• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ کے سندھ سے متعلق غیرذمہ دارانہ بیان سے ہر محب وطن پاکستانی سندھی ہندو سراپا احتجاج ہے، نئی دہلی میں منعقدہ ایک نام نہاد سندھی سماج سمیلن تقریب سے خطاب میں بھارتی وزیرِ دفاع کا سندھ کو دوبارہ بھارت کا حصہ بنانے کی خواہش کا اظہار نہ صرف تاریخ سے لاعلمی کانتیجہ ہے بلکہ ہندو مذہبی تعلیمات کے بھی برعکس ہے۔ آج پاکستان کے صوبے سندھ کی جس دھرتی میں ہم سانس لیتے ہیں، اسکا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں کیا جاتا ہے، بلاشبہ ہندو مذہبی روایات، قدیم شاستروں اور ویدوں میں سندھ کا نام نہایت احترام، تقدس اور تاریخی عظمت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، رِگ وید میں سات بڑے دریاؤں کا ذکر موجود ہے جن میں سب سے پہلے سندھو کا نام لیا گیا ہےاور اسے نہروں اور دریاؤں کی ماں کہا گیا ہے، ویدی دور میں دریائےسندھ کو طاقتور، مقدس اور مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔ مہابھارت میں سندھ کے سپاہیوں کی بہادری کا تذکرہ ہے، رامائن میں بھی سندھ کو ایک سرحدی اور تجارتی علاقے کے طور پر بیان کیا گیا ہے، دیگرہندو مذہبی کتابوں اورشاستروں میں سندھ کا ذکر پانی سے مالامال زرخیز سرزمین، تجارت اور تہذیب کے گڑھ،علم و ہنر کی دھرتی ،مہمان نوازی اور انسان دوستی کے طور پر پایا جاتا ہے۔ سندھ دھرتی کی پہچان تھرپارکر اپنی عظیم صحرائی خوبصورتی، مذہبی آزادی اور ہزاروں سال پر پھیلی تاریخ کے باعث اپنی مثال آپ ہے،تاہم ہندو برادری کیلئے یہ عظیم ریگستان روحانی، تاریخی اور تہذیبی تقدس کا حامل ہے، تھرپارکرعلم،ہنراور پاکیزگی کی علامت سرسوتی تہذیب اور سناتن دھرم کے عظیم مراکز میں سے تھا،ایک زمانے میں سرسوتی کا پانی تھر کے ریگستان میں بہتا تھا۔ مذہبی طور پر ہندو دھرم کے ماننے والوں کی نظر میں سندھ ایک مقدس دریا،ایک سرسبز دھرتی، ایک قدیم تہذیب ،ایک ثقافتی شناخت ضرور ہے لیکن تاریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ جغرافیائی طور پر سندھ (موجودہ پاکستان کا صوبہ) اور ہند(موجودہ بھارت)کے خطےکی شناخت کبھی ایک نہ رہی اور نہ ہی کبھی سندھ زمانہ قدیم کی کسی بڑی ہندو راشٹرسلطنت بشمول مگدھ، موریہ، گپتا، راجپوت یا جنوبی ہند کے حکمرانوں کے ماتحت رہا، سندھ دھرتی پر ہمیشہ مقامی راجاؤں، راجپوت خاندانوں اور مقامی سرداروں کا راج رہا، عرب فاتح محمد بن قاسم کی آمد کے موقع پر بھی سندھ ایک آزاد ریاست تھاجسکا دارالحکومت اروڑ تھا، راجا داہر کے دورِ حکومت میں سندھ کا اپنا انتظام سفارت، معیشت اور دفاع تھا، راجہ داہر ہند خطے کے کسی دوسرے بڑے ہندو حکمران یا سلطنت کو جواب دہ نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ اس زمانے کے لٹریچر میں بھی عربوں کی عسکری کامیابی کو ہند نہیں بلکہ سندھ کی فتح قرار دیا گیا ، محمد بن قاسم نے سندھ کا کنٹرول سنبھالتے ہی اعلان کیا کہ سندھ کے لوگ ہمارے بھائی ہیں، انہیں امن و انصاف ملے گا، عرب سپہ سالار نے مندروں، پجاریوں اور مذہبی رسومات کو مکمل تحفظ دیا،ہندو تاجر اور کاشتکاروں کو بغیر کسی مداخلت کے اپنا کام جاری رکھنے کی اجازت دی، سندھ کی انتظامیہ میں ہندوؤں کو سرکاری عہدوں پر برقرار رکھا گیا، محمد بن قاسم کے اعلیٰ اخلاق نے سندھ بھر کے ہندوؤں کے دِل ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جیت لئے،آج بھی سندھی ہندوؤں کی نظر میں عرب حکمرانوں کے زمانے کو امن اور مذہبی آزادی کا سنہری دور سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سندھ کی ہندو کمیونٹی کے عربوں کے ساتھ دوطرفہ تعلقات عدل و انصاف ،تجارت و ترقی ،مذہبی آزادی اورثقافتی رواداری کی مضبوط بنیادوں پر پروان چڑھے جو آج بھی مشرق وسطیٰ کے ممالک سے قائم و دائم ہیں اور ہندو کمیونٹی کی بڑی تعداد مڈل ایسٹ میں رہائش پذیر ہے۔ بطور پاکستانی محب وطن سندھی ہندومیں بھارتی وزیردفاع کے گمراہ کُن بیان کے بعد عام ذہنوں میں پنپنے والےالفاظ سندھ اور ہند کا مغالطہ دور کرنا بھی اپنا قومی فریضہ سمجھتا ہوں،یہ دونوں الفاظ بظاہر ایک جیسے لگتے ہیں، لیکن حقیقت میں دونوں کی جڑیں، معانی، تاریخی پس منظر اور جغرافیائی حدود ایک دوسرے سےبالکل الگ ہیں،سندھ ایک عظیم دریا اور اسکے کنارے موجودہ پاکستان کا خطہ ہےجبکہ ہندانگریز کی آمد سے قبل سندھ کے مشرق میں واقع مختلف ریاستوں راجواڑوں میں منقسم سرزمین کا نام ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ سندھ کا لفظ اصل میں سنسکرت کے لفظ سندھوسے نکلا ہے جس کا مطلب بڑی ندی، عظیم دریا ہے اور یہ نام صرف ایک دریا تک محدود نہیں تھا، بلکہ دریائے سندھ کے کنارے پورے خطےکی تہذیب، یہاں کی زبان، یہاں کے لوگ، سب کے سب سندھو ہیں، اہلِ فارس نےحرف ’’س‘‘کو’’ہ‘‘ سے بدل کر ہندو کردیا اور یونانیوں نے ہندو کو انڈس بنا دیا اور پھرسندھ کے پڑوس کیلئے انڈیا/ہندوستان/ہند جیسی لسانی اصلاحات روشناس ہوئیں، تاہم سندھ ماضی میں کبھی کسی ہندو راشٹر/ اکھنڈ بھارت یا ہندخطے کے زیرسایہ نہ رہا بلکہ انگریز سامراج نے جب سندھ کو بمبئی پریزیڈنسی کا حصہ بنایا تو بانی پاکستان قائداعظم نے شہرہ آفاق چودہ نکات میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کا مطالبہ کردیا، قائداعظم کے اس مطالبے کو متعدد سندھی ہندو لیڈران کی جانب سے بھرپورپذیرائی ملی۔ میرے موقف کی تائید سندھ کی ہزاروں سالہ قدیم انڈس تہذیب، موہن جو داڑو اورہڑپہ کے آثارقدیمہ سے بھی ہوتی ہے جنکا تعلق بھارت یا ہندوستان سے نہیں بلکہ اس عظیم صوبےکی تہذیب سے بتایا جاتاہے جو آج پاکستان کا حصہ ہے ۔میری نظر میں بھارتی وزیر دفاع کا یہ کہنا کہ سندھ دوبارہ بھارت کا حصہ بن سکتا ہے، اس لحاظ سے خلاف حقائق ، بے بنیاد اور گمراہ کُن ہے کہ سندھ کبھی ماضی میں بھارت یا قدیمی ہند کا حصہ رہا ہی نہیں تو پھر اب دوبارہ واپسی کی باتیں پاکستانی سندھی ہندووؤں کی نظر میں بچگانہ،بے وقوفانہ اور احمقانہ ہیں۔ سندھ کے محب وطن ہندو پاکستان سے بے لوث محبت کرتے ہیں اور ہمارے بڑوں نے بانی پاکستان قائداعظم کی یقین دہانی پر پاکستان کو اپنی دھرتی ماتا بنایا ، یہی وجہ ہے کہ آج ہم بھارتی وزیردفاع کے اپنی دھرتی ماں سے متعلق غیرذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان زندہ باد...!

تازہ ترین