• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں ہرطرف اشتہار لگے تھے، ’’نظام بدلو‘‘ یہ تازہ سلوگن ہے جماعت اسلامی کا، لاہور میں بھی مینار پاکستان پر بہت بڑا جلسہ ہوا۔ مشاعرہ بھی ہوا۔ شاعروں کو خوب معاوضہ دیا گیا۔ کراچی میں ساتھ ساتھ محترمہ امینہ سید اور راحیلہ نے بہت کفایت سے دوروزہ ادب دوست کانفرنس کی کہ یہ انفرادی کوشش شروع ہوئی تھی ڈاکٹر آصف فرخی اور امینہ سید نے اپنے وسائل اکٹھا کرکے او یو پی کے مقابلے میں یہ چھوٹی سی کوشش کی تھی، اب ڈاکٹر آصف فرخی کی اچانک وفات کے بعد، امینہ نے خود اعتمادی کی مثال قائم کی ۔ کتابوں کی اشاعت اور کانفرنس دونوں کو کراچی میں آرٹ کونسل کے علاوہ اپنے محدود وسائل اور ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں کے تعاون سے دوروز منعقد کیا۔ کانفرنس میں موضوع مصنوعی ذہانت کوبنانے کے بجائے ، نوجوانوں میں خود اعتمادی کی پھونک ( جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کی طرح نہیں) علم اور شخصی فکر ، ساری دنیا کے سیاسی، اجتماعی اور غزہ جیسے مسائل، یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بندی کی ضرورت اور کتاب کی جانب نوجوانوں کو واپس لانے کی تحریک وغیرہ بنائے گئے ۔

آج کل کے لڑکے لڑکیوں کی ٹک ٹاک، ایکس اور یوٹیوب پہ اپنے اپنے ہذیانی چینل کی وبا کو کم کرنے کے لئے ڈاکٹر عشرت حسین اور دیگر مدبروں نے، کتاب دوستی کی تحریک خود اساتذہ اور ادیبوں کے اشتراک سے شروع کرنے پر زوردیاکہ زعم تقویٰ اور انتہا پسندی جیسی بدعتیں ختم کرنے کی سیاسی نہیں علمی تحریک کو باعمل بنایا جائے۔ یوں تو یہ بظاہر بہت خشک موضوعات ہیں مگر سارے سینئر دانشوروں اور فرحت اللہ بابر جیسے سنجیدہ افراد نے مکالمہ کیا بھی کہ کتاب کلچر کے ذریعے ساری دنیا میں پھیلی دہشت گردی، سیاسی تجارت اور اسمگلنگ کو ذریعہ روزگار بنانے کے بجائے اپنی زمین اور اپنے وطن کوچینیوں کی طرح، اپنی معیشت کو،غربت اور آبادی پہ قابو پانے کے لئے نوجوان نسل کو آگے آنے دیں۔

گزشتہ چالیس سال میں ادب اور فنون کو جان بوجھ کر نظر انداز کیاگیا، رجعت پسند لیڈروں اور سیاسی بکاؤ لوگوں نے جس طرح انسانیت سے قطعاً روگردانی کی ۔ چالیس سال پہلے ہمارے نوجوانوں کی ہر کالج میں یونین ہوتی تھی۔ وہ کیا ختم کی گئی۔ہر جیب میں کتاب نہیں پستول کی حکومتیں ہی چلتی رہیں۔ یہ صرف پاکستان ہی میں نہیں۔ مودی نے تو انڈیا کے سارے کلچر پہ ریت ڈال دی ہے۔ مسلمانوں کےقتل عام پر دانشوروں کی بنائی دستاویزی فلمیں غیرممالک میں دکھائی گئیں۔ وہاں لوگوں نے تحسین کی نظر سے دیکھا۔ یہ سب مودی نے انڈیا میں نہیں کرنےدیا۔

آج پاکستان میں نہ کوئی کلاسیکی سنگر ہے، نہ کوئی صادقین جیسا آرٹسٹ نہ تحریکوں کو بڑھانے والی شاعری جو ظفر علی خاں سے شروع ہوکر فیض، جالب اور فراز تک پہنچی تواب جوسچ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں استعاروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اب تو سچ بھی کارٹون فلموں اور کرداروں کے ذریعےبیان ہوتا ہے۔

ہرچند ڈیجیٹل فلموں اور ای کتابوں کی جانب چند فی صد نوجوان راغب ہوتے ہیں۔ البتہ ہماری ساری علاقائی زبانیں، بنیادی عوامی سطح پر اس قدر فروغ پارہی ہیں کہ سندھی، پنجابی، بلوچی اور پشتو زبانوں کے ماسٹرز بڑی تعدادمیں سامنے آرہے ہیں۔ کتابیں اور زبانیں اس عشرے میں عوام اور میڈیا میں بھی بہت محبت سے مقبول ہورہی ہیں،اب تک جو سیاست تھی اس نے سامنے اور زیرِزمیں، منافقت کو اس قدر فروغ دیا کہ نوجوان نسل توکیا بزرگ سیاست دان جیسا کہ اعتراز احسن اور ہمارے بلوچی سینئر استاد اور سیاسی لیڈرحالات سے بیزار، منہ لٹکائے، عزت بچاکے بیٹھے ہوئے ہیں، ورنہ ہوتا یہ ہے کہ جو سراٹھاتا ہے، اسکولاپتہ کردیا جاتا ہے۔ خارجیوں کو ہر گلی محلے میں دندناتے دیکھ کر، معاشی ترقی کو بھی زنگ لگا ہوا ہے۔ ملک کے نظریاتی وجود میں منفی قوتوں نے نفرت کا زہر پھیلا دیاہے، نوجوان گزشتہ کئی سال سے قانون ہاتھ میں لیے، خود ہی سزا دے رہے ہیں۔ استعمال ہوتا ہے مذہب کا۔یہ نعرہ کہ ہم اپنےدین کو بچا رہے ہیں۔ انہیں قانون ہاتھ میں لینے کی سزادینا، نہ ہونے کے برابر ہے۔

ضیاء کے زمانے سے تاریخ اور جغرافیہ اور فلسفہ جیسے موضوعات کو مذہب اور نصاب سے خارج کردیاگیا۔نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس وقت جوانوں نے قانونی راستے سے کم اور اسمگل ہوکر جانے میں جو بے عزتی ملک کو دلوائی ہے کہ انگلینڈ جسے ملکوں نے بھی کسی غیر ملکی کو شہریت دینے پہ پابندی عائد کردی ہے۔ اورایسی شرائط عائدکی ہیں کہ جن پر عمل ناممکن ہے۔

اس کانفرنس میں سب سے اچھا سیشن نوجوانوں سے بات کرنے کاتھا۔ ہر نوجوان کو یہ بتانا تھا کہ وہ اگر اپنے پیروں پرکھڑا ہوا ہے تو کیا پڑھ کے اور کس عمر میں یہ سوچے کہ میں ماں باپ پہ بوجھ نہیں بنوںگا۔ اس سیشن میں دولڑکیاں اور دولڑکے تھے ہر ایک کسی نہ کسی جگہ خود کفیل ہونے کی کوشش کررہا ہے۔ جونوجوان میوزک میں ہےاب خود بھی میوزک میلے کرتا ہے اور مطمئن ہے۔ لڑکیوں نے ڈرامے کرنے اور لکھنے کی کوشش کی ہے گوابھی مکمل فن نہیں آیا، مگر شکایت کررہی تھیں ، خاندان سے لےکر مردوں تک سے کوئی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی ہے۔ ایک دوست نے بتایا کہ میں ان بچوں کی مدد کرتا ہوں جو مالی اور نصابی سطح پر کمزور ہوں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ دیگر نوجوان اس کے ساتھ کام میں شریک ہوتے جا رہے ہیں۔

میری خواہش ہےکہ ایسے نوجوان مجھے ملنے آئیںجو کراچی کے جوانوں کی طرح خود اعتمادی کے ساتھ پڑھ رہے ہیں اور اپنے تجربے سے دیگر نوجوانوں کو خود اعتمادی سکھا رہے ہوں۔میں ان کی کہانی لکھ کرخوش ہوں گی۔

تازہ ترین