1977 ءکا برس تلاطم انگیز واقعات سے شروع ہوا۔ 7جنوری کو بھٹو صاحب نے قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے مارچ میں عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ آئینی طور پر حکومت کے پاس انتخابات کیلئے کم و بیش ڈیڑھ برس کی مہلت باقی تھی لیکن بھٹو صاحب کو اقتدار پر اپنی گرفت کا یقین تھا۔ ان کے خفیہ ادارے سازشوں کے جال بچھا رہے تھے۔ اس کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ جون 1977ءتک جو ’جوان حیدر آباد ٹریبونل ختم کرنے پر آمادہ نہیں تھے‘ وہ یکم جنوری 1978ء کو حیدر آباد سازش کیس ختم کرنے پر بلاچون و چرا کیسے رضامند ہو گئے۔ وزیراعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ نے بلامقابلہ منتخب ہو کر انتخابی عمل کی شفافیت کو غیر ضروری طور پر دھندلا ڈالا۔ لکھنے والے کو ٹھیک سے یاد ہے کہ اپوزیشن کی انتخابی مہم میں ایک بنیادی نکتہ مہنگائی کو 1970 ء کی سطح پر واپس لانا تھا۔ یاد رہے کہ 1977 ء میں پاکستان کی معیشت کا کل حجم پندرہ ارب ڈالر تھا اور فی کس آمدنی 124ڈالر تھی۔ گویا 1954 ء میں 97 ڈالر کی فی کس آمدنی میں ربع صدی بعد صرف 27ڈالر کا اضافہ ہو سکا تھا۔ اس دوران کم از کم بیس برس تک کل قومی برآمدات کا 70فیصد مشرقی پاکستان سے حاصل ہوتا تھا۔ 1977کی انتخابی مہم میں عوام کا اس نعرے پر یقین کرنا کہ اشیائے ضرورت کی قیمتیں سات برس پیچھے لے جائی جا سکتی ہیں، معیشت کے بنیادی اصولوں سے لاعلمی کا نتیجہ تھا۔ نیاز مند کی صحافتی زندگی میں سامنے کا مشاہدہ یہ ہے کہ ہمارا عام آدمی معیشت اور خارجہ پالیسی کی مبادیات نہیں سمجھتا ۔ معیشت کیلئے مہنگائی کا رونا ہے اور خارجہ پالیسی کو شخصی تعلقات کے پیرائے میں دیکھا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ معیشت آگے بڑھتی ہے اور نہ خارجہ پالیسی سے امیدیں پوری ہوتی ہیں۔
ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ پاکستانی معیشت صحیح سمت میں چل نکلی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ قومی معیشت کا حجم 420ارب ڈالر ہے۔ 2017ء میں ہماری معیشت 340ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ ہم نے 80ارب ڈالر کا یہ فاصلہ طے کرنے میں آٹھ برس صرف کیے ہیں۔ اس دوران ایک اہم واقعہ یہ ہوا کہ قرضوں کی ادائی میں کل قومی بجٹ کا 47فیصد خرچ ہو رہا ہے جو کہ ہمارے دفاعی بجٹ سے تین گنا بڑھ چکا ہے۔ نوے کی دہائی میں جب معیشت پر آنکھ رکھنے والے دفاعی بجٹ میں احتیاط کا تقاضا کرتے تھے تو انہیں ’غدارِ وطن‘ کہا جاتا تھا۔ ہمیں اس وقت بھی اندازہ تھا کہ ہماری معیشت پیداواری بنیادوں پر استوار نہیں اور بہت جلد ہمیں اونچی شرح سود پر قرض لینا پڑیں گے۔ سیاسی عدم استحکام کے باعث بیرونی سرمایہ کاری کا امکان محدود تر ہو جائیگا۔ رواں برس کی تیسری سہ ماہی میں چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری کم ہوئی ہے۔ یہ درست ہے کہ مئی 2023 ءمیں ہمارے ہاں افراط زر 38 فیصد کی خوفناک شرح پر تھا جو اب 6.20 فیصد کی نسبتاً بہتر حالت میں ہے۔ تاہم افراط زر کی یہ شرح عام شہریوں کی قوت خرید میں منتقل نہیں ہو رہی۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری معاشی ترقی بیرونی سرمایہ کاری سے جڑی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری ٹیکنالوجی کی منتقلی، انفراسٹرکچر میں ترقی اور جی ڈی پی کی شرح نمو میں اضافے کیلئے ضروری ہے۔ اس کیلئے ہمیں داخلی سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ سطور بالا میں ہم نے جس معاشی انجماد کا ذکر کیا اس کی بڑی وجہ سیاسی عمل میں غیر شفافیت تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم آج بھی آئینی تقاضوں کے مطابق شفاف سیاسی عمل سے نہیں گزر رہے۔ ہماری سیاسی صورتحال کو مستحکم جمہوری عمل نہیں بلکہ عبوری بندوبست کہنا چاہئے۔
اس ضمن میں یہ جاننا ضروری ہے کہ عالمی معیشت اس انتظار میں نہیں بیٹھی کہ ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر عصر حاضر کے معاشی دھارے میں شامل ہوں۔ گزشتہ ایک دہائی میں ہمارا ہمسایہ ملک بھارت 4.2 کھرب ڈالر کی معیشت کے ساتھ دنیا کی چوتھی بڑی عالمی طاقت بن چکا ہے۔ ہمارا کل قومی بجٹ 62 ارب ڈالر ہے جس میں 9 ارب ڈالر دفاع پر خرچ ہوتے ہیں جبکہ بھارت کا دفاعی بجٹ 82 ارب ڈالر ہے۔ یہ درست ہے کہ رواں برس مئی میں ہماری افواج نے ملکی دفاع میں قابل تعریف کارکردگی دکھائی ہے۔ تاہم یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ماضی میں بھی ہماری افواج نے اپنے سے چھ گنا بڑے ہمسایہ ملک سے عسکری تصادم میں قابل تحسین کارکردگی دکھا رکھی ہے۔ ہمارا حقیقی مسئلہ دفاعی صلاحیت نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ ہماری آبادی ساڑھے پچیس کروڑ کی لکیر پار کر گئی ہے۔ ہماری بالغ شرح خواندگی 60فیصد ہے اور ہماری فی کس آمدنی بمشکل 1700 ڈالر ہے۔ گزشتہ نصف صدی میں ہم نے مغربی محاذ پر جو خارجہ پالیسی اپنا رکھی تھی اسکی ناکامی کھل کر سامنے آ رہی ہے۔ کوئی ایک روز ایسا نہیں جاتا جب ہمیں مغربی محاذ پر دہشت گرد حملوں کا سامنا نہ ہو۔ تمام غیر شفاف ریاستوں کی طرح ہمارا صحافی بھی منظور شدہ آموختہ دہرانے کی علت میں مبتلا ہے۔ کل تک افغان جہاد کے ترانے گاتا تھا اور اب التزام سے ’بھارتی سرپرستی‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ صاحبو! بھارت کی افغانستان میں پاکستان مخالف عناصر کو مدد نیز بھاری معاشی سرمایہ کاری آج سے شروع نہیں ہوئی۔ گزشتہ ربع صدی میں جب ہم ’اچھے اور برے طالبان‘ کی گردان کر رہے تھے۔ کبھی ہم بلیک واٹر کے جواز کا سہارا لیتے تھے تو کبھی افغان حکومت کے عزائم پر انگلیاں اٹھاتے تھے۔ ہم تب بھی یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ طالبان کا تصور عالم اور طریق سیاست پاکستان جیسی قومی ریاست سے ناگزیر طور پر متصادم ہے۔ افغانستان میں جدید سیاسی عمل کی کوئی روایت نہیں جبکہ پاکستان میں بدترین حالات میں بھی سیاسی عمل کے کچھ زاویے موجود رہتے ہیں۔ خلیج کی بدلتی ہوئی تصویر پر ایک نظر ڈالیں اور یہ تسلیم کریں کہ آنے والے برسوں میں سرد جنگ کا ازکار رفتہ مذہبی تعلق کسی کام نہیں آئے گا۔ ہمیں اپنی معیشت پر حقیقت پسندانہ توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔