ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جہاں معاشرتی بےچینی کسی وبا کی طرح ہر سمت پھیلی ہوئی ہے۔ گھروں کی روشنیوں میں مدھم سا اندھیرا، چہروں کی مسکراہٹوں میں دبے ہوئے خوف، اور بازاروں کی رونقوں میں چھپی ہوئی تھکن… سب کچھ بتا رہا ہے کہ ہمارے دلوں کا موسم بدل چکا ہے۔ لوگ چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں مگر اندر سے ٹوٹے ہوئے، گفتگو ہوتی ہے مگر معنویت غائب، خواب دیکھے جاتے ہیں مگر حقائق کا بوجھ ان خوابوں کو چکنا چور کر دیتا ہے۔ یہ بےچینی محض معاشی یا سیاسی نہیں، یہ وہ اندرونی اضطراب ہے جو روح کی خاموش چیخ بن کر سماج کے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے۔
مہنگائی، بے روزگاری، غیر یقینی مستقبل، اداروں پر اعتماد کی کمی، معاشرتی عدم تحفظ،یہ سب عوامل بےچینی کے اس طوفان کو تیز کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم انصاف سے سوچیں تو اصل زخم کہیں اور ہے۔ انسان صرف جسم نہیں،روح بھی ہے۔ اور آج ہمارے معاشرے میں روح بھوکی ہے۔ اس بھوک کو ہم جدید لائف اسٹائل، سوشل میڈیا کی مصروفیت، مصنوعی کامیابیوں، یا وقتی خوشیوں سے نہیں بھر سکتے۔ جب روح کی پیاس بڑھتی ہے، دل بے چین ہوتا ہے، سوچ بوجھل ہوتی ہے، اور معاشرہ عدم اعتماد کے دائرے میں قید ہو جاتا ہے۔
قرآن نے اس بےچینی کا علاج بڑی سادگی اور وضاحت سے بیان کر دیا’’دل کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے۔‘‘یہ آیت صرف روحانی رہنمائی نہیں، ایک نفسیاتی حقیقت بھی ہے۔ انسان جب رب سے غافل ہو جاتا ہے تو دنیا کے شور میں اس کی ذات بکھر جاتی ہے۔ اور یہی بکھرا ہوا انسان جب معاشرے میں چلتا ہے توبےچینی کو آگے منتقل کرتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ معاشرے کی اصلاح دلوں سے شروع ہوتی ہے، گلیوں سے نہیں۔
روحانی علاج کا پہلا زینہ نماز ہے۔ نماز محض عبادت نہیں، ایک روحانی پناہ گاہ ہے۔ جب انسان سجدے میں جھکتا ہے تو دنیا کی تھکن، مایوسی اور بےچینی اس کے ماتھے سے بہہ کر زمین پر گر جاتی ہے۔ نمازی کے دل میں ایک مضبوطی پیدا ہوتی ہے، ایک ایسا اعتماد کہ کائنات کا مالک اس کے سامنے ہے۔ یہ وہ اعتماد ہے جو دنیا کی کوئی طاقت نہیں دے سکتی۔ نماز انسان کو وقت کے بکھراؤ سے بچاتی ہے، اسے باطن کی طرف لوٹاتی ہے اور اس کی سوچ کو منظم کرتی ہے۔نماز کے بعد ذکرِ الٰہی انسان کے باطن کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ آج انسان کے پاس سب کچھ ہے، سوائے دل کے سکون کے۔ صبح کے اذکار، شام کے وظائف، درود شریف کی معطر ہوا،یہ سب انسان کے دل کو نرمی اور روشنی دیتے ہیں۔ ذکر انسان کو دنیا کی بے ہنگم آوازوں سے نکال کر رب کی ذات سے جوڑ دیتا ہے۔
روحانی علاج کا تیسرا اہم پہلو تعلقِ مصطفیٰ ﷺ ہے۔ حضور ﷺ کی سیرت صرف تاریخ نہیں، آج بھی زندہ رہنمائی ہے۔ آپ ﷺ نے اضطراب میں صبر، سختیوں میں شکر، دشمنی میں معافی اور مشکل میں حسنِ اخلاق کی تعلیم دی،اور یہی وہ اصول ہیں جو کسی بھی معاشرے کو بےچینی سے نکال کر امن کی طرف لے جاتے ہیں۔ ہم نے یہ اخلاق کھو دیے ہیں، اسی لیے معاشرتی بےچینی نے ہم پر قبضہ کر لیا ہے۔ جب انسان حضور ﷺ کی سنت کو زندگی میں داخل کرتا ہے، تو اس کے دل میں ایسی گہرائی پیدا ہوتی ہے جو دنیاوی بے یقینی کو مات دے دیتی ہے۔
خدمتِ خلق بھی روحانی سکون کا دروازہ ہے۔ آج کا انسان تنہائی اور خودغرضی کے جنگل میں گم ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ خود کو بچانے کا واحد راستہ اپنی ذات کو مقدم رکھنا ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جو شخص دوسروں کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے، اللہ اس کے دل کے زخموں کو بھر دیتا ہے۔ کسی ضرورت مند کے لیے راشن، بیمار کی عیادت، غم زدہ کے لیے چند نرم الفاظ،یہ وہ چھوٹے اعمال ہیں جو معاشرے کی بےچینی کو کم کرتے ہیں اور انسان کے باطن کو روشن کرتے ہیں۔مراقبہ اور تنہائی کی چند لمحاتی کیفیت بھی اس بےچینی کے حصار کو توڑنے میں مدد دیتی ہے۔ آج ہر شخص ہر لمحہ شور میں گھرا ہے۔ فون، خبریں، سوشل میڈیا، بحث و مباحثےان سب نے انسان کو خود سے دور کر دیا ہے۔ چند منٹ خاموشی میں بیٹھ کر اللہ کی نعمتوں پر غور کرنا، اپنی کمزوریوں پر نظر ڈالنا، اور خود کو اللہ کے سامنے رکھ دینا،یہ مشق انسان کے اندر عجب ٹھہراؤ پیدا کرتی ہے۔
اور پھر سب سے اہم علاج،توکل ہے، بےچینی اس وقت بڑھتی ہے جب انسان نتائج کا مالک خود کو سمجھنے لگتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ ہر مسئلے کو وہی حل کرے گا۔ لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ حالات اس کی گرفت میں نہیں، تو اس کا دل بے چین ہو جاتا ہے۔ توکل اسے یہ یقین دیتا ہے کہ نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہیں، انسان کے ہاتھ میں صرف کوشش ہے۔ یہ یقین دل کو پوری کائنات کے شور میں بھی مطمئن رکھتا ہے۔
ہمارا معاشرہ اس وقت اندرونی و بیرونی بےچینی کا شکار ہے۔ لیکن اس بےچینی کا علاج باہر نہیں، اندر ہے۔ ہمیں اپنے گھروں میں قرآن کا نور، مساجد میں روحانی تربیت، بچوں میں اخلاق، اور اپنے دلوں میں اللہ کا ذکر بسانا ہو گا۔ یہی وہ راستہ ہے جو معاشرتی بےچینی کو کم کر کے سکون کی فضا پیدا کر سکتا ہے۔ یہی وہ چراغ ہے جو اس اندھیرے میں امید کی روشنی بن سکتا ہے۔ہر بے چینی کا علاج اللہ کی بارگاہ میں ہے،ہر درد کی دوا در مصطفی ﷺپر ہے،ہر پریشانی کا مداوا تلاوت قرآن میں ہے… بطور قوم ذرا رکیں،سانس لیں،روحانی علاج کی طرف متوجہ ہوں۔اللہ کے پاکباز بندوں سے رجوع کریں۔ آپ جتنا اللہ کے قریب ہونگے، دکھ، درد، پریشانی اور بےچینی آپ سے دور ہوگی۔