پاکستان کی برآمدات میں ٹیکسٹائل کا شعبہ تاریخی طور پر سب سے زیادہ حصہ ڈالتا آیا ہے اور یہ رجحان اب بھی برقرار رہے۔ اس کے باوجود عالمی فیشن انڈسٹری میں ہمارا شیئر نہ ہونے کے برابر ہے۔ واضح رہے کہ عالمی فیشن انڈسٹری کا مجموعی حجم تین ہزار ارب ڈالر سے زائد ہےجو کہ تین ارب 38 کروڑ سےزائد افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ تاہم عالمی فیشن انڈسٹری میں پاکستان کا شیئر ایک فیصد سے بھی کم ہے۔اس کے مقابلے میں پاکستان کی فیشن انڈسٹری تاحال تین بڑے شہروں کراچی ، لاہور اور اسلام آباد تک محدود ہے جبکہ زیادہ تر فیشن ڈیزائنرز بھی مقامی شوبز انڈسٹری کے لئے کام تک محدود ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کے بہت کم برانڈز ایسے ہیں جنہوں نے خود کو عالمی مارکیٹ میں متعارف کروایا ہے۔ اس حوالے سے اگر انڈسٹری میں کچھ برانڈز نے کام کیا ہے تو ان کی رسائی بھی مڈل ایسٹ کی مارکیٹ تک محدود ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں فیشن انڈسٹری کو تاحال ایک صنعت کا درجہ حاصل نہیں ہو سکا ہے جس کی وجہ سے اس شعبے میں آنے والے زیادہ تر افراد اسے بطور پروفیشن کی بجائے شوق کے طور پر اختیار کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس ایسے ماہرین کی تیاری کے ذرائع بھی انتہائی محدود ہیں جو کہ عالمی معیار کے مطابق فیشن انڈسٹری کے مختلف شعبوں کے لئے مصنوعات کی ڈیزائننگ، تیاری اور مارکیٹنگ کے لئے ضروری ہیں۔
اس سلسلے میں حکومتی سرپرستی میں چلنے والے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف فیشن اینڈ ڈیزائن لاہور کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ ادارہ تقریبا تین دہائیوں سے ملک میں فیشن اینڈ ڈیزائن کے شعبے میں بین الاقوامی معیار کے مطابق اعلیٰ مہارت کی حامل افرادی قوت کی فراہمی کا بڑا ذریعہ ہے۔ علاوہ ازیں اس ادارے نے قومی سطح پر فیشن انڈسٹری کی ترویج کے لئے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے علاوہ انڈسٹری اور اکیڈمیا سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ حال ہی میں اس ادارے کی جانب سے لاہور میں پہلی بین الاقوامی ڈیزائن کانفرنس 2025 فیشن اینڈ گلوبل ٹریڈ اس سفر میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس بین الاقوامی کانفرنس میں مجھے بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ادارے نے مکالمے اور علم کے تبادلے کو فروغ دینے کی اپنی دیرینہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے فیشن اور ڈیزائن کے بدلتے ہوئے منظر نامے پر عالمی تناظر میں ایک اہم ایونٹ کا انعقاد کیا۔ اس ادارے کے باصلاحیت طلبہ، ماہرین اور فیکلٹی ممبران پہلے ہی پاکستان کے تخلیقی اور تعلیمی ماحولیاتی نظام کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ تاہم عالمی کانفرنس کے انعقاد کا یہ اقدام عالمی ڈیزائن کمیونٹی میں پاکستان کی موجودگی کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس سے نہ صرف پاکستان میں فیشن اور ڈیزائن کی دنیا میں جدت، تعلیم اور بین الاقوامی شمولیت کو فروغ ملے گا بلکہ ہمیں اپنی برآمدات کو بڑھانے کا بھی موقع میسر آئے گا۔ واضح رہے کہ ٹیکسٹائل کی عالمی برآمدات میں اس وقت ہمارا حصہ تقریبا پانچ سے سات فیصد تک محدود ہے۔ اس میں اضافے کے لئے ہمیں فیشن انڈسٹری کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل برآمدات میں نٹ وئیر، اپیرل اور سپیشلائزڈ فیبرک کا شیئر بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان کی ٹیکسٹائل میڈاپس کی برآمدات میں ہوزری نٹ وئیر کا شیئر 37 فیصد سے کم ہو کر 14 فیصد، ریڈی میڈ گارمنٹس کا شیئر 29 فیصد سے کم ہو کر 16 اور بیڈ وئیر کا شیئر 24 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد پر آ چکا ہے ۔ اس لئے اگر ہم اپنے ڈیزائنز میں جدت اور میٹریل میں بہتری لانے کے لئے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کرنے کے علاوہ فیشن انڈسٹری کو فروغ نہیں دیں گے تو عالمی مارکیٹ میں ہماری ٹیکسٹائل برآمدات کا شیئر مزید کم ہوتا جائے گا۔
ٹیکسٹائل برآمدات کا حجم بڑھانے کے لئے فیشن اینڈ ڈیزائن کے شعبے پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ ان میں ویلیو ایڈیشن کیلئے بھی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں سرمایہ کاری ضروری ہے۔ اس پالیسی کا طویل المدت فائدہ یہ ہو گا کہ اگر پاکستان اسپیشلائزڈ فیبرک یا مصنوعات تیار کر رہا ہو گا تو عالمی کساد بازاری یا پیداواری لاگت میں اضافے اور دیگر وجوہات کے باوجود پاکستان کی برآمدات کم ہونے کی بجائے مزید بڑھیں گی۔ اس سلسلے میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف فیشن ڈیزائن کوکلیدی کردار دینے کی ضرورت ہے۔ یہ ادارہ گزشتہ تین دہائیوں سے فیشن ڈیزائننگ، ٹیکسٹائل ڈیزائننگ، جیولری ڈیزائننگ، جیمالوجیکل سائنس، فرنیچر ڈیزائننگ، مینوفیکچرنگ، چمڑے کی اشیا، شو فیشن اور فیشن مارکیٹنگ سمیت دیگر شعبوں میں ہزاروں طلبہ کو ڈگری دے چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس طرح کے ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ فیصل آباد ایک ٹیکسٹائل سٹی ہے تو یہاں پر عالمی معیار کے مطابق ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ اور فیشن ڈیزائننگ کے اداروں کا قیام انتہائی ضروری ہے۔ علاوہ ازیں عالمی سطح پر معروف فیشن ڈیزائننگ کے اداروں سے مقامی یونیورسٹیوں کے الحاق اور جوائنٹ وینچرز بھی کئے جا سکتے ہیں جس سے ہمارے طلبہ کو آدھا کورس پاکستان اور آدھا بیرون ملک جا کر مکمل کرنے کا موقع ملے گا اور ان کے پاس انٹرنیشنل ڈگری کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل ایکسپوژر بھی ہوگا ۔ اس سلسلے میں پاکستانی فیشن ڈیزائنرز کو عالمی سطح پر اہم نوعیت کے فیشن شوز میں شرکت کیلئے بھی معاونت فراہم کی جانی چاہیے تاکہ انہیں آرڈرز کے حصول کیلئے عالمی گاہکوں سے تعلق استوار کرنے کا موقع مل سکے ۔اس سلسلے میں بزنس کمیونٹی کو بھی آگے آناچاہئے کیونکہ حکومت معاونت فراہم کر سکتی ہے لیکن جب تک نجی شعبہ فیشن اور ڈیزائن کے شعبے میں ریسرچ اور ڈویلپمنٹ پر سرمایہ کاری نہیں کرے گا فوری نتائج کا حصول ممکن نہیں !