ایک دفعہ میں اپنے دوست کیساتھ اُسکے گاؤں گیا۔ دوست نے وہاں دومخالفین میں صلح کروانی تھی۔ گاؤں پہنچے تو شام کوسب اکٹھے ہوئے۔ دونوں مخالفین کسی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کیلئےاپنے ساتھ مسلح افرادبھی لائے ہوئے تھے۔ ایک گروپ میں تندوتیز چاچا جی بیٹھے تھے جنہیں خاص طورپرسمجھایاگیا تھا کہ چونکہ بات صلح صفائی کی طرف جارہی ہے لہٰذا کوئی تلخ کلامی نہیں کرنی۔ شکوے شکایات شروع ہوئے اورپھر ہوتے ہوتے بات صلح تک آپہنچی۔دونوں مخالفین نے اٹھ کرایک دوسرے کو گلے لگایا، مٹھائی منگوائی گئی اور سب کامنہ میٹھاکروایاگیا۔ میںبھی برفی کا ٹکڑا منہ میں رکھنے ہی لگا تھا کہ اچانک چاچا جی مخالف گروپ کی طرف منہ کرکے بولے’دیکھیں جی! اچھی بات ہے صلح ہوگئی ہے، سب کوامن سے رہناچاہیے لیکن اب اگرآپ کی طرف سے کوئی حرکت ہوئی تو .....اسکے بعد انہوں نے منہ بھرکے گالی دی۔ایک دم سے سارا ماحول بدل گیا۔ مٹھائیاں زمین پرگرگئیں اورمخالف گروپ نے اس سے بھی بڑی گالیاں دیتے ہوئے اپنی بندوقیں سیدھی کرلیں۔اِدھر سے بھی بندے حرکت میں آئے اور تھوڑی دیرمیں صورتحال یہ بن گئی کہ دونوں طرف کے لوگ پھنکارتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف اسلحہ تانے کھڑے تھے۔برفی کاٹکڑا میرے ہاتھ میں ہی کانپنے لگا۔بڑی مشکل سے کچھ بزرگ بھاگ کردرمیان میں آئے اور منتیں ترلے کرتے ہوئے دونوں طرف کے لوگوں کو ٹھنڈا کیا اورماحول کاتناؤختم کرنے کیلئے فوری طور پرچاچے کوڈنڈا ڈولی کرتے ہوئے اسکے گھر پہنچایا گیا۔ کہنایہ ہے کہ”فری اسپیچ“میں اگرگالی بھی شامل ہے تواس سے بدترین کوئی چیز نہیں۔کسی بھی لڑائی میں پہلاگیئرگالی لگاتی ہے اورپھرمعاملات کہاں سے کہاں جاپہنچتے ہیں۔ایک صاحب فری اسپیچ میں گالی کو بھی شامل کرنے کے حق میں تھے۔انکی دلیل تھی کہ لفظوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ دوسرے نے ان سے کہا کہ آپ نہایت گدھے اور خبیث انسان ہیں۔ اس پروہ بھڑک اٹھے اورکرسی اٹھاکراُسکودے ماری۔
٭٭٭٭
انٹرنیٹ پرجوئے کی تشہیرمیں ملوث کچھ بڑے یوٹیوبر زپر ایف آئی اے نے ہاتھ ڈالاہواہے۔ ایک صاحب گرفتاربھی ہیں۔مشہورلوگوں کے منہ سے نکلی ہوئی بات پرلوگ بڑا یقین کرتے ہیں اسی لیے ایسے لوگوں کواِس قسم کی تشہیرکیلئے بھاری معاوضہ دیا جاتاہے۔ ایساہی معاملہ کمرشلز یعنی اشتہارات کے ساتھ بھی ہے۔ کوئی معروف ایکٹر یس یا ایکٹرکسی ہاؤسنگ اسکیم کے اشتہار میں نمودار ہوتاہے اور پورے یقین سے بتاتاہے کہ ایسی ہاؤسنگ اسکیم دنیا میں کہیں نہیں ہوگی، میں نے بھی پلاٹ لے لیا ہے، آپ بھی لے لیں۔اشتہار دیکھ کرکئی سادہ لوح اس پریقین کر بیٹھتے ہیں اور پھر ساری زندگی بددعائیں دیتے ہیں۔ صابن سے لے کرگھی حتیٰ کہ ٹوائلٹ کلینرکے اشتہاروں میں بھی یہ ایکٹرز ہی نظر آتے ہیں۔آپ کے گھرکبھی ایسا ہواہے کہ کسی خاص برینڈ کا گھی آنے پرسارا گھر ڈبے کوجپھیاں ڈال کرخوشی سے ناچ رہا ہو۔ یاکبھی ایسا ہواہے کہ کوئی خاص کولڈ ڈرنک دیکھ کر سارا گھر پاگل ہوگیا ہو۔اوپرسے ٹوائلٹ کلینر کے اشتہاروں میں اعلیٰ ترین گھروں کے ٹوائلٹ دکھائے جاتے ہیں جنہیں خاتون خانہ خود صاف کر رہی ہوتی ہیں ا ور جب ان کے پاس کسی خاص کمپنی کا ٹوائلٹ کلینر آتا ہے تو اُن کی عید ہوجاتی ہے۔اوئے کون لوگ اوتسی۔
٭٭٭٭
چین کے ایک صاحب نے مچھلی فارم بنارکھاہے اوروہ روزانہ مچھلیوں کو بطور غذ اپانچ ہزارکلو سرخ اورہری مرچیں کھلاتے ہیں۔فارم مالک کادعویٰ ہے کہ مرچیں کھانے سے مچھلی کا ذائقہ بہترہوتاہے اوروہ زیادہ تیزی سے بڑی ہوتی ہیں۔انکایہ بھی کہناتھاکہ مچھلیاں مرچیں بہت شوق سے کھاتی ہیں اورچونکہ اُن میں ذائقے کی حس نہیں ہوتی لہٰذامرچوں کاتیکھا پن اُنہیں کچھ نہیں کہتا۔ بڑی عجیب بات ہے، ذائقہ نہیں ہوتاتومچھلیاں شوق سے کیسے مرچیں کھالیتی ہیں۔کھانے کاشوق توآتاہی ذائقے سے ہے۔مرچیں تیزہوں توبندہ پانی کی طرف دوڑتاہے، مچھلیاں توہوتی ہی پانی میں ہیں لہٰذامرچیں لگتی بھی ہوں گی توبندوبست کرلیتی ہوں گی۔مرچیں کئی لوگوں کی مرغوب غذاہیں۔ اگلے وقتوں میں تواس سے پوری روٹی کھالی جاتی تھی۔ آج بھی کئی لوگ ہری مرچوں کے بغیر کھانانہیں کھاسکتے۔ایک عورت کے شوہرسانپ کے ڈسنے سے انتقال کرگئے۔ سہیلی تعزیت کیلئے آئی تو پوچھاکہ یہ سب کیسے ہوا؟ عورت گلوگیرآواز میں بولی ”تمہیں تو پتاہے میں ہری مرچوں کے بغیرکھانانہیں کھاسکتی اسی لیے لان میں بھی ہری مرچوں کا پودا لگا رکھا ہے، کل شام شوہرکولان سے ہری مرچیں لینے بھیجا، وہاں پودوں میں سانپ تھاجواُنہیں لڑگیااوروہیں تڑپ تڑپ کراُن کی موت ہوگئی۔“سہیلی نے افسوس کرتے ہوئے پوچھا”ایسے میں تم نے کیاکیا؟“۔ عورت آہ بھر کر بولی ”میں نے کیا کرناتھا ، پھرہری مرچوں کے بغیرہی کھاناکھایا“۔
٭٭٭٭
نیپرانے پنجاب کی تیس بجلی تقسیم کارکمپنیوں لیسکو، گیپکو اور فیسکو پر پانچ کروڑ سات لاکھ کاجرمانہ کیاہے۔جرمانے اسلئے کیے گئے کہ ان کمپنیوں میں کرنٹ لگنے سے گزشتہ سال تیس اموات ہوئیں۔ خبرمیں وضاحت تو نہیں کہ یہ اموات کن کی ہوئیں لیکن میراخیال ہے یہ لائن مین ہی ہوسکتے ہیں یاوہ اسٹاف جس کاواسطہ ڈائریکٹ تاروں اور کھمبوں سے پڑتاہے۔یہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں نہیں بلکہ اُس پر ہاتھ ڈال کرہمیں بجلی پہنچاتے ہیں۔ ان کی مکمل حفاظت کاپورابندوبست ہوناچاہئے۔اِنہیں جدید ترین کرنٹ پروف کٹ سے لیس ہوناچاہئے۔ روٹی روزی کمانا آسان نہیں۔ کوئی گٹر میں اتر جاتا ہے، کوئی ننگی تاروں سے الجھ جاتاہے، کوئی سخت گرمی میں تنورمیں جھک کر روٹیاں لگاتاہے ۔ یہ جن لائن مینوں کی لاشیں ہم تصویروں میں دیکھتے ہیں یہ اُسی ادارے کے فرنٹ لائن سولجر ہوتے ہیں جنہیں لوڈشیڈنگ کے دوران ہم بدترین گالیوں سے نوازتے ہیں۔بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا کام صرف عوام کو بجلی مہیا کرنا ہی نہیں اپنے اسٹاف کی حفاظت کرنا بھی ہے۔ ایکسئین یا ایس ڈی او صرف حکم دیتے ہیں اور یہ لائن مین متعلقہ علاقے میں پہنچ کر کام شروع کر دیتے ہیں۔ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کھمبوں پر چڑھنے والے یہ نڈر آئے دن کسی نہ کسی حادثے کاباعث بنتے ہیں۔ اسکا حل جرمانے نہیں سزائیں ہونا چاہئے۔ یہ قتل ہے اور سزا بھی اسی معیار کی تجویز ہونی چاہئے کہ بہرحال اس میں کوئی نہ کوئی تو قصوروارہوتاہے۔ سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا تک سب شور مچاتے ہیں لیکن اسی شور میں پھر کوئی جان سے چلا جاتا ہے۔ کومل جوئیہ نے ساری بات کوزے میں بند کر دی کہ
سماعتوں پہ لگے قفل کھل نہیں پائے
ہماراشور مچانا بھی رائیگاں ہی گیا