• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری قومی سیاست یا جمہوریت کا ایک مخمصہ یا المیہ ہے کہ یہ ہر وقت تلواروں اور بندوقوں کے سائے میں رہتی ہے اسی وجہ سے اس میں ہنوز مطلوبہ میچورٹی نہیں آ رہی، اس ایشو پر ہمارے دانشوروں میں بہت بحثیں ہوتی رہی ہیں کہ آخر ہمارے ہی ملک میں بار بار مارشل لاء کیوں لگتے ہیں؟ اور جب نہیں لگے ہوتے تب بھی جمہوریت بوٹوں کی چاپ کے خوف سے ڈری اور سہمی ہوئی کیوں رہتی ہے؟ اس کا الزام ایک طرف اگر سیاستدانوں پر دھرا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے یا حرصِ اقتدار میں مبتلا ہو کر ایمپائر کی طرف للچائی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں تو دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب ایک بار کسی کے منہ کو مشروب مغرب کی لت لگ جائے تو پھر اس کیلئے اس سواد سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔ جس سوسائٹی میں آئین اور قانون کی حکمرانی کا نظریہ پختہ ہو جائے وہاں غلط روایات کو دم توڑتے دیر نہیں لگنی چاہیے۔ انگریزوں سے بڑھ کر روایت پرست کون سی قوم ہو گی لیکن کسی ایشو پر جب پارلیمنٹ سٹینڈ لے لے تو روایتوں کی ایسی تیسی ہو جاتی ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہماری ہمسائیگی میں پنڈت نہرو کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے کہ کسی آرمی چیف نے انہیں ڈائریکٹ ملنے کی کوشش کی تو پنڈت جی نے اسےیاد دلایا کہ تم ایک پبلک سرونٹ ہو چنانچہ سرکاری ضابطے کی پابندی کرو میرے ما تحت وزیر دفاع ہے اسکے ماتحت سیکرٹری دفاع ہے تم اس کے ماتحت ہو لہٰذا کوئی بھی مسئلہ ہے تو سیکرٹری دفاع سے بات کرو۔ یہی وجہ ہے کہ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود انڈیا میں تمام ادارےپارلیمنٹ کے سامنے سرنگوں ہیں اور وزیراعظم کی طاقت کا منبع پارلیمنٹ ہے۔‎ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ سیاست میں جو شخص عوامی اعتماد کے حصول سے محروم رہ جاتا ہے اسکے ساتھ اگر وہ اقتدار میں آنے کا حد درجے حریص ہے تو وہ مختلف شارٹ کٹ ڈھونڈتا ہے کہ کسی طرح کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کر لے۔ اوپر براجمان اسٹیبلشمنٹ تو پہلے ہی ایسے گھوڑوں کی تلاش میں ہوتی ہے جب اسےاس ڈھب کا اصلی یا نقلی گھوڑا ملتا ہے تو وہ اس پر کاٹھی ڈال لیتی ہے اور اقتدار کی ریس میں اس کی جیت کیلئے ہر ممکن اہتمام کرتی ہے لیکن جب یہ گھوڑا اتنا توانا ہو جاتا ہے کہ از خود اپنے بل بوتے پر ریس جیت سکے تو وہ اپنے اوپر ڈلی ہوئی کاٹھی اتروانا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اپنی مرضی سے فیصلے کرے آئین قانون یا عوام کی کاٹھی کے علاوہ اس پر کوئی کاٹھی ہو نہ لگام۔ ایسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ اس کی لگام کستی ہے بصورت دیگر اسے ایوانِ اقتدار سے کہیں دور پھینکتے ہوئے نئے گھوڑے کا بندوبست کر لیتی ہے۔ ہمارے تضادستان میں پہلے تو اس نوع کی ہارس ٹریڈنگ زوروں پر تھی اور دونوں بڑی پارٹیاں ایک دوسرے پر سیکورٹی رسک جیسے الزامات لگاتی تھیں ۔ تمامتر دھکے کھانے اور ذلتوں کا بوجھ اٹھانے کے بعد مسائلستان کی دو نامور شخصیات میں اتنی سیاسی میچورٹی آگئی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی تمام چالوں کو سمجھتے ہوئے اس سے چھٹکارا پانے کی تدا بیر سوچنے لگیں ’’چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘ یا میثاق جمہوریت اسی سیاسی نکھار یا بالغ نظری کاشاہکار ہے، جسے اس ملک کی سیاست میں ہنوز وہ اہمیت نہیں دی گئی جسکی یہ منفرد دستاویز حق دار ہے۔ محترمہ کی شہادت کے باوجود پی پی کی سابق جمہوری حکومت نے اگر معیاد پوری کی تھی تو وہ اسی چارٹر آف ڈیموکریسی کا فیضان تھا اور آج بھی اگر پی پی کے بیرسٹر اسکی اہمیت کا ادراک چیئرمین سینٹ جتنا ہی کر لیں تو سیاسی کھلبلی جمہوری استحکام میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ ہم نے اس حوالے سے باقاعدہ وقت لے کر بیرسٹر صاحب سے علیحدگی میں ملاقات بھی کی جس پر الگ کالم میں بات ہو گئی۔سردست‎ ایشو یہ ہے کہ چارٹر آف ڈیمو کریسی کے باوجود ہمارے ہاں سیاسی و جمہوری عدم استحکام کیوں ہے؟ کیوں نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ ایمپائر کی دہائیاں شروع ہو جاتی ہیں اور انگلی اٹھنے یا نہ اٹھنے پر شرطیں لگنے لگتی ہیں یہ تو منتخب پارلیمنٹ کی تذلیل ہے عوامی اقتدار اعلیٰ کے رخ روشن پر دھبہ ہے آئین اور عوام کی اس سے زیادہ توہین ہو ہی نہیں سکتی۔ اپنے تمامتر اختلافات کے باوجود دونوں بڑی پارٹیاں اس ایشو پر سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس کا قابل عمل حل نکالیں۔ ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے اکاموڈیٹ کریں۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا ذلیل کرنے کی روش چھوڑ دیں۔ اگر کسی جانب سے کوئی ناروا بات بھی ہو جاتی ہے تو لازم نہیں کہ اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے ۔ بلاول سیاست میں نووارد ہے لیکن ملک و قوم کیلئے اچھے احساسات رکھتا ہے اگر وہ کوئی غلطی بھی کر جائے تو ن لیگ کے وزراء میں حوصلے اور برداشت کا مادہ ہونا چاہیے جوابی الزام تراشی کیلئے کیا آپ کے پاس سابق کھلاڑی کافی نہیں ؟لہٰذا آپ لوگ اپنے منہ ٹیڑھے کیوں کرتے ہیں آپ اس وقت اقتدار میں ہیں پی پی کمزور پوزیشن میں ہے آپ سب کو پی پی کی دلجوئی کرنی چاہیے اگرچہ وہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے گری ہے لیکن بہر حال وہ ایک ملک گیر قومی سیاسی پارٹی ہے ایک صوبے میں ہی نہیں سینٹ میں بھی اس کی عوامی طاقت ہے قومی اسمبلی میں وہ اہم حیثیت کی حامل ہے مسلم لیگ ن پرلازم ہے کہ وہ پی پی کے ساتھ اپنے طرزِ عمل کو بہتر بنائے ۔‎ نا چیز نے ملک میں سیاسی عدم استحکام پر جتنا بھی غور کیا ہے اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ہمارے ملک میں دو جماعتی نظام کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا جانا از حد ضروری ہے۔ جمہوریت جب بھی بلوغت کی طرف بڑھتی ہے دو پارٹی سسٹم مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے، دو پارٹی سسٹم کو مضبوط کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ جمہوریت کو مضبوط کر رہے ہیں اور سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ کر رہے ہیں۔

تازہ ترین