر میں شروع ہونے والے مقدمات نے انہیں تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی موڑ پر لا کھڑا کیا ہے، جہاں وہ سابق وزیرِ اعظم ہونے کے باوجود جرائمِ انسانیت کے الزام میں سزائے موت کا سامنا کر رہی ہیں۔