پچھلے دنوں ہمارے مخلص دوست اور ہمدرد ملک ترکی میں چند خودغرض، دشمنوں کے اشاروں پر چلنے والے فوجیوں نے صدر رجب طیب اردوان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی۔ صدر کی آواز پر لبیک کہہ کر عوام اور پولیس نے اس کو ناکام بنادیا اور تمام ملک دشمن عناصر کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالدیا۔ ترکی اور پاکستان دو اہم مسلمان ممالک ہیں، ان کی آزادانہ پالیسی مغربی ممالک کو پسند نہیں ہے اور وہ کسی نہ کسی طریقے اور بہانے سے ہمیں غیرمستحکم کرنے پرتلے رہتے ہیں۔ ترکی میں سازش کے دوران جب شہر کے مناظر دکھائے گئے تو میرے اور میرے سینئر رفقائے کار کے دل میں خوشگوار یادیں تازہ ہوگئیں۔ ہم لاتعداد مرتبہ استنبول گئے ہیں ہمارے وہاں چند مخلص صنعتکاروں سے تجارتی تعلقات تھے۔ استنبول بہت ہی خوبصورت شہر ہے۔ شہر میں باسفورس ہونے کی وجہ سے جہازوں اور کشتیوں کی آمدورفت بہت ہی دلکش مناظر پیش کرتی ہے۔ کھانے نہایت ہی لذیذ ہوتے ہیں۔ ہماری طرح گوشت زیادہ اور شوق سے کھاتے ہیں۔ پورے شہر میں بڑے بڑے سائن بورڈ لگے ہیں جن پر ’’سلطان ایوبؓ ‘‘ لکھا ہے۔ شہر میں حضرت ابوایوب انصاریؓ کا اعلیٰ مزار ہے اور اس سے ملحقہ ایک خوبصورت مسجد بھی ہے۔ ہمارا اصول تھا کہ ہم ہمیشہ ان کے مزار پر جاتے تھے فاتحہ پڑھتے تھے اور اگر نماز کا وقت ہو تو نماز ورنہ دو نفل ادا کرتے تھے۔ اس مزار پر آپ جائیں تو نہ نظر آنے والی شان و شوکت و رُعب سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ ترک عوام حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی بے حد عزّت کرتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں۔
ترکی میں پرانی عمارتیں بہت اعلیٰ اور خوبصورت ہیں۔ ترکی نے چونکہ مشرقی یورپ پر طویل عرصے تک حکمرانی کی تھی اسلئے وہاں کی اعلیٰ طرز تعمیر اپنالی تھی۔ باسفورس کے کنارے واقع لاتعداد محلات نہایت ہی خوبصورت اور قابل دید ہیں۔ مصطفی کمال پاشا المعروف اتاترک کی رہائش گاہ دولما باشے (استنبول) قابل دید ہے۔ یہی اعلیٰ معیار ترکوں نے صدیوں پہلے خانہ کعبہ کی تعمیر میں بہت اچھی طرح (محرابیں بنا کر) کی تھی اور حُمس (شام) میں حضرت خالد بن ولیدؓ کا مزار قابل دید اور اعلیٰ تعمیر کا نمونہ ہے۔ ہم (میں اور رفقائے کار) سرکاری دورے پر شام گئے تھے۔ ہم نے حُمس میں ایک اچھی یونیورسٹی دیکھی تھی اور حضرت خالد بن ولید ؓ کا اعلیٰ مزار بھی دیکھا تھا۔
دیکھئے بات کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ بات حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے نکلی ہے۔ میرے نہایت قابل و وعزیز دوست پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی نے پچھلے دنوں حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے متعلق ایک ای میل بھیجی تھی وہ اتنی دلچسپ اور اہم ہے کہ آپکی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تبع حمیری تھا، ایک مرتبہ اپنی سلطنت کے دورےکو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکت دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف نظارے کو جمع ہوجاتی تھی۔ یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔ بادشاہ حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کرکے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے۔ یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کرا دوں گا۔ یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہوگیا اور ایسا بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی ، اس مرض کا علاج کیا گیا مگر افاقہ نہ ہوا۔ شام کے وقت بادشاہی علماء میں سے ایک عالم ربانی تشریف لائے اور نبض دیکھ کر فرمایا، مرض آسمانی ہے اور علاج زمین کا ہورہا ہے، اے بادشاہ! آپ نے اگر بری نیت کی ہے تو فوراً اس سے توبہ کریں، بادشاہ نے دل ہی دل میں بیت اللہ شریف اور خدام کعبہ سےمتعلق اپنے ارادے سے توبہ کی، توبہ کرتے ہی اس کا وہ خون اور مادہ بہنا بند ہوگیا، اور پھر صحت کی خوشی میں اس نے بیت اللہ شریف کو ریشمی غلاف چڑھایا اور شہر کے ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے نذر کئے۔ پھر یہاں سے چل کر مدینہ منورہ پہنچا تو ہمراہ علماء نے جو کتب سماویہ کے عالم تھے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انھوں نے پڑھی تھیں، ان کے مطابق اس سرزمین کو پایا تو باہم عہد کرلیا کہ ہم یہاں ہی مرجائیں گے مگر اس سرزمین کو نہ چھوڑیں گے، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو کبھی نہ کبھی جب نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائینگے ہمیں بھی زیارت کا شرف حاصل ہوجائے گا ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور کبھی نہ کبھی ا ن کی جوتیوں کی مقدس خاک اڑ کر پڑ جائیگی جو ہماری نجات کیلئے کافی ہے۔
یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کے واسطے چار سو مکان بنوائے اور اس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس حضور کی خاطر ایک دو منزلہ عمدہ مکان تعمیر کروایا اور وصیت کردی کہ جب آپؐ تشریف لائیں تو یہ مکان آپ کی آرام گاہ ہو اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور کہا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمہیں حضور کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کردینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتیٰ کہ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے چل دیا۔ وہ خط نبی کریم ؐ کی خدمت اقدس میں ایک ہزار سال بعد پیش ہوا،کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا؟ سنئے اور عظمت حضورؐ کی شان دیکھئے۔
’کمترین مخلوق تبع اول حمیری کی طرف سے شفیع المزنبین سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اما بعد: اے اللہ کے حبیب! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب آپ پر نازل ہوگی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے دین پر ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت اور اگر میں آپ کی زیارت نہ کرسکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں۔شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً ان چار سو علماء کے اندر حرزِ جان کی حیثیت سے محفوط چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا، ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلیٰ کی تحویل میں رکھا اور جب حضور ؐ نے مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ کی الوداعی گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق در جوق آرہے تھے اور کوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اور سڑکوں کو صاف کررہا تھا اور کوئی دعوت کا انتظام کر رہا تھا او ر سب یہی اصرار کررہے تھے کہ حضور ؐ میرے گھر تشریف لائیں۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہوگی، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع حمیری نے حضور کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ایوب انصاری ؓ کی تحویل میں تھا، اسی میں حضورؐ کی اونٹنی جاکر ٹھہر گئی۔ لوگوں نے ابولیلیٰ کو بھیجا کہ جائو حضور ؐ کو شاہ یمن تبع حمیری کا خط دے آئو جب ابو لیلیٰ حاضر ہوا تو حضور نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلیٰ ہے؟ یہ سن کر ابو لیلیٰ حیران ہوگیا۔ حضورؐ نے فرمایا میں محمد رسول اللہ ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمہارے پاس ہے لائو وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلیٰ نے وہ خط دیا، حضورؐ نے دیکھ کر فرمایا، صالح بھائی تبع کو آفرین وشاباش ہے۔‘‘ (سبحان اللہ!) میں صدقے یارسول اللہ ! ﷺ (بحوالہ کُتب: (میزان الادیان) (کتاب المُستظرف)(حجتہ اللہ علے العالمین) (تاریخ ابن عساکر)۔
حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا اصل نام خالد بن زید بن کلیب تھا، آپ مدینہ میں پیدا ہوئے تھے اور بنی نجّار قبیلے سے تعلق تھا اور رسولؐ کے قریبی صحابی تھے۔ آپ انصار تھے اور 622 سن عیسوی میں رسول ؐ کی ہجرت کے بعد آپؐ کے میزبان تھے۔ مصر کی فتح کے بعد آپ ؓ نے مِصر میں رہائش اختیار کرلی، مسجد عمرو بن العاصؓ کے پاس ایک گھر میں رہنے لگے اور آپ ؓ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ نے رسولؐکے وقت سے لیکر حضرت معاویہ ؓ کے دور تک مسلسل جنگوں میں حصّہ لیا۔
حضرت امیر معاویہ ؓ کے دور میں جب یزید بن معاویہ کی سربراہی میں مسلمان فوج نے، جس میں نہایت بہادر تجربہ کار، جیّد صحابہ بھی تھے، استنبول کا محاصرہ کیا تو حضرت ابو ایوب انصاری ؓ ضعیف العمری کے باوجود اس میں شامل تھے۔ صحیح مسلم میں حدیث مُبارک ہے کہ رسولؐنے فرمایا تھا کہ جو فوج استنبول فتح کرے گی وہ تمام کی تمام جنت میں داخل ہوگی۔ جنگ کے دوران آپ کی طبیعت بہت خراب ہوگئی اور یزید کے پوچھنے پر کہ آپ کی کوئی خواہش ہے آپ ؓ نے فرمایا کہ مجھے دشمن کی زمین میں جہاں تک ہوسکے اندر جاکر دفنا دینا۔ مسلمانوں نے تابڑ توڑ حملے کئے اور رومیوں کو دھکیل کر شہر کی فصیل تک لے گئے اور آپؓ کو وہیںپر دفن کیا۔ روایت ہے کہ رومیوں نے فصیل پر سے کہا کہ تم جب واپس چلے جائو گے تو ہم اس لاش کو نکال کر باہر پھینک دینگے جہاں جانور اور پرندے اس کو کھا جائینگے۔ یزید نے سن کر کہا کہ قسم ہے اللہ رب العزت کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم نے اس لاش کی بے حرمتی کی تو میں اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا، پورے شہر کو آگ لگادونگا اور کسی بھی شہری کو زندہ نہ چھوڑونگا۔ رومی ڈر گئے اور انھوں نے قبر کی بے حُرمتی نہیں کی۔ 1459 میں سلطان محمد فاتح نے سنگ مرمر کی خوبصورت قبر اور مقبرہ تعمیر کروایا اور اس وقت سے آج تک یہ مقبرہ (مزار) نہ صرف ترک باشندوں کیلئے بلکہ دنیائے اسلام کے مسلمانوں کیلئے ایک نہایت متبرک جگہ بن گئی ہے اور جو مسلمان استنبول جاتا ہے وہ ضرور اس مقبرے کی زیارت کرتا ہے اور فاتحہ پڑھتا ہے۔ ترکی میں ہی قونیہ میں مولانا جلال الدین رومیؒ کا مزار ہے جہاں ہزاروں مسلمان جاکر فاتحہ پڑھتے ہیں۔ اللہ پاک ان دونوں بزرگوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پر فائز رکھے ۔ آمین۔
.