• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم پاکستانی بھی عجیب قوم ہیں۔ ایک لمحہ کسی لیڈر کو آسمان پر بٹھاتے ہیں، دوسرے لمحے اسے زمین پر لاتے ہوئے خاک چٹواتے ہیں۔ پھر کچھ عرصہ گزرتا ہے تو وہی لیڈر دوبارہ ہماری امیدوں کا مرکز بن جاتا ہے۔ شاید ہماری سیاسی یادداشت کی یہی’’ری سیٹ‘‘خصوصیت ہے کہ ہر چند سال بعد وہی سوال، وہی بحث اور وہی چہل پہل دوبارہ زندہ ہوجاتی ہے۔ انہی سوالات میں سے ایک پرانی لیکن ہمیشہ تازہ رہنے والی بحث یہ ہے۔یہ سوال بظاہر نہایت سادہ ہے، لیکن اس میں پاکستانی سیاست کی پوری تاریخ چھپی ہوئی ہے۔

اس پر سوچتے ہوئے مجھے اپنے ایک دوست کی بات یاد آتی ہے جو ہمیشہ کہا کرتا ہے: ’’بھائی، سیاست میں جماعتیں کم اور شخصیات زیادہ چلتی ہیں۔‘‘ اور شاید یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں بڑی سیاسی جماعتیں مضبوط اداروں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں، مگر پاکستان میں سیاسی جماعتیں اکثر شخصیت کی مرضی اور مزاج کے گرد گھومتی رہی ہیں۔

مسلم لیگ ن کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ لوگ جب ’’نون لیگ‘‘ کہتے ہیں تو فوراً ذہن میں نواز شریف کا چہرہ آتا ہے، وہی اندازِ گفتگو، وہی مخصوص ٹھہراؤ، وہی سیاسی بیانیہ۔ گویا پارٹی کا نام سنتے ہی پورا المیہ اور کامیابیاں ایک ہی شخصیت سے جڑ جاتی ہیں۔ لیکن سوال پھر بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا واقعی ایک جماعت کا وجود صرف ایک شخصیت کے دم سے ہے؟ایک روز کسی محفل میں یہی بحث چھڑ گئی۔ ایک دوست نے میز پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا، ’’بھائی، نون لیگ تو تب بنی جب اس کے نام میں ’نون‘ شامل ہوا۔ اور نون کسے کہتے ہیں؟ نواز شریف کو!‘‘میں نے مسکرا کر کہا، ’’بھئی، اگر بات حرفوں کی کریں تو پھر ہر سیاسی جماعت کو اپنا نام اپنے لیڈر کے پہلے حرف پر رکھ دینا چاہیے۔‘‘ مگر اسے میری دلیل میں مزاح کم اور سنجیدگی زیادہ نظر آئی، اس لیے محفل نے جلد اسے ’’موضوعِ غیر ضروری‘‘ قرار دے کر بدل دیا۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ نون لیگ کی شناخت نواز شریف سے جدا نہیں کی جاسکتی۔ اسکی وجہ صرف یہ نہیں کہ نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ پارٹی کا ہر بڑا موڑ، ہر سیاسی فیصلہ اور ہر مشکل وقت براہِ راست اُن ہی کے نام سے جڑا ہوا ہے۔

چاہے وہ 1999کی معزولی ہو یا جلاوطنی، چاہے 2017 کی نااہلی ہو یا 2024 کی خاموشی،نون لیگ کا بیانیہ ہمیشہ نواز شریف کی ذاتی سیاسی کہانی سے بنتا اور بگڑتا رہا ہے۔لیکن اگر ہم پوری تصویر دیکھیں تو مسلم لیگ ن ایک بڑے سیاسی دھارے کا نام بھی ہے۔ ایک ایسا دھارا جس میں لاکھوں کارکن ہیں، ہزاروں ورکرز، درجنوں رہنما، اور کئی سیاسی دھڑے شامل ہیں۔ اگر کل صبح نواز شریف سیاست چھوڑنے کا اعلان بھی کر دیں،فرض کر لیں کہ ایسا ہوجاتا ہے،تو کیا پارٹی ختم ہو جائے گی؟ میرا خیال ہے نہیں۔ ہاں، کمزور ہوجائے گی، شاید چند سال کیلئے منتشر بھی ہوجائے، مگر مکمل طور پر مٹ نہیں سکتی۔ اس لیے کہ سیاسی جماعتیں دراصل عوامی مزاج کی عکاس ہوتی ہیں، اور عوام کسی نہ کسی شکل میں اس جماعت کو زندہ رکھتے ہیں۔لیکن اس کے باوجود یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نون لیگ کا جذباتی اور سیاسی مرکز نواز شریف ہی ہیں۔ وہی پارٹی کا سب سے مقبول چہرہ ہیں۔ لوگ آج بھی جلسوں میں اُن کے نام کے نعرے لگاتے ہیں۔ اُن کا بیانیہ آج بھی کارکنوں کو متحرک کر دیتا ہے۔

اور شاید یہی وجہ ہے کہ پارٹی کی قیادت وقتی طور پر کسی اور کے پاس ہو، مگر نظریاتی مرکز ہمیشہ نواز شریف کے گرد ہی گھومتا ہے۔ یہ رشتہ دونوں طرف سے بھی ہے۔ جیسے نون لیگ نواز شریف کے بغیر ادھوری ہے، ویسے ہی نواز شریف بھی اپنے سیاسی وجود کیلئے نون لیگ کے پلیٹ فارم کے بغیر مکمل نہیں۔ سیاست کسی تنہا مسافر کا سفر نہیں، اس میں کارکنوں کی طاقت، عوام کا اعتماد اور جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ، سب اہم ہوتے ہیں۔ نون لیگ نے نواز شریف کو وہ پلیٹ فارم دیا جس پر وہ آج کھڑے ہیں، اور نواز شریف نے اس پلیٹ فارم کو وہ قوت دی جس پر نون لیگ آج بھی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعتوں میں شمار ہوتی ہے۔

میری نسل نے پاکستانی سیاست کو کئی زاویوں سے دیکھا ہے۔ مارشل لا بھی دیکھا،بحالیِ جمہوریت بھی، عدالتی فیصلے بھی، سڑکوں پر مارچ بھی، اور سیاستدانوں کی واپسی اور پھر رخصتی بھی۔ اس تمام تماشے میں ایک بات ضرور سیکھنے کو ملی کہ پاکستان میں سیاست کبھی کتابی اصولوں پر نہیں چلتی۔ یہاں ایک لیڈر پارٹی کا نام بن جاتا ہے اور پارٹی اُس لیڈر کی پہچان۔ نون لیگ اور نواز شریف کا رشتہ بھی کچھ ایسا ہی ہے،ایک دوسرے سے جڑا ہوا، ایک دوسرے کا محتاج اور ایک دوسرے کے بغیر نامکمل۔یہ سوال کہ دونوں ایک ہیں یا نہیں، شاید منطقی لحاظ سے مختلف جواب رکھتا ہے، مگر عوام کی نظر میں دونوں ایک ہی ہیں۔ عوام دل سے فیصلہ کرتے ہیں، اور دل فیصلہ کرے تو دلیلیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔

آخر میں یہی کہوں گا کہ سیاسی جماعتیں شخصیات سے بڑی ہونی چاہئیں، مگر ہماری سیاست کا مزاج بھی کچھ کم دلچسپ نہیں۔ یہاں ہر چیز میں انسانی رنگ، ذاتی کہانی اور جذباتی وابستگی شامل ہوتی ہے۔ اسی لیے مسلم لیگ ن اور نواز شریف کو الگ الگ خانوں میں رکھ کر دیکھنا شاید ممکن تو ہو، مگر فطری نہیں۔کیونکہ حقیقت یہی ہے:نون لیگ وہی ہے جو نواز شریف ہیں، اور نواز شریف وہی ہیں جو نون لیگ ہے۔

تازہ ترین