• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

24 نومبرکی خبر ہے کہ اوگرا نے گیس قیمتوں میں اوسطاً 8فیصدکمی کی منظوری دے دی ہے۔ اور اگلے دن یعنی25نومبرکی خبرہے کہ اوگرانے گیس کی قیمتوں میں7.14فیصد اضافے کی منظوری دی ہے۔ یا خبر میں کوئی گڑ بڑ ہے، یا اوگرا میں گڑبڑ ہے یا نیتوں میں گڑبڑ ہے۔ شائدآپ نے نوٹ کیا ہوکہ پچھلے کچھ عرصے سے پٹرول کی قیمتوں کے بارے میں بھی ایک دن پہلے کمی کی خبرآتی ہے اور اگلے دن اضافہ ہو جاتا ہے۔ پہلوانی میں اس داؤ کو کہتے ہیں ’سجی دکھا کے کھبی مارنا‘۔ ممکن ہے حکومت لوگوں کو قیمتوں میں اضافے کی اطلاع کے ممکنہ ری ایکشن سے بچانا چاہتی ہو اسلئے چھوٹی سی خوشخبری کا جھانسہ دیکر بڑی سی واردات ڈال دی جاتی ہے۔ ایک دور میں محکمہ موسمیات ایسی شرارتیں کیا کرتا تھا۔ اسی دور میں یہ لطیفہ مشہور ہوا تھاکہ ایک صاحب نے ریڈیو پر سنا کہ محکمہ موسمیات کے مطابق کل شہرمیں بارش ہوگی۔ انہوں نے فوراً بیگم سے کہا کہ ہفتے بھر کے کپڑے دھو کرڈال دو۔ بیگم نے حیرت سے کہا کہ ابھی سنانہیں کل تو بارش ہوگی۔ صاحب بولے’اسکا ایک ہی مطلب ہے کہ کل کڑاکے کی دھوپ نکلے گی‘۔ قیمتیں پٹرول کی بڑھیں یاگیس کی۔اب لوگوں میں احتجاج کی بھی سکت نہیں رہی۔ویسے بھی ایسی چیزوں کی قیمت ایک روپے بڑھتی ہے تو سب حسب استطاعت اپنے اپنے مال کے دوتین روپے بڑھادیتے ہیں اور یوں حساب برابر ہو جاتا ہے۔

٭٭٭٭

ہمارے محلے کی بزرگ خاتون سرداراں بی بی گزشتہ دنوں وفات پاگئیں۔بڑی عمرکے لوگ وفات پاجائیں توگھرمیں زیادہ آہ وبکا نہیں ہوتی خصوصاًوہ بزرگ جو چلنے پھرنے سے قاصرہوں اورگھرمیں کسی نہ کسی کوہروقت ان کی خبرگیری کرناپڑے۔سرداراں بی بی کی عمر 85سال تھی۔بسترپرہی پڑی رہتی تھیں ا ورزندگی کی ہر حرکت کیلئے دوسروں کی محتاج تھیں۔اُن کی تدفین میںلواحقین نے کمال ضبط کامظاہرہ کیا۔تعزیت کیلئے آنیوالے کسی بندے کوبھوکانہیں جانے دیا۔کسی رشتہ دارکے انتظارمیں جنازہ لیٹ نہیں کیا اوروفات کے چارگھنٹے بعد ہی تمام انتظامات مکمل کرکے سرداراں بی بی کوسپردخاک کردیاگیا۔تدفین کے تیسرے روزاُنکی اولادنے سرداراں بی بی کے سارے کپڑے اور جوتیاںغریبوں مسکینوں میں بانٹ دیں۔اُنکے زیراستعمال عینک، تولیہ، بیڈ شیٹ،چادر، رضائی تکیے، چارپائی، کرسی اور برتن وغیرہ بھی ضرورت مندوں کودے دیے گئے۔اُن کی لاٹھی اوروہیل چیئرایک خیراتی ادارے میں جمع کرادی گئی تاکہ کسی اورکے کام آسکے۔تاہم بڑی بیٹی نے بھاری دل کیساتھ ماں کے سونے کے کنگن، بڑی بہونے چارچوڑیاں اور چھوٹی بہونے دولاکٹ احتیاط سے اپنے پاس رکھ لیے کہ یہ ماں جی کی نشانی ہیں۔چھوٹا بیٹاماں کی ملکیت پانچ مرلے کے پلاٹ پر دھاڑیں مار مار کر رویا۔ بڑے بیٹے نے البتہ گلوگیرلہجے میں بتایاکہ اسے اور کچھ نہیں چاہیے وہ صرف اِس گھرکوحاصل کرنے کاخواہشمندہے جوسرداراں بی بی کے نام ہے کیونکہ اسے اِس میں سے ماں کی خوشبو آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

٭٭٭٭

احباب گرامی! آپ جانتے ہیں کہ میں ازل سے مردوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھاتارہتاہوں۔اس باربھی مجھے کچھ مظالم بیان کرنے ہیں۔ ساری زندگی کرکٹ میں بیٹنگ کرنیوالے کوبیٹسمین کہتے سنا۔اب اسے ’بیٹر‘کہاجاتاہے اوروجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ چونکہ بیٹسمین میں لفظ’مین‘آتاہے اس لیے عورتوں دل آزاری ہوتی ہے۔پوچھنایہ ہے کہ یہ جو انگریزی میں کہاجاتاہے کہ

Man is a social animal

Man learns from his mistakes

Man proposes, God disposes

Man is known by the company he keeps

تو کیااس سے بھی کسی کی دل آزاری ہوتی ہے؟جناب عالی! مین سے مراد مرد نہیں انسان لیاجاتا ہے لیکن اکثر خواتین کی نظر میں Man ہی مرد ہوتاہے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکناچاہئے۔ اگریہ بات ہے تو جسے عام طور ہمارے ہاں Mainhole کہا جاتا ہے یہ بھی Manhole ہے۔اس کا نام بھی بدل دیں۔ہرچیز کوعورت اورمردکے تناظرمیں نہیں دیکھاجاسکتا۔کل کویہ مطالبہ بھی ہوسکتاہے کہ مذکرمونث بھی ختم کرکے دونوں کوایک ہی انداز سے پکاراجائے یعنی شکیل آئی تھی، جمیل آئی تھی یا پھرشکیلہ آیاتھا،جمیلہ آیاتھا۔

٭٭٭٭

انٹرنیٹ پر آن لائن پاس ورڈ مینج کرنیوالی ایک فرم نے تحقیق کے بعدبتایا ہے کہ جین زی، یعنی 1997ءکے بعد پیدا ہونیوالی نسل پاس ورڈ رکھنے کے معاملے میں پچھلی نسل سے بھی کمزورہے۔زیادہ تر لوگ ایک سے پانچ یاایک سے چھ تک گنتی کوہی پاس ورڈ رکھ لیتے ہیں۔عاشق حضرات عموماً عفیفہ کا نام ہی پاس ورڈ رکھ لیتے ہیں جبکہ کئی لوگ اپنے نام کو الٹ کرپاس ورڈ بنالیتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جوبعدمیں فیس بک پرپوسٹیں لگاتے ہیں کہ میرااکاؤنٹ ہیک ہوگیاہے کوئی پیسے مانگے توہرگز مت دیں۔پاس ورڈ کی حیثیت دستخطوں کی طرح ہوتی ہے۔آپ کے دستخط ہوگئے تو چیزگئی آپ کے ہاتھ سے۔میرے ایک د وست نے یوٹیوب چینل بنایاتو اس کا پاس ورڈ اتنالمبارکھاکہ آج بھی اُن کے پاس ورڈ کے الفاظ اُن کے سبسکرائبرز سے زیادہ ہیں۔جن دفاتر میں کمپیوٹرکا زیادہ استعمال ہوتاہے وہاں بھی ایڈمن کا پاس ورڈ123 رکھا ہوتاہے جس کاسارے دفتر کو پتاہوتاہے۔میں ایک جگہ کام کرتاتھا جہاں وائی فائی کو باقی اسٹاف کی پہنچ سے بچانے کیلئے انتظامیہ ہرمہینے پاس ورڈ چینج کردیتی تھی اور نوٹس بورڈ پرنیا پاس ورڈ لکھ کر لگا دیا جاتا تھا۔ بحرالکاہل قسم کے لوگ ایساپاس ورڈ بہت پسندکرتے ہیں جسے الٹے ہاتھ کی انگلی سے آسانی سے لگایا جاسکے۔ اب چونکہ فنگر لاک، وائس لاک اور فیس لاک بھی آگیا ہے تو اس میں الگ ہی تماشے شروع ہوگئے ہیں۔ایک خاتون نے شادی پرجاناتھا، بیوٹی پارلر سے بن ٹھن کر آئیں توشوق شوق میں موبائل کے سامنے اپنا چہرہ کیااورفیس لاک لگالیا۔اگلے پانچ دنوں میں انہوں نے پانچ سو دفعہ اپناچہرہ موبائل کے سامنے کرکے لاک کھولنے کی کوشش کی لیکن موبائل نے چہرہ پہچاننے سے انکارکردیا۔ اس قسم کے پیچیدہ مسائل وائس لاک لگانے والوں کیساتھ بھی پیش آجاتے ہیں۔ایک صاحب گھرمیں بیٹھےموبائل کے آگے باربار بھونک رہے تھے۔ بیوی کی اچانک نظر پڑی تو آنکھیں پھاڑ کرپوچھاکہ یہ کیا بیہودہ حرکت ہے۔انہوں نے پریشانی سے بتایا کہ میں یہاں بیٹھاموبائل میں وائس لاک لگا رہاتھا ، اوکے کرنے سے ایک سیکنڈ پہلے گلی میں ایک کتازورسے بھونک کر بھاگ گیا۔

تازہ ترین