مدوّن و مرتب: عرفان جاوید
(نیّر مسعود)
’’آپ بڑے مکان ہی میں رہتے ہیں؟‘‘ اُس نے مجھ سے پوچھا۔ ’’جی نہیں۔ بستی کے باہر رہتا ہوں، اور اب کسی اور بستی جانے کا سوچ رہا ہوں۔‘‘’’کیوں؟ بڑا مکان پسند نہیں آیا؟ یہ آپ ہی لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے۔‘‘’’یہ غریبوں اور محتاجوں کے لیے ہے۔ میرا اس پر حق نہیں ہے۔‘‘’’کیوں؟ آپ یہاں کی آندھی سے گھبرا گئے؟‘‘ ’’آندھی سے مَیں نہیں گھبراتا۔ جب تک میرے شہر میں آندھیاں آتی تھیں، مَیں ہر آندھی کو باہر نکل کر اپنے سینے پر لیتا تھا۔
مجھے یہ اچھا معلوم ہوتا تھا۔‘‘ ’’عجیب!‘‘ اس نےمجھے دل چسپی سے دیکھا۔ ’’آپ کے یہاں آندھی کے ساتھ گرد نہیں آتی تھی؟‘‘ ’’شاید نہیں آتی تھی۔ مَیں نےغور نہیں کیا۔ کم سے کم یہاں کی مٹیالی آندھی کے مقابلے میں۔‘‘ آپ نے آندھی کو تماشے کی طرح دیکھا ہے۔‘‘ اُس نے لمبی سانس لی۔ ’’ہم کو اِس سے لڑنا پڑتا ہے۔‘‘’’پھر آپ لوگوں نے اس بستی کو رہنے کےلیے کیوں پسند کیا؟‘‘ ’’لمبا قصّہ ہے۔ کم سے کم گرد ہٹانے کے بہانے پوری بستی کی صفائی ہوتی رہتی ہے۔‘‘مَیں نے غورکیا۔
واقعی اس بستی سے زیادہ صاف سُتھری بستی مَیں نے نہیں دیکھی تھی۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ کچھ دیرتک سردار کو دیکھتا رہا۔ پھر بُرا سامنہ بنا کر بولا۔ ’’بھئی سردار! تمھارے پاس قاعدے کے کپڑے نہیں ہیں؟ یہ کیا گودڑ لپیٹے پڑے ہو؟‘‘ ’’اچھے کپڑے ہیں، مختار صاحب۔ تہوار اور شادی بیاہ میں پہنتا ہوں۔
گودڑ نہ لپیٹوں تو کوئی بھیک بھی نہ دے گا۔‘‘’’سچ کہتے ہو۔‘‘ اُس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور کچھ رقم نکال کر سردار کے سرہانے رکھ دی۔ پھر مجھ سے بولا۔ ’’اچھا آج ہماری خاطر بڑے مکان میں رہ لیجیے۔ پھر کل سے کچھ اور انتظام کرلیجیے گا۔
دوسری بستی میں پہنچتے پہنچتے آپ کو رات ہوجائے گی۔ یہاں رات کو سفر کرنا ٹھیک نہیں، راستے میں گڑھے بہت پڑتے ہیں۔‘‘ اُس نے مُسکرا کر سردار کو دیکھا۔ ’’برابر والا کمرا خالی ہے۔ اُس میں آرام کیجیے۔ سردار آپ کا دل بہلائے گا۔ دل چسپ آدمی ہے، مگر باتیں بہت کرتا ہے۔‘‘ سردار ہنسنے لگا۔ ’’آپ بھی مختار صاحب...‘‘ لیکن وہ مجھے خدا حافظ کہہ کر جا چُکا تھا۔
سردار واقعی دل چسپ آدمی تھا اور واقعی بہت باتیں کرتا تھا۔ اُس رات ہم بہت دیر تک باتیں کرتے رہے اور اُس سے مجھ کو دھول بن کے بارے میں اتنا معلوم ہوگیا، جتنا شاید کئی مہینے میں معلوم نہیں ہو سکتا تھا۔ اُس نے بتایا، دھول بن، کوئی بستی نہیں تھی۔
بس اونچی نیچی بنجر زمین کے چھوٹے بڑے قطعے تھے، جن پرلمبی گھنی جھاڑیاں اور کچھ درخت تھے، جن کو پانی کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ بڑے مالک نے وہ ساری زمین خرید لی اور اس پر مکان وغیرہ بنوائے۔ کنارے کی نشیبی زمین کو گہرا کُھدوا کر وہاں ایک بڑا تالاب بنوایا۔ پانی زمین پر بہت نیچے تھا، جس کے لیے کئی گہرے کنویں کھدوائے۔
بیچ میں آندھیاں آتی رہیں، لیکن بڑے مالک نے اُن کی پروا نہیں کی اور آندھی کی لائی دھول ہٹواتے رہے۔ ’’لیکن اُنھوں نے اس بستی…دھول بن کو کیوں پسند کیا؟‘‘ ’’بس اپنی بستی بسانے کا شوق۔ مَیں نے بتایا نہیں کہ یہ کوئی بستی نہیں تھی،کوئی اس زمین کا مالک نہیں تھا۔ صرف کچھ بَنجارے سال دو سال میں یہاں ڈیرے لگاتے تھے۔ بڑے مالک نے سرکار سے ساری زمین خرید لی۔
بنجاروں کے لیے پچھم کی طرف کچھ زمین الگ کردی، اور یہاں مکان وکان بنانے میں لگ گئے۔ لیکن بڑے مالک کا بلاوا آگیا۔‘‘ اُس نے لمبی سانس لی اور موت کے بارے میں ایک فلسفیانہ سی تقریر شروع کر دی۔ اُس کی آواز سنتے سنتے مَیں سو گیا۔
درخت کے نیچے کی بے آرام زندگی کے بعد بڑے مکان کے اُس کمرے میں ایسی اچھی نیند آئی کہ سویرے بہت دیر میں آنکھ کھلی۔ آندھی شروع ہوگئی تھی اور بستی کے دروازے بند ہوگئے تھے۔ درخت کے نیچے دیر میں جاگتا تھا تو بھی آندھی میں باہر نکل سکتا تھا، یہاں میں بڑے مکان میں بند ہوگیا تھا۔ مجھے گھٹن محسوس ہورہی تھی لیکن بستر پر پڑا سوتا، جاگتا رہا۔ اپنے ٹھکانے پرجانے کا خیال نہیں آیا۔ شام کو بازار کا ایک چکر لگایا۔
دکان دار مجھ کو پہچاننے لگا تھا۔ ہم دونوں کچھ دیر باتیں کرتے رہے۔ وہ بھی مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ مَیں آندھی میں باہر کیوں گھومتا ہوں۔ مَیں نے اُسے بھی یہی جواب دیا کہ باہر نکلنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ وہ بولا۔ ’’مختار صاحب بھی پوچھ رہے تھے۔ اُن سے چھوٹی مالکن نے پوچھا ہوگا۔‘‘ دھول بن کی چھوٹی مالکن کا ذکر اُس دن میں نے پہلی بار سُنا۔ سوچا، اُس سے کچھ اور معلوم کروں۔ پھر چُپ رہنا بہتر معلوم ہوا اور مَیں اُٹھ کھڑا ہوا۔
آج سردار کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تھی اور وہ اپنے گودڑ میں لپٹا ہوا پڑا تھا۔ مَیں نے اُس کا حال پوچھا۔ وہ ٹھیک سے جواب بھی نہ دے سکا۔ اُسے سردی بہت لگ رہی تھی۔ پھر بھی مَیں اُس کے پاس کچھ دیر بیٹھا رہا۔ طبیعت آپ ہی آپ الجھ رہی تھی۔ اپنے ٹھکانے پر جانے کی تیاری کرتے کرتے معلوم نہیں کب سوگیا۔ دوسرے دن پھر دیر میں اُٹھا اور پھر دن بھر بڑے مکان میں بند پڑا رہا۔ شام کو ڈاکٹر پھر سردار کو دیکھنے آیا۔ مختار صاحب اس کے ساتھ تھے۔
ڈاکٹر کے جانےکے بعد بھی وہ بیٹھے رہے۔ دو تین بار اُنھوں نے بھی سردار کی نبض دیکھی۔ پھر مجھ سے پوچھا۔ ’’کہیے، آپ نے کیا طے کیا؟‘‘ مَیں نے کچھ طے نہیں کیا تھا، لیکن اب بڑے مکان میں مجھ کو نہیں رہنا تھا۔ اس لیے مَیں نے یوں ہی کہہ دیا۔ ’’کل چلا جائوں گا۔ آج شاید اپنے پرانے ٹھکانے پر سوجاؤں۔ کل دن میں کوئی اور بستی دیکھوں گا۔‘‘ ’’دن میں…؟‘‘
اُنھوں نے پوچھا ’’اور آندھی؟‘‘ ’’آندھی میں باہر نکلنے کا عادی ہوں۔‘‘ مَیں نے کہا اور یہ سوچ کرشرمندہ ہوا کہ آج کا دن مَیں نے ضائع کردیا۔ درخت کے نیچے رہتا تو کوئی اور بستی ڈھونڈ لیتا۔ مختار صاحب کو شاید میرے خیال کا اندازہ ہوگیا۔ انھوں نے کہا۔ ’’آندھی میں دن کو کوئی کام نہیں ہوسکتا۔‘‘ اُنھوں نے پہلے دن کی کہی ہوئی بات دہرائی۔ ’’آپ نے آندھیوں کو تماشے کی طرح دیکھا ہے۔‘‘ ’’میرے بچپن کا زمانہ تھا۔ اُس وقت تماشا بھی ضروری کام معلوم ہوتا تھا۔‘‘مَیں نے سوچا، مَیں خواہ مخواہ بحث میں الجھ رہا ہوں۔
بات بدلنے کے لیے کچھ اور سوچ رہا تھا، لیکن اچانک مختار صاحب نےکہا۔ ’’ہمیں رنگین آندھیوں کے بارے میں بتائیے۔‘‘مَیں نے سرسری طور پر بتا دیا۔ مختار صاحب سُنتے رہے، پھر بولے۔ ’’واقعی تماشا معلوم ہوتا ہوگا۔ خاص طور پر بچّوں کو۔‘‘ ’’بچّے کبھی کبھی ڈربھی جاتے تھے۔ مجھے ڈر نہیں لگتا تھا، اِس لیے گھر سے باہر نکل جاتا تھا۔‘‘ ’’عجیب!‘‘ مختار صاحب نے وہی کہا، جو پہلے دن کہا تھا، اور پھر کہا، ’’عجیب!‘‘ تھوڑی دیر بیٹھ کر مختار صاحب رخصت ہو گئے۔
مَیں اُن کے چلے جانے کے بعد کچھ دیر سردار کے پاس بیٹھا رہا، اُس کو نیند آرہی تھی۔ مَیں نے اُس سے بات نہیں کی اور اپنے کمرے میں آیا۔ اپنا سامان سمیٹا اور باہر نکلا تو کچھ دُور مختار صاحب نظر آئے۔ اُن کے ساتھ کوئی خوش لباس عورت اور کچھ مزدور قسم کے آدمی تھے۔ مَیں ان سب کی نظر بچا کر آگے بڑھا۔ تھوڑی دُورجاکررُک گیا اور اپنے ٹھکانے والے درخت کے نیچے جانے کی ہمّت باندھنے لگا۔ اِس میں کچھ دیرلگی۔ پھر آگے بڑھنے لگا۔
مگر اپنی پشت پر مختار صاحب کی آواز سُن کر رک گیا۔ وہ قریب ہی کھڑے کہہ رہے تھے، ’’صاحب کہاں چلے؟‘‘’’آپ کو شاید بتا چُکا ہوں۔‘‘ ’’لیکن رات کو سفر کرنا…‘‘ اُسی وقت ایک مزدور نے قریب آکرکہا۔ ’’مختار صاحب! چھوٹی مالکن نے آپ کو بلایا ہے۔ کہا ہے، اُن کو بھی لیتے آئیے گا۔‘‘’’اُن کو، کن کو؟‘‘ ’’وہی جو آندھی میں باہر گھومتے ہیں۔‘‘ مزدور نےکہا۔ پھر اُس کی نظر مجھ پر پڑی۔ ’’یہی تو ہیں۔‘‘’’اچھا، تم چلو‘‘ مختار صاحب نے کہا۔
پھر مجھ سے بولے۔ ’’چلیے صاحب، ملیکہ یاد کر رہی ہیں...‘‘ ’’ملیکہ کون؟‘‘ ’’دھول بن کی مالک وہی ہیں۔ کبھی کبھی باہر سے آنے والوں کو اپنے یہاں بلاتی ہیں۔‘‘ ’’لیکن مجھے کیوں؟‘‘ ’’شایدآندھی کے دِنوں میں آپ کے باہر نکلنے کی وجہ سے۔‘‘ ’’لیکن آندھی میں باہر نکلنا کوئی نرالی بات نہیں ہے۔‘‘ ’’نہیں ہے۔ لیکن جب مَیں نے اُنھیں بتایا کہ آپ آندھی کے وقت مکان کے اندر نہیں رہ سکتے، تواُن کا خیال تھا کہ وہ آپ کو جانتی ہیں۔
کم سے کم اُن کی والدہ جانتی تھیں اورشاید اُن کے میاں بھی۔‘‘ ’’اُن کے میاں کیا اب نہیں ہیں؟‘‘ ’’ہیں، لیکن بےہوش رہتے ہیں۔‘‘’’کیوں؟‘‘ ’’آپ والے درخت سے گر گئے تھے۔ سر کے بل گرے تھے۔ اُس کے بعد سے…‘‘ ’’تو سردار اُن ہی کا ذکر کررہا تھا۔‘‘ مَیں نے سوچا۔ ’’لیکن وہ اُس درخت پر چڑھے ہی کیوں تھے؟‘‘ مَیں اِس عرصے میں بھول گیا کہ مَیں نے اُن سے کچھ پوچھا تھا۔ شاید دوا علاج کے بارے میں کوئی رسمی سوال تھا۔
مختار صاحب کہہ رہے تھے۔ ’’شہر کےاسپتالوں میں دکھایا گیا، دو جگہ بھرتی بھی رہے۔ عاملوں، جھاڑ پھونک والوں، بنجاروں سے بھی مدد لی گئی، سب بےکار! اب ہروقت بےہوش رہتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر رکھ لیا گیا ہے۔ کبھی کبھی کچھ دیر کو ہوش آتا بھی ہے تو ہوش کی باتیں نہیں کرتے۔ ایک تو اُن کے منہ سے بات نکلتی ہی نہیں، پھر آواز…‘‘اچانک وہ رُک گئے، پھر بولے، ’’لیجیے، اُن کا مکان آگیا۔‘‘ مَیں نے اپنے بائیں ہاتھ بنی کوٹھی دیکھی اور دیکھتا رہ گیا۔ ایسا معلوم ہوا کہ مَیں اپنے لڑکپن کا مکان دیکھ رہا ہوں، جو کبھی کا ختم ہوچُکا تھا اورمَیں اُسے بُھلانے میں بڑی مدت بعد کام یاب ہوا تھا۔
اُس مکان کی رُوکار، برآمدے کے در اور اندر ڈیوڑھی بالکل اُسی مکان کی سی تھی۔ مختار صاحب اندر چلے گئے تھے اور مَیں اپنے مکان کی ایک ایک چیز کو یاد کر رہا تھا۔ اُس کے رہنے والے، میرے بزرگ، اُن کی صُورتیں بلکہ آوازیں تک مجھے یاد آنے لگیں۔ اپنے یہاں کے ملازم، مہمان اور آئے دن کے ہنگامے، وہ لوگ جن میں سے اب کوئی موجود نہیں تھا۔ مَیں نے اُن سب کو بُھلا دیا تھا، لیکن یہ میری بھول تھی۔
بچپن کی دوسری یادوں کی طرح یہ یادیں بھی میرے دماغ میں کہیں موجود تھیں اور اب ایک ایک کرکے یا ایک ساتھ تازہ ہو رہی تھیں۔ یہ سب شاید چند لمحوں کے اندر ہوگیا۔ مختار صاحب کوگئے ہوئے دیرنہیں ہوئی تھی اور اب وہ واپس آکر مجھے غور سے دیکھ رہے تھے۔ مَیں اُن کی طرف متوجّہ ہوگیا۔ ’’آئیے، بُلا رہی ہیں۔‘‘ اُنھوں نےکہا اور مَیں اُن کے پیچھے پیچھے مکان میں داخل ہوگیا۔ مکان کا یہ مردانہ حصّہ تھا اور میرے مکان کےمردانے سے خاصا مختلف تھا۔
زنانے حصّے کو ایک دروازہ باقی مکان سے الگ کرتا تھا۔ اُدھر سےعورتوں کی آوازیں آرہی تھیں اورایک بچّہ یک ساں آواز میں رو رہا تھا۔ مختار صاحب نے اُس دروازے پر دستک دی اور بلند آواز سے کہا۔ ’’بتا دو، وہ آگئے ہیں۔‘‘مَیں نے اتنی دیر میں مردانےحصّے کو دیکھ لیا تھا۔
ایک بڑا کمرا تھا اور اُس سےمتصل دو چھوٹے کمرے۔ بڑے کمرے کا دروازہ بند تھا۔ چھوٹے کمروں میں معمولی دفتری سامان بے ترتیبی سے ڈھیر تھا۔ کتابیں بھی بہت سی تھیں، زیادہ تر درختوں کےبارے میں۔ دروازے کُھلے ہوئے تھے۔ مختار صاحب نے مجھے اُنھی میں سے ایک کمرے میں بٹھا دیا۔
کچھ دیر بعد ملیکہ کمرے میں داخل ہوئی۔ میں اُسے کوئی پختہ عُمر کی عورت سمجھ رہا تھا لیکن وہ جوان اورمجھ سےعُمر میں بہت چھوٹی تھی۔ مَیں سمجھ رہا تھا کہ اُس سے بات کرنے میں مجھے کچھ تکلف ہوگا، لیکن عُمروں کے فرق نے اِس تکلف کو باقی نہیں رہنے دیا۔ پھر بھی کچھ دیر تک مَیں اُس سے بہت سنبھل کر گفتگو کرتا رہا۔ اُس نےمجھ سے کچھ رسمی سوال پوچھے۔ آپ کو یہاں کوئی تکلیف تو نہیں ہے، یہاں کا راستہ آپ کو کس طرح معلوم ہوا، وغیرہ۔
مَیں نے سرسری طور پر سردار سے ملاقات کا حال بتا دیا، پھر خاموش ہوگیا۔ ملیکہ نےمختارصاحب سے پوچھا۔ ’’آپ نے اِنھیں سب بتا دیا ہے؟‘‘’’سب نہیں۔ یہ بات کرنے کا موقع ہی نہیں دے رہے ہیں۔‘‘’’اب بات کرلیجیے۔‘‘ ملیکہ نے کہا۔ پھر اُٹھتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔ ’’آپ کھانے میں کیا پسند کرتے ہیں؟‘‘’’مَیں جس طرح کی زندگی گزار رہا ہوں‘‘ مَیں نےجواب دیا۔ ’’اُس میں پسند، ناپسند کاسوال نہیں ہوتا۔ جو بھی، جہاں بھی مل جائے۔‘‘
مَیں نےاُسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’اور اِس وقت کھانا کھا چُکا ہوں۔ آپ میرے لیے تکلیف نہ کیجیے۔‘‘ ملیکہ بیٹھ گئی۔ کچھ دیرخاموشی رہی۔ پھر مَیں نے وہ سوال کیا، جو مجھے پریشان کررہا تھا۔ ’’آپ کا مکان بہت اچھا بنا ہے۔ کس نے بنایا ہے؟‘‘ ’’یہ ہماری امّی نے بنوایا ہے۔ شادی سے پہلے وہ جس مکان میں جایا کرتی تھیں، وہ اُنھیں بہت اچھا لگتا تھا۔
یہاں دھول بن میں جب ہمارے ابّو اُن کے لیے مکان بنوا رہے تھے تو امّی نے ان سے ویسا ہی مکان بنوانے کی فرمائش کی، اور اُس کا نقشہ جیسا اُن کو یاد تھا، اُنھیں بناکر دکھایا…‘‘اچانک وہ مجھے یاد آگئیں اور مَیں نے ملیکہ کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی پوچھ لیا۔’’معاف کیجیے، آپ کی والدہ کا نام زینت بیگم تو نہیں تھا؟‘‘ ’’آپ کو کیوں کر معلوم ہوا؟‘‘ ’’وہ اکثر ہمارے یہاں آکر مہمان رہا کرتی تھیں۔‘‘
ملیکہ نے مختار صاحب کی طرف دیکھا اور وہ بولے۔ ’’عجیب، عجیب!‘‘ ملیکہ نے مجھ سے پوچھا۔’’یہ کب کی بات ہے؟‘‘ ’’زمانے کا ٹھیک خیال نہیں، لیکن اُس وقت مَیں لڑکا سا تھا۔‘‘’’تو وہ آپ کو کیوں کر یاد رہ گئیں؟‘‘ ’’وہ میرا آندھی میں گھومنا بڑے شوق سے دیکھتی تھیں۔ باقی گھر کے لوگ مجھے روکتے تھے، ڈراتے بھی تھے، لیکن مَیں آندھی کے آثار نظر آتے ہی دوڑ کر اُن کو بتا دیتا تھا اور وہ کسی کھڑکی میں آکرکھڑی ہوجاتی تھیں۔
اُس وقت ہمارے شہر میں رنگین آندھیاں چلا کرتی تھیں۔ اُنھیں بھی شاید وہ آندھیاں اچھی لگتی تھیں۔‘‘ زینت بیگم بہت خاموش طبع اوراپنی بیٹی ہی کی طرح نازک اندام تھیں۔ وہ میری والدہ کو کسی سفر میں ریل پر ملی تھیں۔ میری والدہ میں کچھ ایسی بات تھی کہ خاندان بھرکے لوگ اور باہر والے بھی اپنے دُکھ درد ان کے سامنے کُھل کر بیان کردیتے تھے اور اُن کی غم خواری سے تسلی پاجاتے تھے۔
زینت بیگم کی زندگی میں بھی کچھ پریشانیاں تھیں۔ وہ جب ہمارے یہاں آتیں، تو دیر دیرتک ہماری امّاں سے اکیلے میں باتیں کرتی اور کبھی کبھی روتی تھیں۔ امّاں ان کو سمجھاتی بجھاتی تھیں اور وہ مطمئن ہو کر واپس جاتی تھیں۔ پھر کچھ دن تک اُن کے خط آتے رہتے تھے، جن میں وہ میرا ضرور پوچھتی تھیں اور رنگین آندھیوں سے میری دل چسپی کا بھی ذکر کرتی تھیں۔
مجھے وہ دن ایک ایک کر کے یاد آرہے تھے اور مَیں اُن میں گم ہو کر بھول چلا تھا کہ اِس وقت کہاں بیٹھا ہوں۔ اتنے میں ملیکہ نے مجھ سے پوچھا، ’’وہ آپ کے یہاں کب تک آتی رہیں؟‘‘’’میرا لڑکپن ہی تھا۔‘‘’’یہ سب میرے پیدا ہونے سے پہلے کی باتیں ہیں۔‘‘ ملیکہ نے اپنے آپ سے کہا۔ پھر اُٹھتے اُٹھتے مختار صاحب سےبولی۔ ’’یہ اپنے ہی آدمی ہیں۔
آپ اِنھیں سب بتا دیجیے۔‘‘ اور اُٹھ کراندر چلی گئی۔ مختار صاحب کچھ دیر چُپ بیٹھے رہے، پھر کہنے لگے۔’’سمجھ میں نہیں آتا، کہاں سےشروع کروں اور کیا کیا بتاؤں۔‘‘’’آپ کو جو کچھ یاد آتا جائے، بےتکلف بتائیے۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’ضرورت ہوگی توبیچ میں کچھ پوچھ لوں گا۔‘‘ اورمختار صاحب نے بتانا شروع کیا۔ ’’زینت بیگم میری بڑی بہن تھیں۔ (جاری ہے)