پاکستان میں کرپشن کوئی واقعہ نہیں، ایک عادت ہے؛ کوئی حادثہ نہیں، ایک مستقل مزاجی ہے؛کسی فردِ واحد کا مسئلہ نہیں، ایک منظم، گہرا، تاریخی اور خوفناک نظام ہے جس نے ریاست کو یوں اپنی گرفت میں لے رکھا ہے جیسے کسی درخت کو آکاس بیل جکڑ لے۔ اس ملک میں ادارے بنتے نہیں، بنائے جاتے ہیں؛ عوام کی خدمت کیلئے نہیں، ریاستی طاقت کو اندرونی طور پر بانٹنے اور معاشی مفاد کے راستوں کو مرتکز کرنے کیلئے۔چونکہ مقصد عوامی بھلائی سے زیادہ مالی فائدہ ہوتا ہے، اس لیے جن جن محکموں کو آپ عوامی سہولت کے مراکز سمجھتے ہیں، وہ دراصل خزانے کی بند الماریاں ہیں جن کی چابیاں مخصوص ہاتھوں میں ہوتی ہیں۔یہ عجیب ملک ہے، جہاں افسران نوکری یہاں کرتے ہیں مگر وفاداریاں اور جڑیں کسی اور ملک میں ہوتی ہیں۔ دوہری شہریت رکھنے والے افسران کی کہانی اس ملک کے سب سے بڑے تضاد کو ظاہر کرتی ہے ملک ان سے وفاداری مانگتا ہے مگر ان کے دل و دماغ، ان کے اثاثے اور ان کے بچے کہیں اور ہوتے ہیں۔ وہ یہاں کے وسائل سے کماتے ہیں، مگر مستقبل کے خواب دبئی، لندن، ٹورنٹو، اور نیو جرسی میں رکھتے ہیں۔کرپشن کی جڑیں کسی ایک دفتر، محکمے یا افسر تک محدود نہیں۔
یہ ایک پورا نیٹ ورک ہے ایک زندہ، متحرک، مستقل اور خوفناک نظام۔ اس نظام میں کام یوں نہیں ہوتا کہ آپ کرپشن تلاش کریں، بلکہ یوں ہوتا ہے کہ کرپشن آپ کو تلاش کرتی ہے، لپٹتی ہے، اور آخرکار آپ کو اپنا حصہ بنا لیتی ہے۔حال ہی میں سیالکوٹ کے اے ڈی سی آر اقبال سنگھیڑا کو جس الزام کے تحت گرفتار کیا گیا، وہ ہمارے سسٹم کی ایک چھوٹی سی مگر بہت واضح مثال ہے۔ الزام ہے کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے زمینوں، ٹرانسفر پوسٹنگز، اور دیگر سرکاری معاملات میں غیرقانونی مالی فائدے لیے۔ ایسے کیسز سامنے آتے ہیں تو عوام کو لگتا ہے شاید کچھ بدل رہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف برف کی چادر کی اوپری تہہ ہے اصل گندگی اس گہرائی میں ہے جہاں ابھی کسی کی نظر پہنچ نہیں پاتی۔لاہور جیسے شہر کے محکمہ مال کی کہانیاں اگرلکھی جائیں تو پاکیزگی کے بیشمار دعوے داروں کی اصلیت کھل جائے ۔ پٹواری سے لے کراوپر تک ایک ایک پوری زنجیر۔
یہاں زمین صرف کاغذ پر درج نہیں ہوتی، یہاں زمین کی قیمتیں انسانوں کے ضمیر کے مطابق بدلتی ہیں۔ ایک فائل کی حرکت، ایک صفحے پر دستخط، ایک لائن کی درستی، ایک نقشے کی تبدیلی ان سب کے ریٹ ہیں۔ ایل ڈی اے شہر کو بہتر بنانے کیلئے بنایا گیا تھا، مگر حقیقت میں یہ وہ دروازہ بن چکا ہے جس سے گزر کر دولت کی نہریں بہتی ہیں۔ اس ملک میں مشکل یہ نہیں کہ کرپشن موجود ہے؛ مشکل یہ ہے کہ کرپشن معمول بن چکی ہے۔ عوام کو اب حیرانی نہیں، افسران کو کوئی ڈر نہیں، عدالتوں کو کوئی فکر نہیں ۔ دہر ی شہریت رکھنے والے اعلیٰ افسران اور سیاستدان اس ملک کی سب سے بڑی ٹریجڈی ہیں۔ جب مستقبل یہاں نہ ہو پھر دل بھی یہاں نہیں رہتا۔ وہ پاکستان میں فیصلے کرتے ہیں مگر مستقبل لندن، دبئی اور نیویارک میں محفوظ کرتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ جن ممالک کو انہوں نے اپنا مستقبل سمجھ رکھا ہوتا ہے، وہ انہیں یہاں کی لوٹ مار پر کبھی پوچھتے بھی نہیں۔ یہ لوگ اپنا پیسہ یہاں سے نکال کر باہر لے جاتے ہیں، اور وہاں کی معیشت مضبوط کرتے ہیں اور پاکستان ہر سال کمزور ہوتا جاتا ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ یہ سسٹم چل کیسے رہا ہے،کون اسے چلا رہا ہےاور کیوں کوئی اسے توڑ نہیں سکتا؟ اس کا جواب بہت تلخ ہے: یہ سسٹم اس لیے چل رہا ہے کیونکہ یہ سسٹم سب کو فائدہ دیتا ہے سوائے عام آدمی کے۔ جو اس نظام کو توڑنے نکلے، وہ خود ٹوٹ جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہاں ایماندار افسر کو ’’مسئلہ پیدا کرنے والا‘‘ سمجھا جاتا ہے، اور کرپٹ افسر کو ’’کام کرنے والا بندہ‘‘کہا جاتا ہے۔ یہ جملہ آپ نے ہزار بار سنا ہوگا: ’’یہ بندہ پیسے لیتا ہے مگر کام کرتا ہے‘‘ یہ جملہ دراصل اس قوم کی اجتماعی قبر پر لکھے جانے کے قابل ہے۔
سیالکوٹ کے اے ڈی سی آر کا کیس ہو یا لاہور کے محکمہ مال کی کہانیاں، ایل ڈی اے کی چمکتی عمارت ہو یا ضلعی انتظامیہ کا کوئی دفتر یہ سب ایک بڑے ڈھانچے کی چھوٹی چھوٹی اینٹیں ہیں۔ اور اس ڈھانچے کا نام ہے’’بدعنوانی کا منظم ریاستی ماڈل‘‘ جہاں عوامی خدمت دفتر کی فائلوں میں بند ہے، اور اصل خدمت صرف ان لوگوں کی ہوتی ہے جنکے ہاتھ لمبے ہیں۔آخر میں یہ سوال رہ جاتا ہے: کیا یہ نظام کبھی ٹوٹ سکتا ہے؟ کیا اس ملک میں کبھی ایسا وقت آئے گا جب عوام کے ٹیکسوں سے چلنے والے ادارے واقعی عوام کی خدمت کریں گے؟ کیا کبھی ایسا ہوگا کہ ایک پٹواری، ایک تحصیلدار، ایک ڈی سی، ایک سیکریٹری، ایک کمشنر یہ سب لوگ اپنے دفتر میں بیٹھ کر عوامی خدمت کو وظیفہ سمجھیں، کاروبار نہیں؟پاکستان بدلے گا جب پاکستان میں نظام بدلنے کی خواہش طاقت بنے گی۔ اور یہ تب ہوگا جب عوام، ریاستی ادارے، صحافت، عدالتیں، اور سب سے بڑھ کر حکومت کرپشن کو صرف ایک نعرہ نہیں، ایک جنگ سمجھیں گی۔ لیکن ابھی تک ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں تو ہرکسی کا ایک ہی موٹو دکھائی دیا کہ :’’لوٹو اور پھوٹو” یعنی جتنا لوٹ سکتے ہو لوٹو، اور جب پکڑے جاؤ تو انتقام کا راگ الاپ کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک دو۔یہ ملک ابھی سانس لے رہا ہے، لیکن اگر یہی روش جاری رہی تو ایک دن آئے گا کہ یہ سانسیں بھی قرض پر چل رہی ہوں گی۔ اور اس دن شاید ہمیں احساس ہو کہ اصل دشمن سرحدوں کے باہر نہیں، ہمارے دفاتر، ہمارے اداروں، اور ہمارے فیصلوں کے اندر ہی بیٹھا ہوا تھا۔