• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرانس دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ جہاں انسانی بنیادی حقوق، سماجی و معاشی ضروریات اور بلدیاتی اداروں کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ یہاں فنڈز میں کمی بیشی پر سمجھوتہ نہیں کیا جاتا، مگر گزشتہ چند برسوں میں سیاسی عدم استحکام نے اس ترقی یافتہ ملک کو بھی معاشی طور پر کمزور کر دیا ہے۔ پارلیمنٹ نے صدر ایمانوئل میکرون کی تجویز کردہ بجٹ کٹوتیوں کو مسترد کیا، نتیجتاً ایک ہی سال میں چار وزرائے اعظم تبدیل ہوئے اور حکومت مزید غیر مستحکم ہو گئی۔بین الاقوامی سطح پر یونان نے 2010 کے یوروزون بیل آؤٹ میں فرانس کی مالی معاونت کے بدلے طویل المدتی ادائیگیاں کرنی تھیں مگر نومبر 2025ءمیں یونان نے ایک اعشاریہ ایک بلین یورو پہلے ہی ادا کر دیے، جو 2033 تا 2041کے شیڈول سے کہیں پہلے تھے۔ یونان اپنی مالی بحالی کے تحت بعض بیل آؤٹ قرضے دس سال پہلے نمٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ پچھلے 15 سال میں یونان کی کریڈیٹ ورتھنیس میں جو بہتری آئی ہے، وہ اس تیز رفتار بحالی کا ثبوت ہے۔یہ معاشی و سیاسی پس منظر اس احساس کو تقویت دیتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک بھی استحکام کے بغیر بحران کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ایک گروہ دوربینیں تان کر قوم کے زخموں کا مرہم بننے کے بجائے اپنی مفاد پرستی کے مناظر میں گم ہے۔ حق تلفی معمول بن چکی ہے، منصب کی حرمت، اصلاحات اور انصاف محض الفاظ رہ گئے ہیں جنہیں مصلحت کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے۔ زکوٰۃ و عشر کا وہ نظام جو ہر سال اربوں روپے وصول کرتا ہے، کئی برسوں سے مفلوج ہے اور ملازمین کو مہینوں تنخواہیں نہیں ملتیں۔ اسی طرح بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بورڈ ادھورا ہے اور فیصلے التوا کا شکار رہتے ہیں۔اسی پس منظر میں فرانس کا ایک واقعہ’ پاکستان کی وفاقی وزیرِ سیاحت نیلوفر بختیار کی پیراشوٹ جمپ‘ہمارے معاشرتی رویوں کا آئینہ بن کر سامنے آیا۔ 2005ءکے زلزلہ متاثرین کیلئےفنڈ ریزنگ کے سلسلے میں انہوں نے 2007ءمیں فرانس میں ایک خیراتی پیراشوٹ چھلانگ لگائی۔ مگر ایک تصویر، جس میں تربیتی انسٹرکٹر انہیں حفاظتی طور پر تھامے ہوئے تھا، ملک میں شدت پسندانہ بیانیے کا نشانہ بن گئی۔ سوشل میڈیا کے کچھ حلقوں نے تصویر کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، بعض مذہبی گروہوں نے فتوے جاری کیے اور سیاسی مخالفین نے اسے ایک موقع سمجھ کر پورے واقعے کو اخلاقی بحران کے طور پر پیش کیا۔اسلام آباد کے بعض عناصر نے اس معمولی منظر کو اتنا اچھالا کہ حکومت سے وزیر کو برطرف کرنے تک کے مطالبات سامنے آئے۔ ثبوت کم اور شور زیادہ تھا۔ عوامی دباؤ اور سیاسی مصلحت کے تحت نیلوفر بختیار نے 21 مئی 2007 ءکو وزارت سے استعفیٰ دیا۔ یہ ایک طرف ان کی خودداری تھی لیکن دوسری طرف اس روایتی قوت کے آگے جھکنا بھی تھاجسے ہمارے معاشرے میں رائے عامہ، مذہبی جذبات اور سیاسی فائدے مل کر تشکیل دیتے ہیں۔اس واقعے کی چند سادہ حقیقتیں دہرانا ضروری ہیں: پیراشوٹ کی جمپ خالصتاً خیراتی مقصد کے لیے تھی، تصویر میں کوئی فحش یا نامناسب فعل نہیں تھا، فتوے اور الزامات ایک خاص سیاسی ماحول میں تراشے گئے، استعفیٰ سچائی سے زیادہ دباؤ اور تاثر کا نتیجہ تھا۔فرانس میں، اسی تصویر کے بعد، عوامی سطح پر نیلوفر بختیار کیلئے ہمدردی پیدا ہوئی۔ بعض حلقوں نے ان کے لیے حمایت، تحفظ اور حتیٰ کہ رہائش یا شہریت کی ممکنہ پیش کش کی بات بھی کی،اگرچہ یہ زیادہ تر سماجی اور میڈیا سطح پر تھا، سرکاری نوعیت کا باقاعدہ اعلان نہیں تھا۔ مگر اس بین الاقوامی حمایت نے یہ واضح کر دیا کہ مختلف معاشروں میں ایک ہی تصویر کو مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں پاکستان میں شور اٹھا، وہاں فرانس میں حمایت سامنے آئی۔یہ معاملہ صرف ایک خاتون وزیر کی ذاتی رسوائی یا سیاست کا کھیل نہیں تھا بلکہ یہ اس عدمِ برداشت کی روایت کا عکاس تھا جو ہمارے معاشرے میں جڑیں پکڑ چکی ہے۔

ایک تصویر کو سیاق سےہٹ کر پیش کرنا، عوامی عدالت میں فیصلے صادر کرنا، کردار کشی کو سیاسی ہتھیار بنانا،یہ سب وہ رویے ہیں جو قومی اخلاقیات اور جمہوریت دونوں کو کمزور کرتے ہیں۔’’فرعون‘‘ کا استعارہ اس تناظر میں بالکل مربوط دکھائی دیتا ہے۔ فرعون صرف وہ نہیں جو تخت پر بیٹھا ہو؛ وہ ہر شخص، گروہ یا قوت بھی ہو سکتا ہے جو اخلاق، سیاق، قانون اور احترامِ انسانیت کو روند کر دوسروں کو کچلنے کی طاقت رکھتا ہو۔ مگر تاریخ کا سبق ہے کہ ایسے فرعون ہمیشہ انجام کو پہنچتے ہیں۔ طاقت کا غلط استعمال اپنے ساتھ اعتماد کی موت اور اخلاقی شکست لے کر آتا ہے۔نیلوفر بختیار نے خود کہا کہ وہ پاکستانی ہونے پر فخر کرتی ہیں اور انہوں نے کسی بیرونی شہریت یا پیش کش کو قبول نہیں کیا۔ یہ موقف اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ قومی وقار کسی شہریت کے بدلنے سے وابستہ نہیں ہوتا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب اپنا ملک کسی شہری کی درست رہنمائی یا تحفظ نہ کرے تو بیرونی ہمدردیاں دل کو مائل کر سکتی ہیں۔

تازہ ترین