اندازہ کریں کہ شادی کی تقریب ہو۔ دولہا بہترین شیروانی میں ملبوس ہو۔فخرسے لوگوں کوبتارہاہوکہ یہ شیروانی فلاں ڈیزائنر سے بنوائی گئی ہے، بہت مہنگی ہے، اس کاکپڑاامپورٹڈ میٹریل سے بنایاگیاہے،ایک ایک بٹن تک خود ڈیزائن کروایاگیاہے۔ہال مہمانوں سے بھراہو ا ور اچانک دولہا کے ہلنے جلنے سے شیروانی کے دوبٹن ٹوٹ جائیں ا ور بازو کی سلائی بھی ادھڑجائے۔ یہی کچھ دبئی میں ہوا۔ ایئرشو میں انڈیا کا ہوم میڈ طیارہ خوفناک طریقے سے گرکرتباہ ہوگیا۔یقیناًاس پرافسوس کااظہارکرناچاہیے لیکن انڈین سوشل میڈیا پردعوے کیے جانے لگے کہ یہ طیارہ پاکستان نے گرایاہے۔پہلے توحیرت ہوئی،پھرہنسی آئی اوربالکل وہی فیلنگ محسوس ہوئی جب میں میٹرک کے پیپردے رہاتھا۔انگلش کے پیپرکاسوالنامہ دیکھ کر ہوش اڑے ہوئے تھے۔ پریشانی میں سرپکڑے بیٹھا تھاکہ نگران نے آکر آہستہ سے کہا’پیچھے والالڑکاتمہاری نقل کرنے کی کوشش کررہاہے اپناپیپردھیان سے رکھو‘۔ یہ سنتے ہی میں نے چونک کر تیزی سے اپنی شیٹ کے گرد بازو کا حصاربنالیاتاکہ کوئی میرے ’قیمتی‘الفاظ نہ چراسکے۔ انڈین ایئرفورس پربراوقت آیاہوا ہے لہٰذا انہیں لگتا ہے کہ ان کی نالائقی کی تمام تر ذمہ داری پاکستان پر ہے۔ایئر شو میں جہاز کاگرناعین شادی کی تقریب میں دولہاکی شیروانی برباد ہونے جیساہے۔ اس پرستم یہ کہ دولہاکے گھروالے اس کا الزام کسی قریبی رشتے دارپردھردیں کہ اُسی کم بخت کی نظرلگی ہے۔جہاز تباہ ہونے سے بھی زیادہ سوال اس بات پراٹھ رہے ہیں کہ پائلٹ نے اپنی سیٹ سےEjaculateکیوں نہیں کیا۔ ایک بٹن دبانے کی دیر تھی اور پائلٹ نے اُچھل کرجہاز سے باہرہوناتھا۔تقریباً ساڑھے سترہ ارب مالیت کاجہازخودبھی تماشا گاہ میں گرا اورانڈیا کا غرور بھی تماشابناگیا۔
٭ ٭ ٭
سوشل میڈیا پرشادی کاایک دعوت نامہ وائرل ہے جس میں لکھا ہے کہ ’براہ کرم ہماری معذرت قبول فرمائیں ہم نے کھانے کاانتظام نہ کرنے کافیصلہ کیا ہے‘۔ مجھے لگتاہے اس قسم کا رواج چل پڑاتوشادی میں بن بلائے مہمانوں کی آمدبھی ختم ہوجائے گی ا ورکارڈ پررشتے داروں کو اہل و عیال کے ہمراہ بھی بلایاجائے گا تو اُدھرسے کوئی ایک بندہ ہی شریک ہوگا۔ہمارے ہاں شادیوں پرسلامی کوکھانے کابل کہاجاتاہے لہٰذا جن لوگوں کا پیٹ عام طور پر سالن کی چوتھائی پلیٹ سے بھرجاتاہے ان کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ اتنا سالن ضرورضائع کرکے آئیں جس سے سلامی کے کچھ پیسے پورے ہوسکیں۔ایک بابا جی کا عرس بڑے اہتمام سے منایاجاتا تھا اور عرس کے اشتہاروں میں نت نئے کھانوں سے آراستہ لنگر کی نویدبھی سنائی جاتی تھی سو ایک جم غفیر دیکھنے کو ملتا تھا۔ایک دفعہ پرنٹنگ کی غلطی سے لنگر والی لائن پرنٹ ہونے سے رہ گئی جس کے بعدعرس پر حاضرین کی تعداداتنی ہی تھی جتنی کسی خشک موضوع پرادبی تقریبات میں ہوتی ہے۔میری ذاتی رائے میں شادی کے موقع پراگر کھانا کھلے عام میزوں پرسجانے کی بجائے مہمانوں کو ایک ایک پیکٹ میں دے دیاجائے تو تب بھی بہت بچت ہوسکتی ہے۔کاش شادی کارڈوں پر یہ بھی لکھا جائے کہ ’براہ کرم ہماری معذرت قبول فرمائیں، ہم نے سلامی نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے‘۔
٭ ٭ ٭
پاکستان لیبر فورس سروے کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 7فیصد ہوگئی ہے۔یاد رہے کہ بے روزگاری کا معیار انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے وضع کردہ اصولوں کو مدنظر رکھ کرطے کیا گیا ہے جس کے مطابق وہ بندہ بھی ’برسرروزگار‘ شمار ہوتا ہے جس نے پورے ہفتے میں صرف ایک گھنٹہ کام کیا ہو۔گویا ہمارے ہاں پورے ہفتے میں ایک گھنٹہ کام کرنیوالے بھی کم ہوگئے ہیں۔آپ کبھی کسی شاپنگ سنٹر، میڈیکل اسٹور یا گروسری اسٹور پرجائیں تو اکثر وہاں لکھاہوانظر آتاہے کہ سیلزمین کی ضرورت ہے۔گروسری اسٹور پرنوجوان لڑکے لڑکیاں کاؤنٹراوردیگرڈپارٹمنٹ میں کام بھی کرتے نظر آتے ہیں لیکن اگلے مہینے اِن کی شکلیں تبدیل ہوچکی ہو تی ہیں۔پوچھنے پرپتا چلتاہے کہ ملازمت چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ میٹرک پاس بندے کی بھی خواہش ہے کہ نوکری پرکشش ہونی چاہیے۔ایسے لوگ اکثر یہ جواز تراشتے ہیں کہ ’میں 8افراد کا واحد کفیل ہوں لہٰذا تنخواہ بڑھادیں‘۔گویاتنخواہ کا تعین تعلیم اور قابلیت کے لحاظ سے نہیں بلکہ امیدوار کے گھرمیں موجود افراد کی تعدا د کومدنظررکھ کرکرنا چاہیے۔ بیروزگاری بڑھنے کی بڑی وجہ آبادی کابڑھناہے۔ جس گھرمیں چھ لوگ کھانے والے اورایک کمانے والاہو اگروہاں مزیدچار لوگ شامل ہوجائیں تو بیروزگاروں کی تعداد چھ سے دس ہوجاتی ہے۔ مغربی ممالک میں ہم سے زیادہ مہنگائی ہےلیکن محسوس اس لیے نہیں ہوتی کہ 18سال کی عمر تک پہنچے کے بعدہرفرد کیلئے کام کرنالازمی ہے جبکہ برصغیرمیں ایسے بے شمارگھرانے ہیں جہاں باپ اپنے بیٹے، بہو اور پوتوں کا خرچہ بھی برداشت کررہا ہوتاہے۔
٭ ٭ ٭
مجھے کہانیاں پڑھنے کابہت شوق ہے۔افسانہ شروع سے میری محبت رہاہے۔ایک طویل عرصے تک افسانے سے کہانی غائب رہی، پہلے علامت اور پھر لایعنی تجرید نے افسانے سے کہانی کونکال باہرکیا جس سے افسانے کا قاری بھی ہاتھ سے نکلتا چلاگیا۔ایسے میں ایک ٹرینڈ ایسے افسانوں کا بھی آگیا جس میں دھڑادھڑ ون لائنر ہوتے تھے اور کہانی مفقود۔ پچھلے کچھ عرصے سے یہ خوشگوارتبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے کہ افسانے میں کہانی دوبارہ واپس آرہی ہے۔ میری نسل نے منٹو، کرشن چندر، غلام عباس، احمد ندیم قاسمی اورمنشا یادجیسے افسانہ نگاروں کو پڑھا ہوا ہے جن کے افسانے کہانی اور تیر کی طرح کھبنے والے اختتامیہ سے بھرپوراور پُراثرہوتے تھے لہٰذا کہانی سے عاری افسانہ پڑھناشدید قسم کا بوجھ محسوس ہوتاہے۔ حال ہی میں بینش گل کے افسانوں کی کتاب’مسافر لمحے‘ شائع ہوئی ہے جس نے طویل عرصے بعد ایک ہی نشست میں خود کو پڑھنے پرمجبور کردیا۔یہ افسانے زندگی سے جڑے ہوئے ہیں اورماحول کی اجنبیت سے مبراہیں۔کتابیں پڑھنی چاہئیں اور اچھی کتابیں تو ضرور پڑھنی چاہئیں لیکن خرید کر پڑھنی چاہئیں۔یہ پیزے سے مہنگی نہیں ہوتیں۔ پیزا پیٹ میں چلا جاتاہے لیکن کتاب آپ کے دل و دماغ میں محفوظ ہوجاتی ہے۔