پاکستان کی سیاست میں کچھ فیصلے ایسے ہوتے ہیں جن کا اثر اگلے چند ہفتوں یا مہینوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ آنیوالے برسوں تک انکی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بطور چیف آف ڈیفنس فورسز تعیناتی بھی ایسا ہی فیصلہ ہے۔ ایوانِ صدر کی جانب سے نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد کئی روز سے جاری قیاس آرائیاں، افواہیں اور سوشل میڈیا کا پراگندہ دھواں ایک جھٹکےمیں چھٹ گیا۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جس نے ثابت کیا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے نہ صرف اپنے منصب کا اعتماد حاصل کیا بلکہ اس ذمہ داری کے لائق ہونے کا عملی ثبوت بھی فراہم کیا۔پاکستان کی تاریخ میں سول ملٹری تعلقات ہمیشہ ایک حساس موضوع رہے ہیں۔ بعض اوقات غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، کبھی افواہوں نے ماحول دھندلا کر رکھا، اور کبھی سیاسی بیانیے نے ریاستی اداروں کے کردار کو مشکوک بنانے کی کوشش کی۔ تاہم اس تعیناتی نے برسوں سے جاری اس ذہنی انتشار پرخطِ تنسیخ پھیر دیا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف آئینی تقاضوں کے مطابق ہوا بلکہ ریاست کے مختلف ستونوں کے درمیان اعتماد کے ایک نئے دور کی شروعات کا تاثر بھی دے گیا۔ پہلی بار ایسا لگا کہ ملک استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اس وقت اپنے دونوں ہمسایوں بھارت اور افغانستان کے ساتھ تناؤ کے دور سے گزر رہا ہے۔ مشرقی سرحد پر بھارت کیساتھ حالیہ کشیدگی، جنگ جیسے حالات، لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات اور بھارت کے اندرونی سیاسی حالات نے صورتحال کو مزید حساس بنا دیا ہے۔ ایسے ماحول میں دفاعی قیادت کا مضبوط اور واضح ہونا انتہائی اہم تھا، اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اپنی حکمت عملی اور تحمل مزاجی سے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف اس منصب کے حقدار ہیں بلکہ خطے کے بدلتے حالات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔دوسری طرف افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیاں، انکی پاکستان میں کارروائیاں، اور کابل انتظامیہ کا غیر سنجیدہ طرز عمل مسلسل تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ پاکستان نے ایک بار پھر واضح کر دیا کہ سرحد پار سے ہونیوالے حملے کسی صورت برداشت نہیں ہونگے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو چیف آف ڈیفنس فورسز کا کردار صرف عسکری قیادت تک محدود نہیں رہتا بلکہ قومی سلامتی، سفارتی حکمت عملی اور داخلی استحکام میں بھی انکا عملی اور فکری کردار اہم ہے۔ افغانستان کے ساتھ جھڑپوں میں جس انداز میں ردعمل دیا گیا، وہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ پاکستان اب غیر ضروری تحمل یا یکطرفہ صبر کے بجائے ایک متوازن اور مضبوط پالیسی کی طرف بڑھ رہا ہے۔اسی دوران تحریک انصاف نے ایک بار پھر وہی روش اختیار کی جو پچھلے چند برسوں سے اس جماعت کا خاصہ ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تعیناتی جیسے سنجیدہ اور قومی نوعیت کے معاملے کو بھی پارٹی کے اندر موجود مخصوص سوچ کے حامل گروہ نے متنازع بنانے کی کوشش کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کئی بڑے یوٹیوبرز نے وہی نکتہ اٹھایا جو بھارتی میڈیا مسلسل پیش کر رہا تھا۔ یہ ایک عجیب سا منظر تھا جیسے دونوں جانب یکساں بیانیہ چل رہا ہو، صرف زبان بدل جائے۔ یہ سیاسی نابالغی نہیں بلکہ بدقسمتی ہے کہ ایک ایسی نازک گھڑی میں جب ملک کو اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت تھی، تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر اپنی تنقیدی سیاست کو ریاست سے بالا تر رکھا۔نتیجے میں پی ٹی آئی نہ صر ف منظر سے آؤٹ ہوگئی بلکہ اپنا سیاسی نقصان بھی خود اپنے ہاتھوں مزید گہرا کر بیٹھی۔گزشتہ ہفتے وزیرِ داخلہ محسن نقوی سے ہونیوالی غیر رسمی ملاقات میں جب اس معاملے پر بات ہوئی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ نوٹیفکیشن کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ، بس چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کیا گیا۔ اس ایک جملے نے پورے منظر کو واضح کر دیا۔ واقعہ جیسا تھا ویسا نہیں تھا، جو دکھایا جا رہا تھا وہ اصل نہیں تھا۔ حقیقت کہیں زیادہ سادہ، واضح اور مطمئن کرنیوالی تھی۔ نتیجتاً جب اصل نوٹیفکیشن آیا تو ہر وہ شخص خاموش ہو گیا جس نے اپنی خواہشات کو تجزیہ بنا کر بیچنے کی کوشش کی تھی۔اب صورتحال یہ ہے کہ ملک کے اندرونی معاملات میں ایک نئی ترتیب، ایک نیا توازن اور ایک نیا اعتماد پیدا ہو رہا ہے۔ دفاعی قیادت نے اپنی ذمہ داریوں کا اثر انگیز انداز میں آغاز کر دیا ہے، سول حکومت اپنی آئینی حدود میں مضبوط دکھائی دے رہی ہے، اور ریاستی اداروں کے درمیان اعتماد کا ایک ماحول قائم ہو رہا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسکی کمی پچھلے کئی برسوں سے محسوس کی جا رہی تھی۔ملک اب واقعی آگے بڑھنے کی پوزیشن میں ہے، مگر اس کیلئے صرف دفاعی استحکام کافی نہیں۔ اب حکومت پر بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ملک کے اندر جاری معاشی مسائل پر فوری توجہ دے۔ مہنگائی آج بھی عوام کیلئے سب سے بڑا عذاب ہے۔ ریاست مضبوط ہو رہی ہے، ادارے ایک صفحے پر آ رہے ہیں یہی وہ ماحول ہے جس میں معاشی اصلاحات آگے بڑھ سکتی ہیں۔اب ضرورت اس سیاسی پختگی کی ہے جس کا پاکستان کو برسوں سے انتظار تھا۔ اگر یہ موقع ضائع نہ کیا گیا اور حکومت نے ملک کے اندرونی مسائل پر سنجیدگی سے کام کیا تو واقعی پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہو سکتا ہے۔ وہ دور جس میں سیاسی استحکام، معاشی بہتری اور خطے میں مضبوط سفارتی موجودگی ایک ساتھ چل سکتی ہے۔
ملک ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں سے یا تو ترقی کا سفر شروع ہو سکتا ہے یا پھر سیاسی لڑائیوں اور بے اعتمادی کا سلسلہ ایک بار پھر ہمیں پیچھے دھکیل سکتا ہے۔ مگر اس بار امید زیادہ ہے۔ وجہ صرف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تعیناتی نہیں، بلکہ وہ سیاسی اور ریاستی ہم آہنگی ہے جس کے آثار اب واضح ہونے لگے ہیں۔حکمران سنجیدگی دکھائیں تو واقعی پاکستان آگے بڑھ سکتا ہے اُس جگہ تک جہاں عوام کو محسوس ہو کہ ریاست صرف اعلان نہیں کرتی، عمل بھی کرتی ہے۔