آئین کسی بھی ملک کے وجود کی شناخت اور اسکے مختلف النوع معاملات و سائل کے حل کی مقدس دستاویز ہے۔ ملک کے انتظامی، سیاسی اور معاشی مسائل حل کرنے کیلئے اس سے رجوع کیا جاتا ہے۔ اور دوسری قوموں سے تعلقات بھی اسی کی منشا کے مطابق استوار کئے جاتے ہیں۔ گویا آئین ملک کے تمام مسائل کا حل ہے مگر بدقسمتی سے یہاں خود آئین کو ایک مسئلہ بنادیا گیا ہےاور ہر حکمران نےاسکے ساتھ کھلواڑ کیا۔ قائداعظم کے دنیا سے جلد چلے جانےکے بعد اقتدار کی دھما چوکڑی شروع ہوگئی اور قیام پاکستان کے طے شدہ مقاصد دھرے کے دھرے رہ گئے۔ انگریزوں کی پروردہ بیورو کریسی کی اشرافیہ نے 9سال تک ملک کو سرزمین بے آئین رکھا کیونکہ انگریزوں کے سامراجی قوانین ان کو اقتدار کے بہتر مواقع فراہم کرتے تھے ، خدا خدا کر کے 1956ءمیں ایک بیورو کریٹ وزیراعظم نے ملک کو آئین دیا ابھی اس پر عملدرآمد بھی نہیں ہو اتھا کہ ایوب خان نے بیوروکریٹ صدر کی مدد سے اقتدار پرقبضہ کر کے مارشل لا لگادیا اور یہ آئین منسوخ کردیا گیا۔ اپوزیشن کے شور و غوغا اور قوم کے احتجاج پر قابو پانے کیلئے 1962ءمیں ایک اور آئین متعارف کرایا گیا۔ جسے بابائے جمہوریت نوازبزادہ نصرا للہ خان نے لائل پور (اب فیصل آباد) کا گھنٹہ گھر قرار دیا تھا۔ کیونکہ اسے جس سمت سے بھی دیکھو ایوب خان ہی نظر آتا تھا۔ مشرقی پاکستان میں بغاوت ہوگئی تو ایوب خان اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کرکے گھر چلے گئے۔ یحییٰ خان نے 1962ءکے آئین کو منسوخ کرکے نیا مارشل لا لگادیا۔ انہی کے دور میں ملک دولخت ہوگیا۔ اس دوران عام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان میں جیت گئے تھے۔ 1973ء میں انہوں نے ملک کا تیسرا لیکن متفقہ آئین بنایا۔ اسکی تدوین میں تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے حصّہ لیا اور اتفاق رائے پیدا کیا۔ قوم خوش ہوگئی مگر یہ خوشی چار سال بعد کافور گئی جب جنرل ضیاء الحق نے قائد عوام کو نہ صرف چلتا کیا بلکہ پھانسی پر لٹکا دیا ۔ آئین ایک بار پھر منسوخ ہوگیا کیونکہ جنرل ضیاءاسے کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ اہمیت دینےکو تیار نہ تھے۔ ایک حادثے میں انکے جاں بحق ہونےکے بعد ملک میں پھر لولی لنگڑی جمہوریت بحال ہوئی اور 1973ء کے آئین کو نئی زندگی ملی مگرجنرل پرویز مشرف نےوزیراعظم نواز شریف کی حکو مت کا تخت الٹ کر اسے ہوا میں اڑا دیا۔ انہوں نے اپنے ضابطے بنا کر 9سال تک حکومت چلائی۔ اُن کے رخصت ہونے پر اقتدار ایک بار پھر عوام کے منتخب نمائندوں کے پاس آیا اور 1973ءکا آئین بحال ہوا۔ یہ آئین اب بھی نافذ ہے۔ مگر ہر حکمران نے اس میں اتنی ترمیم کرائی ہیں کہ اصل آئین وقت کے گرد وغبار میں گم ہوچکا ہے۔ تازہ ترین ترمیم ،ستائیسویں ترمیم ہے جو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے اپوزیشن کے شور و غوغا احتجاج ، نعرے بازی اور بائیکاٹ کے باوجود دو تہائی اکثریت سے منظور کرائی گئی۔ اس ترمیم کی خاص بات یہ ہے کہ ملک میں پہلی بار اس کے خلاف احتجاج سپریم کورٹ کے دو فاضل ججوں نے بھی کیا اور اپنے عہدوں سے استعفیٰ دےد یا۔ ان کا کہنا ہے کہ 27 ویں ترمیم سے سپریم کورٹ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیاگیا ہے۔ یہ آئین پر سنگین حملہ ہے عدلیہ کی آزادی ختم کردی گئی ہے جمہوریت کا جنازہ نکل گیا ہے۔ اپوزیشن نے ترمیم پررائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اور دھمکی دی ہے کہ برسر اقتدار آنے پروہ اس ترمیم کو ختم کردے گی۔ حکومت 27 ویں ترمیم کوادارہ جاتی ہم آہنگی اور قومی استحکام کا ذریعہ بتاتی ہے۔ آرمی ایکٹ میں ڈھانچہ جاتی ترمیم کرکے تینوں افواج کے سربراہوں کے مناصب کو بلند اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کا عہدہ ختم کردیا گیا ہے۔ ترمیم منظور کرانے کیلئے اپوزیشن کے دوسینیٹروں کی حمایت حاصل کی گئی جنہیں منحرف ہونے پرا ن کی پارٹیوں سے نکال دیا گیا ہے ادھر ستائیسویں آئینی ترمیم کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔ ترمیم کے نکات حکومت کے نزدیک عوامی مفاد میں ہیں۔ لیکن نکتہ وروں نے انہیں حکمرانوں کے مفادات کے تحفظ کا ذریعہ قراردیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے جو آئینی ترامیم ہوتی رہیں ان کے مطالعے سے پتہ چلتا ہےکہ وہ زیادہ تر حکومتوں کا اقتدار مستحکم بنانے کیلئے ہی کی جاتی رہیں۔ اسلئے 27 ویںترمیم کے بارے میں بھی یہی تاثرپایا جاتا ہے ۔ اگر یہ ترامیم عوام کے مفاد میں ہیں تو بہتر ہوتا اپوزیشن کی حمایت بھی حاصل کی جاتی اور اتفاق رائے پیدا کیا جاتا ، بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام نے قوم کو اس وقت تقسیم کر رکھاہے۔ 27 ویںترمیم نے اس تقسیم کو مزید گہرا کردیا ہے ۔ آئین میں 28ویں ترمیم بھی جلد آنے والی ہے اس کا تعلق تعلیم، آبادی اور بلدیات جیسے معاملات سے ہوگا۔ بظاہر یہ عوامی مفادکے معاملات ہیں۔ کوئی ترمیم تو ایسی ہونی چاہئے جو عام آدمی کے لئے ہو۔ لوگوں کو مہنگائی ، بے روزگاری ، بدامنی، چوری ، ڈکیتی، بے محاٹیکسوں، نا خواندگی اور غربت سے نجات ملے۔ حکمرانوں کو اپنا اقتدار مضبوط کرنے کیساتھ ان مشکلات کو بھی ختم کرنے کی فکر کرنی چاہئے۔ جو غریبوں اور بےوسیلہ لوگوں کو درپیش ہیں۔آئین کا منشا یہی ہے ۔ اس پر عمل ہونا چاہئے۔