• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

80ء کی دہائی تک افغانستان ترقی پسندانہ سماج کی عملی تصویر تھا۔ جہاں مرد و خواتین کو یکساں حقوق حاصل تھے اور سماجی ترقی میں وہ برابر کے شریک تھے۔ خواتین کو تعلیم کیساتھ ساتھ ہر قسم کی سماجی و ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی مکمل آزادی حاصل تھی، انکے لباس، رہن سہن حتیٰ کہ ان پر کسی قسم کی معاشرتی پابندیاں نہیں تھیں۔ ان دنوں افغانستان سماجی و ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز تھا، کابل میں تھیٹر اور سینما گھروں کی بڑی تعداد تھی۔ سوویت یونین کے انخلا کے بعدمجاہدین کے مختلف دھڑوں نے افغان سماج کی ترقی پسندی اور سماجی آزادی پر کاری ضربیں لگائیں۔ لڑکیوں کے تعلیمی ادارے بند ہونا شروع ہوئے، اقلیتوں پر مظالم بڑھنے کے ساتھ ساتھ عقائد کی تعمیل کا سخت نفاذ شروع ہوا جس سے بتدریج افغان سماج تنزلی کا شکار ہوتاچلا گیا۔سوویت یونین سے جنگ کے دوران افغانوں کی بڑی تعداد نے پاکستان کی سرزمین کا رخ کیا اور پاکستان نے بھی غیر معمولی شفقت و انس کا مظاہرہ کرتے ہوئے تین ملین سے زائد افغان مہاجرین کو نہ صرف پناہ دی بلکہ طالبان کو بھی ہر طرح کے وسائل مہیا کرنے کیساتھ ساتھ دنیا بھر کے دیگر ممالک کو بھی ان کی مدد پر آمادہ کیا۔ افغانستان پر مجاہدین کے قبضے اور مہاجرین کی آمد نے دونوں ممالک کے سماج پر گہرے اثرات مرتب کئے جس نے دونوں سرزمینوں پر قدامت پسندی کی سوچ کو پروان چڑھایا اور ساتھ ہی کلاشنکوف کلچر اور منشیات کو بھی فروغ دیا۔

تاریخ شاہد ہے کہ افغانستان میں جو سماجی تنزلی آج دیکھنے کو مل رہی ہے جس میں خاص طور پر خواتین کے ساتھ بہیمانہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس میں پاکستان اور امریکہ بھی برابر کے حصہ دار ہیں۔ امریکہ کے انخلاکے بعد افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کی کھل کر مدد کرنا شروع کر دی جس نے خاص طور پر خیبر پختون خوا میں دہشت گردی میں بے انتہا اضافہ کیا۔ یوں ان تباہ کاریوں کے بعد پاکستانی حکام پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور دونوں مل کر پاکستان اور اس خطے کو اپنے نظریاتی اثر و رسوخ میں لانا چاہتے ہیں۔طالبان کے اس قبضے نے افغان خواتین کی زندگیوں پر بہت گہرے و برے اثرات مرتب کئے، ان کے تعلیمی ادارے بند ہو گئے جس سے نہ صرف ان کی سماجی زندگی مکمل طور پرمفلوج ہو گئی بلکہ انکا مستقبل بھی تاریکی کی نذر ہو گیا۔ طالبان کی دہشت سے بچنے کیلئے بہت ساری خواتین نے پاکستان، ایران اور دیگر ممالک کا رخ کرنے کے ساتھ ساتھ یورپ او ر امریکی ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں۔تاہم اسلام آباد اور کابل کے درمیان حالیہ کشیدگی میںبے انتہا اضافے کی وجہ سے حکومت پاکستان نے افغان شہریوں کے ساتھ ساتھ ان خواتین کو بھی ملک بدر کرنے کااعلان کر دیا ہے۔حال ہی میں واشنگٹن ڈی سی میں دو نیشنل گارڈ اہلکاروں پر ایک افغان مشتبہ شخص کی جانب سے فائرنگ کے واقعےنے ٹرمپ کو یہ سنہری موقع فراہم کیا ہے کہ وہ افغان پناہ گزینوں اور دیگر تارکین وطن کی درخواستیں روک دیں جس سے سب سے زیادہ نقصان افغان خواتین کا ہو گا جو نہ پاکستان رہ سکتی ہیں اور نہ ہی افغانستان واپس جا سکتی ہیں۔

صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ایسے تمام تارکین وطن کو امریکا سے دور رکھنا چاہتے ہیں جو امریکہ میں امن کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور جو مغربی تہذیب سے بھی ہم آہنگ نہیں۔ مگر وہ یہ فیصلہ کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ 80ء کی دہائی میں امریکہ کی سی آئی اے نے ہی دنیا بھر سے مذہبی جنگجوئوںکو بغیر کسی دستاویزات کے افغانستان میں دھکیلا تھا۔لیکن اپنے مفادات کے حصول کے بعد امریکہ نے ان فاتح مجاہدین کواسلحہ سمیت وہیں چھوڑ دیا جس کا خمیازہ خاص طور پر افغانستان کی خواتین نفرت، فرقہ واریت اور دہشت گردی کی شکل میں بھگت رہی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض افغان پناہ گزین اور عورتیں چالیس سال سے زائد عرصے سے پاکستان میں آباد ہیں لہٰذا تمام افغان تارکین وطن کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا اقوام متحدہ اور عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی۔یہ وہ خواتین ہیں جنہوں نے اپنے سماج میں عدم تشدد کے علم کو اٹھائے رکھا، اگر یہ افغانستان واپس گئیں تو انہیں قید، تشدد اور موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ افغان خواتین اس وقت شدید مایوسی کا شکار ہیں کیونکہ ایک طرف بین الاقوامی برادری انہیں کوئی محفوظ راستہ فراہم نہیں کر رہی اور دوسری طرف صدر ٹرمپ نے بھی ایک فوری فیصلے کے ذریعے انکی امریکی امیگریشن پر پابندی عائد کر دی ہے۔یاد رہے کہ جو خواتین پہلے ہی افغانستان واپس بھیجی جا چکی ہیں وہ انتہائی اذیت ناک حالت میں زندگی گزار رہی ہیں اورانکی بچیاں بھی تعلیم نہیں حاصل کر پا رہیں۔طالبان انہیں امریکی اتحادی قرار دیتے ہیں کیونکہ ان میں سے بہت سی خواتین نے غیر سرکاری تنظیموں یا ثقافتی سرگرمیوں اور تعلیم کے محکموں میں کام کر رکھا ہے۔ ان میں سے کچھ خواتین نے سرکاری دفاتر اور سابق افغان پارلیمان میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔ طالبان ان خواتین سے خائف ہیں کہ کہیں یہ دوسری افغان خواتین پر اثر انداز ہو کر عورتوں کے حقوق کی تحریک نہ شروع کر دیں۔ اسی لیے افغان طالبان ان خواتین کو جسمانی و ذہنی اذیت پہنچانے کیلئے مسلسل پرتشدد حربے استعمال کرتے رہے ہیں۔

آج حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان، افغانستان میں ترقی پسند اور تعلیم یافتہ افراد کیساتھ اپنا اتحاد بنائے اور ایسی خواتین جنہوں نے طالبان کی جابرانہ حکمرانی کیخلاف افغان خواتین کی حالت زار سے مسلسل عالمی برادری کو آگاہ رکھا انکی حفاظت کو یقینی بنائے اور جب تک انہیں محفوظ ممالک میں پناہ نہیں مل جاتی اس وقت تک بین الاقوامی اصولوں اور معاہدوں کی رو سے انہیں تحفظ فراہم کرے۔

تازہ ترین