مدوّن و مرتب: عرفان جاوید
(نیّر مسعود)
نیّر مسعود، صاحبِ طرز ادیب، رجحان ساز ناثر، اُردو افسانے کے اہم ترین افسانہ نگاروں میں شمار، بعض صاحبانِ نقدونظر اُنھیں غلام عباس، منٹو، راجندرسنگھ بیدی، کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی کے ساتھ اُردو کے نمایندہ افسانہ نگاروں میں شامل کرتے ہیں۔ اُن کے افسانے بہ شمول ’’طاؤسِ چمن کی مینا‘‘ اردو افسانے کے ہر قابلِ ذکر انتخاب میں شامل ہیں۔
افسانہ، تحقیق و تنقید پر تیس سے زیادہ تصانیف، اُردو اور فارسی کےعالمِ بے بدل۔ 1936ء لکھنؤ، سیّد مسعود حسن رضوی کے علمی خانوادے میں پیدایش، فارسی میں ایم اے، اردو میں ڈاکٹریٹ، بارہ برس کی عُمرمیں ڈراما لکھا اور علی عباس حسینی سے داد پائی، موقر جریدے ’’شب خون‘‘ سے تخلیقی سفر کا آغاز، 1984ء میں افسانوں کے پہلے مجموعے ’’سیمیا‘‘ کی اشاعت، بعد ازاں افسانوں کے تین مجموعے، تحقیق و تنقید اور تراجم کی دو درجن سے زائد کتب کی اشاعت۔ ایک خواب ناک، پرُاسرار ماحول، کہی اَن کہی کے بین بین بات، ماضی کے دھندلکے، مِٹے مِٹے اوراق۔
اُجڑی بستیوں کے متروک مکانوں، دھول اُڑاتے میدانوں اور وحشت طاری کرتے بیابانوں کے بیچ اُن کی کہانی بگولے کے مانند اُٹھتی ہے۔ بھارت کے اعلیٰ ترین اعزازات ’’ساہتیہ اکیڈمی اردوادب ایوارڈ‘‘، ’’سرسوتی سمان‘‘، ’’پدم شری‘‘ اور دیگر سے نوازے گئے۔ جولائی 2017ء میں وفات۔ لکھنؤ کے حیدر گنج میں کربلا منشی فضل حسین میں محوِخواب ہیں۔
معاملہ جب اکیسویں صدی کے افسانوں کے انتخاب تک محدود ہوا، تو نیّر مسعود کے چنیدہ افسانوں کے مابین انتخاب ایک کڑا امتحان ٹھہرا کہ ہر فن پارہ لاجواب۔ اُن کا تحریر کردہ بیش تر ادبِ عالی گزشتہ صدی میں شرمندۂ اشاعت ہو چُکا۔ ’’دھول بن‘‘ نامی افسانے کو افسانوں کے اِسی نام کے مجموعے سے لیا گیا ہے۔
واقعہ در واقعہ کی تیکنیک سےتراشی گئی یہ کہانی واحد متکلم میں لکھی گئی ہے۔ ایک شخص کی کہانی، جو اُجاڑ رستے پرجھاڑیوں میں سانپ کے شک پر ایک بھکاری کےساتھ اُس کےگاؤں ہولیتا ہے۔ اُس گاؤں میں آندھیاں آتی ہیں اوراُس شخص کی ملاقات چھوٹی مالکن سے ہوتی ہے۔ وہیں اُس پر ایک راز کُھلتا ہے، ایک بستی کے بسنے کی رُوداد، ایک پرانے تعلق کی تجدید کا واقعہ، قصّہ درقصّہ۔
سامنے کی جھاڑی میں سرسراہٹ ہوئی اور میرے قدم رُک گئے۔ سرسراہٹ پھرہوئی اور مجھے یقین ہوگیاکہ جھاڑی میں سانپ ہے۔ سانپ سےمَیں پہلے بھی بہت ڈرتا تھا اور اب تو مجھے ایک بار سانپ کاٹ چُکا تھا۔ کوئی زہریلا سانپ تھا اور مَیں مرتے مرتے بچا تھا۔ سانپ کا ڈسا ہوا آدمی اُس سے کتنا ڈرنے لگتا ہے، اِس کا اندازہ وہی لگاسکتا ہے، جس کو کم ازکم ایک بار زہریلا سانپ کاٹ چُکا ہو، پھر اُسے ہر جگہ سانپ ہی سانپ نظر آنے لگتے ہیں۔ اُس خشک جھاڑی میں مجھے بھی سانپ نظر آنے لگا۔
یہ ویران علاقہ ایک دوراہا تھا۔ مَیں جس راستے پر چل رہا تھا وہ ہم وار اور کشادہ تھا، اُس پردونوں طرف جھاڑیاں تھیں اور میری وہم زدہ آنکھوں کو ہرجھاڑی میں سانپ نظر آرہے تھے۔ مَیں نے دوسرےراستے کی طرف دیکھا۔ وہ بالکل اجاڑ اور ناہم وار تھا، لیکن اُس پر جھاڑیاں بہت کم اور چھدری چھدری تھیں۔ مَیں اُسی رستے پر مُڑ گیا اور آگے بڑھنے لگا۔
کچھ دُور چل کر پھرایک دوراہا پڑا۔ ایک راستے پر جھاڑیاں اور ہریالی تھی، دوسرا اجاڑ تھا۔ اِسی طرح کئی بار ہوا اور ہربار مَیں اجاڑ رستوں پر مُڑتا رہا۔ صاف لگ رہا تھا کہ ہریالی والےرستےہی اصل راستے ہیں، جو کسی نہ کسی بستی یا بستیوں کی طرف جا رہے ہیں، لیکن اجاڑ راستے بھی تو کسی طرف جاتے ہوں گے۔
مار گزیدگی کے بعد سے کبھی کبھی مَیں عجیب طرح کے وہم میں مبتلا ہوجاتا تھا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ مار گزیدوں کے ذہن پرایسا ہی اثر ہوجاتا ہے۔ اس موقعے پر مجھے یہ وہم ہوگیا تھا کہ یہ ویران راستے ہی مجھےمیری منزل پر پہنچائیں گے، جو معلوم نہیں کہاں ہے، اِسی لیےمَیں ہرے بھرے رستوں سے کتراتا رہا۔
اِن راستوں پرابھی تک مجھے کوئی انسان نہیں ملا تھا، لیکن اب ایک راستے پر مُڑنے کے بعد مجھے ایک آدمی اُسی اجاڑ راستے پر جاتا نظر آیا۔ وہ دھیرے دھیرے چل رہا تھا اور صاف لگ رہا تھا کہ بہت تھک گیا ہے۔ آخر وہ ایک جگہ زمین پر بیٹھ گیا۔ اُس کے قریب پہنچ کر مجھے بھی تھکن کا احساس ہوا اور مَیں اُسی کے پاس بیٹھ گیا۔ کندھے سے اپنا تھیلا اتار کر زمین پر رکھا اور اُس کی طرف متوجّہ ہوا۔ ’’کہاں سے آرہے ہو؟‘‘
اُس نے ایک قصبے کا نام لیا۔ مَیں نے پوچھا۔ ’’وہاں کیا کرتے ہو؟‘‘ ’’بھیک مانگتا ہوں۔‘‘ اُس نےوہی جواب دیا، جس کی مَیں اُس کاحلیہ دیکھ کر توقع کر رہا تھا۔ ’’اور رہتے کہاں ہو؟‘‘ اُس نے اپنے سامنے کے اجاڑ راستے کی طرف اشارہ کیا اور تھکی ہوئی آواز میں بولا۔ ’’دھول بن میں۔‘‘ ’’دھول بن میں بھیک نہیں ملتی؟‘‘ ’’ملتی ہے۔ مگر آندھیوں کی فصل آگئی ہے ناں۔ آندھی آتی ہے تو سارے میں دھول جم جاتی ہے۔‘‘ اُس نےکہا اور افق پر نظریں جما دیں۔ ’’آندھی؟‘‘ مَیں نے کہا۔’’دن بھر چلتی رہتی ہے۔ سب گھروں کے اندر بند رہتے ہیں۔
شام کو آندھی تھمتی ہے، تولوگ باہر نکل کر صفائی ستھرائی کرتے ہیں، پھر اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ مَیں سویرے سویرے گھر سے نکل جاتا ہوں۔ آندھی تھمنے کے بعد رات کو دھول بن واپس جاتا ہوں، لیکن آج یہاں بھکاریوں کی ہڑتال ہے، اس لیے واپس دھول بن جارہا ہوں۔‘‘مجھے اُس کے مسئلوں سے دل چسپی نہیں تھی کہ دھول بن میں رات میں کون بھیک مانگتا ہے اور کون بھیک دیتا ہے۔ اُس نےاپنی گدڑی سنبھالنا شروع کردی تھی۔ مَیں نے پوچھا۔ ’’آندھی کا رنگ کیسا ہوتا ہے؟‘‘’’مٹیالی ہوتی ہے۔‘‘
اُس نےایک بار پھرافق کی طرف دیکھا۔ ’’آرہی ہے۔‘‘وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ مَیں نے چلتے چلتے پوچھا۔ ’’دھول بن میں پردیسیوں کے رہنے کا بھی کوئی ٹھکانا ہے؟‘‘ ’’بڑا گھر۔‘‘ اُس نے کہا۔ ’’اگر دھول بن جارہے ہو تو بس چل دو۔‘‘’’تم چلو، مَیں آرہا ہوں۔‘‘ظاہر ہے، اُسے نہیں معلوم تھا کہ آندھی مجھے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ بچپن ہی سے مَیں آندھی میں گھر کے اندر نہیں ٹک پاتا تھا۔ باہر نکل کر پوری آندھی کو اپنے اوپر سے گزرنے دیتا تھا۔ میرے شہر میں رنگین آندھیاں بھی آتی تھیں۔ کالی آندھی، جس سے سب ڈرتے تھے، مجھے سب سے زیادہ پسند تھی۔ ہر طرف اندھیرا پھیل جاتا۔
میرا خیال ہے، شروع شروع میں سیاہ آسمان پر ستارےبھی چمکتے دکھائی دیتے تھے۔ گھر والے مجھے باہر جانے سے روکتے تھے، لیکن مَیں گھر کے اندر نہیں رہ پاتا تھا۔ مَیں لال اور زرد آندھی میں بھی باہر نکل جاتا اور فضا کو سُرخ اور زرد ہوتے دیکھتا رہتا۔ اُس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ساری دنیا میں تیز روشنیاں پھیل گئی ہیں۔ صرف زرد آندھی میں مجھے کچھ کچھ ڈر لگتا تھا، اس لیے کہ ایک دفعہ مَیں نے اس آندھی کے ساتھ کچھ انسانی آوازیں بھی سُنی تھیں، یا شاید یہ میرا وہم ہو۔ اب میرے علاقے میں نہ کالی آندھی آتی تھی، نہ لال، نہ زرد۔ معمولی آندھیاں کبھی کبھی آتی تھیں اورمَیں اُن میں بھی باہر نکل جاتا تھا۔
میرے ساتھ والا بھکاری مجھےدُورجاتا دکھائی دیا۔اُسی وقت مجھےاُس روشنی میں آگے بڑھتے ہوئے دُورمٹی کا رنگ پھیلتا دکھائی دیا۔ ’’مٹیالی آندھی‘‘ مَیں نے سوچا۔ آج تک مَیں نے مٹیالی آندھی نہیں دیکھی تھی۔ مَیں نے اُسے اپنے اوپر آنے دیا۔ ذرا ہی دیر میں میرا پورا بدن گرد سے اٹ گیا۔ یوں لگ رہا تھا، کوئی ٹوکروں میں مٹی بھر بھر کرمیرے اوپر پھینک رہا ہے۔
اب ہر طرف مٹی اُڑتی دکھائی دے رہی تھی اور روشنی دھندلا گئی تھی۔ اُس روشنی میں آگے بڑھتے ہوئے مجھے کچھ ہی دُور وہ بستی مل گئی۔ مگر اس سے پہلے کئی بار میرا پیر کسی نہ کسی چھوٹے گڑھے میں آیا اور مَیں گرتے گرتے بچا۔ یہ قدرتی گڑھےنہیں، چھوٹی چھوٹی قبریں سی کھودی گئی تھیں۔ ’’کیا دھول نگر میں بچّوں کی کوئی بیماری پھیلی ہوئی ہے؟‘‘
مَیں نے اپنے آپ سےسوال کیا۔ اُس وقت وہاں سڑک پرکوئی نہیں تھااورمَیں اُس بستی میں اکیلا گھوم رہا تھا۔ آندھی کا سلسلہ پانچ دن تک رہا اور یہ پانچوں دن مَیں نے بستی میں تنہا گھومتے گزارے۔ روز سویرے گرد اڑاتی آندھی شروع ہو جاتی۔ دوپہر سے اُس کا زور کم ہونے لگتا۔ شام ہونے سے کچھ پہلے وہ بالکل ختم ہوجاتی اور پوری بستی گرد میں ڈوبی رہ جاتی۔
کچھ دیر بعد گھروں کے دروازے کُھلنا شروع ہوتے۔ لوگ بانسوں میں بندھے بڑے بڑے جھاڑو لیے باہر نکلتے اور گرد کے ڈھیر کناروں پرلگا دیتے۔ پھر گاڑیاں آتیں اور گرد کے انبار لاد کر بستی کے باہر کہیں پھینک آتیں، اور ہوا معلوم نہیں اُنھیں کہاں اڑا لے جاتی۔ رات ہونے سے پہلے پوری بستی صاف ہوجاتی اور سڑکوں پر لوگ چلنا پھرنا شروع کردیتے۔
مَیں اُس وقت تک بستی سے باہر جا چُکا ہوتا تھا، جہاں ایک بڑے سے درخت کے نیچے مَیں نے اپنا عارضی ٹھکانا بنا لیا تھا۔ وہاں اپنے لباس کو جھٹک جھٹک کر گرد صاف کرتا، اپنے بدن اور بالوں سے بھی گرد دُور کرتا، پھر آدمی بن کربستی میں داخل ہوتا اور خوانچے والوں سے کچھ کھانے پینے کی چیزیں خرید کر اُسی درخت کے نیچے آجاتا۔
دوسرے دن سویرے سے آندھی کی سنسناہٹ شروع ہو جاتی۔ گھروں کے دروازے بند ہونے لگتے اور پوری بستی میرے اختیار میں ہو جاتی۔ فضا میں پھیلی ہوئی دھند کے باوجود اِس آمد و رفت میں قریب قریب پوری بستی میری نظر سے گزر گئی۔ اُس کے زیادہ ترمکان بہت پرانے بنے ہوئے معلوم نہیں ہوتے تھے۔
بستی کا رقبہ بھی زیادہ نہیں تھا۔رہنے والوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا، اس لیے کہ ابھی تک میری ملاقات اُس پہلےدن والےبھکاری اوردو تین دکان داروں ہی سے ہوئی تھی، باقی بستی میرے لیے اجنبی تھی، جس طرح مَیں اُس کے لیے اجنبی تھا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ لوگ دھول کے دنوں میں اپنے اپنے مکان کی کھڑکیوں سے محض وقت گزاری کےطور پر سڑک کو دیکھتے رہتے تھے۔ وہ مجھ کو اس حد تک جانتے تھے کہ کسی دوسری جگہ کا آدمی آندھی میں باہر چلتا پِھرتا ہے اور رات بستی سے باہر والے درخت کے نیچے گزارتا ہے۔
رفتہ رفتہ وہاں والوں سے میری جان پہچان شروع ہوئی۔ میرا پہلا شناساوہی بستی کا بھکاری تھا۔ اُس سے میری اکثر بات چیت ہوتی تھی، اور اُسی سےمَیں نے بستی کے باہر والے درخت کاذکرسُنا۔ اُس نے مجھے بستی کے باہر خصوصاً اُس درخت کے نیچے ٹھہرنے سے منع کیا اور بتایا کہ وہ درخت منحوس ہے۔ اُس نے بغیر نام لیے ایک شخص کا ذکر کیا ،جو اُس درخت سے گرکرماؤف ہوگیا تھا۔
مَیں نے اس شخص کا نام پوچھاتو وہ آہ بھرکربولا۔ ’’تمھیں معلوم ہوجائے گا۔‘‘اور ایک بار پھر مجھ سے بستی کے بڑے مکان میں رہنے کو کہا اور یہ بھی بتایا کہ وہاں غریب لوگ مفت رہتے ہیں۔ مَیں غریب نہیں تھا، اس لیےمَیں نےاُسی درخت کے نیچے اپنا ٹھکانا بنائےرکھا۔ لیکن ایک رات مجھےاُس درخت سے ڈرلگنے لگا، اُس کی بل کھائی ہوئی شاخوں پر سانپوں کا گمان ہوگیا۔
اُس رات مَیں نے خواب میں دیکھا کہ اُس پر سے دو سانپ گرےاور میرے قریب سے رینگتے ہوئے کہیں غائب ہوگئے۔ خوابوں کا اب مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوتا، لیکن سانپ مَیں نے پہلی مرتبہ خواب میں دیکھے تھے۔ مَیں نے ڈرتے ڈرتے اپنے آس پاس تلاش بھی کیا۔ ظاہر ہے، مجھے کوئی سانپ نظر نہیں آیا، مگر ہر مار گزیدہ کی طرح یہ خیال میرے وہم آلود ذہن میں بیٹھ گیا کہ اِس درخت پر ضرور سانپ رہتے ہیں اور مَیں اُن کی زد میں ہوں۔
دوسرے دن مَیں نے اپنا بستہ درخت کے نیچے سے ہٹا لیا اوروہاں کے لوگوں سے کسی دوسری بستی سے متعلق پوچھ گچھ شروع کر دی۔ سب سے پہلے پرانے ملاقاتی بھکاری کو تلاش کیا۔ وہ جس جگہ بھیک مانگتا تھا، وہاں نہیں ملا، تو بعض لوگوں نے بتایا کہ وہ بیمار ہے اور دو تین دن سے بڑے مکان میں پڑا ہے۔ بڑے مکان کا پتا ہرایک کو معلوم تھا۔ مَیں وہاں پہنچا۔ بڑے رقبے کی اچھی پختہ عمارت تھی۔ چھوٹے چھوٹے کمرے بہت تھے۔
ایک کمرے میں وہ گودڑ لپیٹے پڑا ہوا تھا۔ بڑے مکان کے صاف ستھرے کمرے میں وہ بےجوڑ معلوم ہو رہا تھا۔ مجھےدیکھ کر اُس نے اپنا گودڑ سنبھال کے اُٹھنے کی کوشش کی، لیکن کام یاب نہیں ہوا۔ مَیں نے بھی اُسے لیٹے رہنے کا اشارہ کیا اور وہ اپنے گودڑ پر قریب قریب گرگیا۔ مَیں نے اس سے دوا، علاج کو پوچھا تو بولا۔ ’’ڈاکٹر صاحب تیسرے دن پر آتے ہیں۔ کل آئیں گے۔‘‘ اُس کےبعد اُس نےاپنی بیماری کی غیردل چسپ تفصیل بیان کرنا شروع کردی۔
معمولی بخار تھا، دو تین دن میں خُود ہی اُتر جاتا، لیکن وہ اُسے کوئی بڑی بیماری سمجھ رہا تھا۔ تب اُسے میری مزاج پرسی کا خیال آیا۔ مَیں نے کہا کہ اب مَیں درخت کے نیچے نہیں رہوں گا۔ خیراتی مکان میں بھی نہیں رہوں گا۔ پھر پوچھا۔ ’’جس بستی میں تم آندھی کےدِنوں میں جاتے ہو، وہاں کوئی ٹھکانا مل سکتا ہے؟‘‘ ’’وہاں بھیک بھی مشکل سےملتی ہے۔ بےمروّت لوگ ہیں۔ مَیں تو پیٹ کی خاطر وہاں جاتا ہوں۔‘‘اُس نے کہا اور پھر بولا۔’’آخراُس بڑےمکان میں کیا برائی ہے؟‘‘ کوئی برائی نہیں تھی لیکن مَیں وہاں رہنا نہیں چاہتا تھا۔ کوئی مناسب جواب سوچ رہا تھا کہ کمرے کے باہر قدموں کی آہٹ سنائی دی۔
فقیر نے پھر اُٹھنےکی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب آج ہی آگئے!‘‘ اتنے میں ایک ڈاکٹر اور اُس کے ساتھ ایک اور آدمی کمرے میں داخل ہوئے۔ ساتھ والے نے کہا۔ِ ’’کہو سردار! اتنے دن سے بیمار پڑے ہو اور ہم کو اطلاع نہیں کی۔‘‘ فقیر نے جواب دیا۔ ’’حضور! کل ڈاکٹر صاحب کے آنے کا دن…‘‘ ’’تمھیں معلوم نہیں کہ جب یہاں کوئی بیمار پڑتا ہے، تو ڈاکٹر صاحب اپنی باری چھوڑ کر بھی آجاتے ہیں۔‘‘
اُس نے ڈاکٹر کو اشارہ کیا۔ ڈاکٹر نے مریض کا معائنہ کر کے اپنے بیگ سے دو تین گولیاں نکالیں اور ان کے استعمال کی ترکیب بتا کر اُٹھنے کو ہوا۔ لیکن ساتھ والا بیٹھ گیا اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگا۔ اس نے ڈاکٹر کو کچھ اشارہ کیا اور ڈاکٹر اُسے سلام کر کے چلا گیا۔ آدمی نے فقیر سے کہا۔’’بھئی سردار! سُنا ہے، بستی میں کوئی باہر کا آدمی آتا ہے۔‘‘ ’’باہر کے آدمی تو مختار صاحب، بستی میں آتے ہی رہتے ہیں۔‘‘ ’’نہیں، جو آندھی کے وقت بستی میں گھومتا ہے۔‘‘
تب مَیں نے اُس آدمی کو ذراغور سے دیکھا، جس کو فقیر مختارصاحب کہہ رہا تھا۔ اپنے رکھ رکھاؤ اور لباس سےکوئی خاص آدمی معلوم ہوتا تھا۔ فقیر نے میری طرف اشارہ کیا اور بولا۔ ’’یہی ہیں۔‘‘اب مختار کو شاید پہلی مرتبہ میری موجودگی کا احساس ہوا۔ مَیں نے سلام کیا۔ اُس نے بہت قاعدے سے جواب دیا، اور فقیر نے مجھے بتایا۔ ’’مختار صاحب یہاں کی جائیداد دیکھتے ہیں۔‘‘ (جاری ہے)