• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لکھنا عطائے توفیق ہے۔ کسی کی اچھی تحریر پڑھ کر محظوظ ہونا حسد میں مبتلا ہونے سے بدرجہا بہتر ہے۔ حالیہ برسوں میں اس اخبار کے ادارتی صفحے پر حماد غزنوی اور فرنود عالم نمودار ہوئے ہیں۔ دونوں کا رنگ تحریر جدا ہے مگر پڑھنے والا علم کی وسعت، مشاہدے کی گہرائی اور زبان کی سلاست کے سہ جہتی ٹھنڈے میٹھے دھارے میں ایسا ڈوبتا ہے کہ کالم ختم ہونے پر خوان نعمت لپٹنے جیسا ملال ہوتا ہے۔ ہمارے برادر بزرگ برسوں براہ راست سیاسی تجزیہ لکھتے رہے۔ 1998 میں تو صاحبان اختیار ایسے بھنائے کہ اخبار کو جن چودہ صحافیوں کے برطرف کرنے کا عتابی فرمان جاری کیا گیا اس فہرست میں برادرم کا نام اس مقام پر تھا جس کی تمنا ابو بن ادھم نے کی تھی۔ وہ وقت بھی گزر گیا۔ سیاست کے مد و جزر رقم ہوتے رہے۔ کوئی چھ برس گزرے،حضرت کے قلم نے استعارے کی راہ پکڑ لی۔ سیاسی کرداروں کو ان کے سیاسی تشخص کی مناسبت سے نام بخش دیے۔ اپنی بات کہتے رہے ۔ یہ تبدیلی دراصل تو اشارہ تھا کہ اب صحافی کے لیے براہ راست بات کہنا مشکل سے مشکل تر ہو گیا ہے۔ اندھیرا زیادہ بڑھا تو سیاسی اشارہ چھوڑ کر جنگل میں جا پہنچے اور جنگلی مخلوق کے پردے میں لکھنا شروع کر دیا۔ کہیں شیر کی حکومت ہے تو کہیں لومڑی کی سازش۔ کہیں بکری گردن زدنی ہے تو کہیں کبوتر غرق خوں ہے۔ کہیں بندر پیڑ کی ٹہنی پر تماشائی بنا بیٹھا ہے تو کہیں حشرات الارض نے بل بنا رکھے ہیں۔ اس رنگ تحریر میں چند در چند فائدے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ ایسا لکھنا ہر کہ و مہ کے بس کا روگ نہیں۔ ہمارے ادب میں جنگل کی کہانیا ں رفیق حسین نے لکھی تھیں۔ محترم اکرام اللہ کے افسانوں کا پہلا مجموعہ 1962ء میں ’جنگل‘ ہی کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ درویش بھی چاہتا ہے کہ استعارے اور کنایہ کی دنیا میں قدم رکھے۔ ممکن ہو تو طنز کا نشتر آزمائے۔ کہیں مزاح کے پردے میں حقیقت بیان کرے مگر ایسا ہے کہ تاریخ کی دوات میں قلم ڈبوتا ہوں تو نوک کلک پر لہو رنگ روشنائی کا قطرہ نظر آتا ہے اور پھر یہ قطرہ پھیل کر بے کنار سمندر کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

1890 ء کچھ ایسا قدیم زمانہ بھی نہیں۔ انگریز بہادر کی حکومت تھی جب وسطی پنجاب کے دوآبہ رچنا میں لوئر چناب کے کنارے ایک شہر کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ غالباً برطانوی ہند میں باقاعدہ منصوبے کے تحت تعمیر ہونے والا پہلا شہر تھا جس کا نقشہ یونین جیک کے نمونے پر بنایا گیا۔ چار بڑ ے بازاروں کے بیچ چار چھوٹے بازاروں کے لیے راستہ نکالا گیا۔ ان آٹھ بازار وں کے داخلی اتصال پر ایک بڑا میدان تھا جس میں گھنٹہ گھر تعمیر کیا گیا۔ تب پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر جیمز براڈ ووڈ لائل کے نام پر اس شہر کو ’لائل پور‘ قرار دیا گیا۔ ہندوستان تقسیم ہو گیا ۔ مشرقی پنجاب سے آنے والے پناہ گیروں کے محنت کش ہاتھوں نے اس شہر کو پنجاب کے صنعتی مرکز میں بدل ڈالا۔ تاریخ کے مگر اپنے رنگ ہوتے ہیں۔ 1962ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے اس ملک کو ایک دستور عطا کیا۔ دستور کی تدوین میں وزیر خارجہ منظور قادر کی قانونی مہارت سے استفادہ کیا گیا تھا۔ یہ بتانا ممکن نہیں کہ منظور قادر نے اپنے قریبی دوست ملک غلام جیلانی کو اس آئینی مشاورت کی تفصیل کن لفظوں میں بیان کی تھی۔ یہ البتہ سب جانتے ہیں کہ حبیب جالب نے ایک نظم ’میں نہیں مانتا‘ کی مدد سے اس دستور کا انجام لکھ دیا تھا۔ تعلیم یافتہ طبقے میں اس دستور کو’ لائل پور کا گھنٹہ گھر ‘کہا جاتا تھا۔ یہ اشارہ تھا کہ نئے دستور میں اختیار کا ہر بازار اور فیصلہ سازی کی ہر گلی فرد واحد کی ذات مبارک پہ ختم ہوتی تھی۔ یہاں رک کر تاریخ کے ایک دوسرے باب کی طرف چلتے ہیں۔25دسمبر 1979ء کو سوویت افواج کابل میں وارد ہوئی تھیں۔ مؤرخ اس واقعے کو جس رنگ میں بھی لکھے ضیاالحق کے لیے افغانستان میںپیش آنے والا یہ سیاسی انقلاب کسی خوشخبری سے کم نہیں تھا۔ ضیا آمریت کو آئینی جواز تو جسٹس انوار الحق دے چکے تھے۔ سیاسی جوازافغانستان میں سوویت مداخلت نے بخشا۔ یہ ضیا آمریت کے امریکا اور سعودی عرب سے قریبی معاونت کے دن تھے۔ 1979ء میں لائل پور کو فیصل آباد قرار دینا ایک سیاسی اشارہ تھا۔ 1980ء شروع ہو رہا تھا ۔ پاکستان کی تاریخ کے تاریک ترین برسوں میں سے ایک برس جب 9اگست 1980 ء کو نذیر عباسی بدترین تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے عقوبت خانے میں شہید ہوئے۔ مارچ 1980ء میں ایک ریٹائرڈ میجر جنرل تجمل حسین ملک کی سازش پکڑی گئی ۔ ستمبر میں ضیاالحق نے مشائخ کانفرنس میں کابینہ اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رہنمائی کے لیے مشائخ بورڈ کا دام بچھایا جو فروری 1985 ء میں تب قائم ہوا جب غیر جماعتی انتخابات میں چند ہفتے باقی تھے۔ دسمبر 1980 ء میں قصاص ، دیت اور حدود کے قانونی مسودے جاری کیے گئے۔ اسی برس ڈاکٹر انور سجاد کا ناول ’خوشیوں کا باغ‘ شائع ہوا۔ ڈاکٹر انور سجاد نے اس ناول میں پندرہویں صدی کے ڈچ مصور بوش کی شہرہ آفاق تصویرThe Garden of Earthly Delightsکے استعارے میں پاکستان کی سیاسی صورتحال پر کاٹ دار تبصرہ کیا تھا۔ بوش کی یہ تصویر تین حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے پینل کا عنوان ’باغ عدن‘ ہے۔ درمیانی حصے کو ’خوشیوں کا باغ‘ قرار دیا ہے جبکہ انتہائی دائیں کنارے پر تیسرے اور آخری پینل کا عنوان ’جہنم‘ تھا۔ بڑے فن کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ بدلتے ہوئے زمانوں میں اپنی معنویت برقرار رکھتا ہے۔ بوش نے یہ تصویر 1490 ء میں کینوس پر اتاری تھی۔ ٹھیک پانچ سو برس بعد ڈاکٹر انور سجاد ہمیں بتا رہے تھے کہ بھلے خوشیوں کے باغ کا منظر کیسا ہی خوشنما کیوں نہ ہو اس کا اختتام جہنم کے عذاب پر ہوتا ہے۔ اب میری مشکل یہ ہے کہ بھلے مجھے قلم پر برادر بزرگ سہیل وڑائچ جیسا عبور حاصل نہ ہو مگر میں بھی اشارے میں سیاسی رائے دینا چاہتا ہوں اور فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ ’لائل پور کا گھنٹہ گھر ‘ یاد کروں یا حال کی مناسبت سے ’فیصل آباد کا گھنٹہ گھر‘ لکھوں۔

تازہ ترین