• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیامِ پاکستان سے آج تک شاید ہی کوئی ایسا سیاسی رجحان ہو جس کو اِس شہرِ کراچی نے ووٹ نہ دیا ہو یاسپورٹ نہ کیا ہو۔ البتہ اِن سات دہائیوں میں اِسکی شہرت ’اپوزیشن‘ کے شہر کی رہی اور شاید اسے اسی کی سزا ملی برسراقتدار طبقے اور طاقتور اشرافیہ سے۔ ملک کے اِس معاشی حب نے سب کو سرفراز کیا مگر جواب میں کسی نے اِس کو ’اپنا شہر‘ نہیں سمجھا۔ آج یہ ’عروس البلاد‘ تنہائی کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے۔ سارے تجربے ہی ناکام نظر آتے ہیں چاہے یہ شہر مذہبی جماعتوں کو ووٹ دے، لسانی سیاست کو ووٹ دے یاکسی قومی جماعت کو ووٹ دے۔ بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ اب کیونکہ ملک میں سیاست مکمل طور پر کنٹرول کرنے کا عمل مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جارہا ہے جوایسے میں کراچی میں سیاسی تقسیم کو ختم کرنے کی ہر کوشش کو نا کام بنادے گا جسکی ایک جھلک ہمیں آج کے کراچی میں نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ اب یہاں سے کسی بڑی اپوزیشن تحریک کا شروع ہونا نا ممکن نظر آتا ہے۔

1978ء میں قائم ہونیوالی متحدہ قومی موومنٹ کی کہانی بھی اِس سیاست کے گرد گھومتی ہے اور اِس وقت بھی وہ مزید تقسیم کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ’لسانی‘ بنیادوں پر قائم ہونیوالی اِس جماعت کا اور سیاست کا ایک سیاسی پس منظر ہے۔ جسکا تعلق یا ابتدا ایوب خان کےدورسے ہوئی جب شہر اور ملک کی اپوزیشن جماعتوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو ووٹ دیا اور کراچی اِسکا خاص سیاسی مرکز رہا۔ تاہم ایوب کیخلاف اُٹھنے والی تحریک کا محور کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم این ایس ایف تھی۔ گو کہ بائیں بازو کی سیاست کو کچلنے کا عمل تو 1953ء سے ہی شروع ہوگیا تھا اور اشرافیہ نے دائیں بازو اور مذہبی جماعتوں کی پشت پناہی بھی کی مگر ایوب خان کے الیکشن نے دائیں بازو کو بھی اُن کیخلاف متحد کردیا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کی پہلی نرسری توایوب خان اور اسکندر مرزا تھے مگر ایوب سے راہیں جدا کرنے کے بعد بھٹو اُس کے خلاف سب سے موثر آواز بن گئے اور کراچی نے اُن کا بھر پور ساتھ دیا۔ البتہ سندھ کے شہری علاقوں میں دائیں بازو کے رجحانات موجود تھے ہمیشہ سے جس کا فائدہ مذہبی جماعتوںنے اُٹھایا خاص طور پر جماعتِ اسلامی نے جسکی جڑیں خاص طور پر طلبہ میں خاصی گہری تھیں۔ بھٹو صاحب کے دور میں جو مسئلہ سندھ میں خاص طور پر وجہ تنازع بنا وہ ’کوٹہ سسٹم‘ اور ’سندھی کو سرکاری زبان قرار دینےکا بل ‘جس کو اُس وقت جماعت اور جے یوپی نے ’مہاجر کارڈ‘ کے طور پر استعمال کیا جسکے نتیجے میں شہری سندھ میں فسادات پھوٹ پڑے اور گو کہ اُس وقت یہ مسئلہ خاصی حد تک حل ہوگیا60 فیصد اور 40دیہی اور شہری سندھ کے’ کوٹہ‘ پر داخلہ اور نوکریوں کے حوالے سے مگر دوریاں اور فاصلے بڑھتے چلے گئے اور 1977ء کی تحریک میں شہری سندھ میں ووٹ پی پی پی کے خلاف پڑا اور فائدہ جماعت اور پی این اے کے اتحاد کو ہوا۔

اِس پر کسی وقت تفصیل سے لکھوں گا کہ کیا سندھ کو خاص طور پر ہمارے سندھی بھائیوں کو کیا واقعی’کوٹہ سسٹم‘ سے فائدہ ہوا جسکا بنیادی مقصد اُن علاقوں کے نوجوانوں کو اوپر لانا تھا جہاں اچھے اسکول اور کالج نہیں تھے مگر آج اِس بات کو 50سال ہوگئے ہیں اور دیہی علاقوں میںاسکولوں اور کالجوں کی وہی حالت ہے جسکی بہرحال ذمہ دار بعد میں آنے والی فوجی اور سویلین حکومتیں بشمول پی پی پی ہیں۔

اِس بات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بھٹو صاحب کو ٹہ سسٹم کو صرف 10سال چاہتے تھے اور اِس دوران وہاں کے تعلیمی معیار کو اوپر لانا چاہتے تھے مگر بعد میں آنے والی حکومتوں نے اِس کو سیاسی ایشو کے طور پر حمایت اور مخالفت میں استعمال کیا۔ ہم سندھی اور اردو بولنے والے دوست اِس مسئلے پر بات کرتے رہتے ہیں مگر ایک صحت مندانہ ماحول میں۔

سیاسی طور پر یہ مسئلہ بنیاد بنا مہاجر قومی موومنٹ کاتو دوسری طرف پی پی پی اور اردو بولنے والوں کی سیاسی طور پر دوری کو بہر حال ’استعمال‘ کیا کچھ طاقتور حلقوں نے اور وہ صوبہ جو ایک وقت میں امن کا گہوارہ تھا وہاں پچھلے 40سال میں ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے نہ صرف لسانی فسادات میں بلکہ ’باہر‘ سے آئی ہوئی دہشت گردی اور باہر ہی سے لائے ہوئے اسلحہ سے، یوں سندھ کی سیاست محدود ہوکر رہ گئی اور اُس کا دار الحکومت مذہبی جماعتوں کے ہاتھ سے نکل کر اب مکمل طور پر ایم کیو ایم کے کنٹرول میں جا چکا تھا اور وہ طاقتیںجن کو یہ تقسیم سیاسی طور پر فائدہ پہنچارہی تھی کا میاب ہوگئیں مگر کس قیمت پر؟۔ اِن سیاسی دوریوں کا نقصان صرف ایک طبقےکو نہیں ہوا پورے صوبے کو ہوا۔ ایک طرف ’میرٹ کا قتل‘ ہوا تو دوسری طرف دیہی اور شہری سندھ میں فاصلے بڑھنےلگے اور تیسری طرف صوبےمیں گورننس نام کی کوئی چیز باقی نہ رہی۔

ایسا نہیں کہ اِن فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش نہیںکی گئی مگر جب بھی یہ کوشش ہوئی اِس کو نا کام بنایا گیا چاہے وہ الطاف ، جی ایم سید کا قریب آنا ہو یا ایم کیو ایم اور پی پی پی کا اتحاد ہو۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی خود دونوں طرف یہ احساس موجود تھا۔ میں نے انہی صفحات پر 2019ء میں ’ایک تھی ایم کیو ایم‘ کے نام سے جو کالم لکھا تھا اُس کا پس منظر بھی یہی حالات تھے۔ آج ایم کیو ایم تقسیم بھی ہے اور کمزور بھی مگر شہری علاقوں کے مسائل کل بھی وہی تھے اور آج بھی وہی ہیں۔

سیاسی طور پر اپوزیشن کا شہر کہلانے والے کراچی نے پی پی پی یا ایم کیو ایم کے بجائے پاکستان تحریکِ انصاف کو 8؍فروری کو بھی ووٹ دیا اور2018ء میں بھی اچھا خاصا ووٹ دیا مگر مسئلہ جوں کا توں ہے۔ عین ممکن ہے میرا یہ آخری تجزیہ اس شہر کے بارے میں غلط ہو مگر جو کچھ اِن چار دہائیوں سے زائد عرصے میں دیکھا ہے لگتا یہی ہے کہ یہ شہر اب کسی ایک جماعت کا نہیں رہنے دیا جائے گا اِس کے مینڈیٹ کا فیصلہ اور سیاست کا فیصلہ کہیں اور ہوگا۔ یو ں اس کی ’سیاسی تنہائی ‘ برقرار رہے گی۔ بظاہر اب اِس شہر اوراس کے شہریوں میں سکت ہی نہیں رہی مزاحمت اور احتجاج کی۔ مگر کیا وہ لوگ جو اس کو وہی شہر بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں ان دوریوں ، بڑھتے ہوئے سیاسی فاصلوں کو کم کئے بغیروہی شہر بناپائیں گے بس یہ سوچنے کا موقع ہمیں میسر ہے کہ

کوئی اور تو نہیں ہے پسِ خنجر آزمائی

ہمیں قتل ہورہے ہیں ہمیں قتل کررہے ہیں

تازہ ترین