فادر ز اورمدرز ڈے پرسوشل میڈیا دیکھنے کا اپناہی مزا ہے۔ ایسا لگتا ہے سب کی والدہ فلاسفر تھیں اور سب کے والد دنیا کے آخری نیک، پارسا اور ایماندار انسان تھے۔ سمجھ نہیں آتی کہ والدین اتنے اچھے تھے تو اولاد کس پرگئی ہے؟ یقیناً بہت سے والدین بیان کردہ خصائل کی عملی تفسیر بھی ہونگے لیکن کیا سب ایسے تھے؟ ایک صاحب نے لکھا کہ میرے والد اعلیٰ عہدے پر سرکاری ملازم تھے لیکن پارٹ ٹائم پرچون کی دکان چلاتے تھے۔ ساری زندگی گھر میں سرکاری ملازمت کا پیسہ نہیں آنے دیا بلکہ پرچون کی دکان سے جو کمائی ہوتی تھی اسے حلال سمجھتے تھے اور اسی سے اہل خانہ کو پالا پوسا۔ حیرت ہوئی کہ اتنے پارسا تھے تو سرکاری نوکری میں آئے ہی کیوں؟ اور اگر آہی گئے تھے تو استعفیٰ کیوں نہیں دے گئے۔ سرکاری کمائی حرام تھی تو ایسا کام کرنیکی کیا ضرورت تھی؟۔ ایک اور پوسٹ میں لکھا ہوا تھا کہ میں نے اپنی ماں سے سیکھا ہے کہ کبھی کسی کا حق نہیں مارنا چاہیے، نیچے کمنٹس میں انکی ہمشیرہ نے لکھا ہوا تھا کہ ’بھائی امی کو فوت ہوئے دس سال ہوگئے ہیں اب تو مکان میں سے ہمیں حصہ دیدو‘۔ میں نے کبھی فادرز اور مدرز ڈے پر کوئی ایسی پوسٹ نہیں دیکھی جس میں کسی نے لکھا ہو کہ میں ماں باپ کیساتھ کئے گئے اپنے سلوک پر شرمندہ ہوں۔ یہ بات اگر کسی نے لکھی بھی ہوگی تو اس انداز سے کہ ہے تو چھوٹی سی بات مگر مجھے ہر وقت شرمندہ رکھتی ہے۔ یہ چھوٹی سی بات اکثر کچھ اس قسم کی ہوتی ہے کہ ’ابو نے وفات سے کچھ روز پہلے مجھے حقہ تازہ کرنے کیلئے کہا تھا لیکن مجھے نیند آگئی۔‘ہم لوگوں کا بس نہیں چلتا کہ ہم خود کو اور اپنے خاندان کو کسی نہ کسی طریقے سے منفرد اور تہذیبی روایات کا امین ثابت کر دیں۔ یہ عجیب مکافات عمل ہے کہ زیادہ تر اپنے والدین کے فرمانبردار تھے اور زیادہ تر کی اولادیں نافرمان نکل رہی ہیں۔
٭ ٭ ٭
پڑوسی ملک میں شادی کی تقریب کے دوران اُس وقت کرسیاں چل گئیں جب میٹھے میں رس گلے ختم ہونے پرلڑائی شروع ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے دولہا اور دلہن کی طرف کے لوگ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ شادی بیاہوں پر لڑائیاں کوئی نئی بات نہیں بلکہ جس شادی پر کوئی بدمزگی نہ ہو وہ نئی بات لگتی ہے۔ دودھ پلائی اور جوتا چھپائی کی رسم پر تو اکثر مکے گھونسے چل جاتے ہیں۔ رس گلوں پر لڑائی تو ہوگئی لیکن کسی نے مسکین دولہا دلہن سے پوچھنا تک گوارا نہیں کیا ہوگا کہ تمہارے کیا ارادے ہیں۔ مجھے یقین ہے یہ دونوں آج کے بعد زندگی بھر رس گلوں سے شدید نفرت کرینگے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انکی کہیں اور شادی طے ہو جائے تو یہ صرف شوگر کے مریض باراتیوں کو ہی انوائٹ کریں۔ یہ شادی تو نہیں ہوسکی البتہ فریقین نے ایک دوسرے کیخلاف پرچے کٹوادیے ہیں۔ ایسی بچگانہ باتوں پر احمقانہ حد تک لڑنے والوں سے پوچھا جائے کہ یہ کیا حرکت ہے تو آگے سے اکثر کا جواب یہی ہوگا کہ ’بات رس گلوں کی نہیں، اصول کی تھی‘۔ گویا انکی باقی ساری زندگی اصولوں کے مطابق گزری ہے۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں دھماکہ خیزمواد تب بنتی ہیں جب اندرہی اندر کوئی اورلاوا پک رہاہو۔ پھرکوئی چھوٹی سی بات بھی اسکے پھٹنے کاموجب بن جاتی ہے۔ میرا ایک دوست ایسی شادیوں کامنتظررہتاہے جہاں دونوں خاندانوں کے درمیان لڑائی ہوجاتی ہے۔ اسکا خیال ہے کہ کبھی نہ کبھی تو وہ دن آئیگا جب بارات واپس جائیگی اور دلہن کا باپ اُس سے کہے گا..’بیٹا تم ہی ہماری عزت رکھ لو‘۔
٭ ٭ ٭
آجکل اے آئی کوطعنے دینے کا دوردورہ ہے۔ ایسالگتاہے اے آئی کوئی دشمن ہے اور ہمارافرض ہے کہ اسکوسامنے بٹھا کرذلیل کریں۔ گزارش ہے کہ اے آئی ایک مددگار ٹول ہے۔ اسے ایٹم بم کی طرح تباہی کیلئے نہیں آسانی کیلئے بنایاگیا ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ اے آئی کے آنے سے ملازمتیں ختم ہوجائیں گی۔ گویا ملازمتیں برقرار رکھنے کیلئے ٹیکنالوجی کا گلا گھونٹ دیناچاہیے۔ نئی ٹیکنالوجی سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ ہم نے ہر نئی ایجاد کو صرف اسی تناظرمیں دیکھا ہے۔ ہر وہ ایجاد جس سے ہماری مشقت کم ہوتی ہے اسے اے آئی ہی سمجھیں۔ اینڈرائیڈ فون آج کل ہر کسی کے پاس ہے، کیا کبھی کسی نے یہ سوچا کہ اینڈرائیڈ آنے سے پرانے بٹنوں و الے فون کا کیا بنا؟ بلکہ ایک پوری کمپنی ختم ہوگئی۔لیکن نہیں، اسکی خیر ہے، ہمارے کام پرآنچ نہیں آنی چاہیے۔ جدید دور میں روزگار چاہیے تو جدید ہنر سیکھیں۔کوئی کسان بیلوں سے ہل چلاتاہے توکیا ٹریکٹروں کا استعمال روک دینا چاہیے؟کاتب کی جگہ کمپیوٹر نے لے لی ہے، کیا کمپیوٹر کوبین کردیناچاہیے تھا؟ ۔بے ہنر لوگ اے آئی کا استعمال کر کے بھی بے ہنر ہی رہیں گے بالکل ایسے جیسے انٹرنیٹ پر فلسفے سے سائنس تک کے بہترین مضامین اور شاندار کتابیں موجود ہیں لیکن جنہوں نے نہیں پڑھنی وہ آج بھی انکے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔اے آئی کاسب سے بڑا فائدہ ان لوگوں کوہے جو تخلیقی ذہن رکھتے ہیں۔ اس ٹول سے انکی تخلیقی صلاحیتوں میں مزیداضافہ ہوگا۔آپ کا کیاخیال ہے جولوگ پی ایچ ڈی کے مقالے کسی اورسے لکھواتے ہیں وہ اپنے نام کیساتھ ڈاکٹر لگوا کرعملی زندگی میں ذہین بن جاتے ہیں؟ ۔
٭ ٭ ٭
مالٹوں کی آمد آمدہے۔ ہمارے ایک سرگودھا کے زمیندار دوست ہیں جنکے مالٹوں کے باغات ہیں۔میں نے پوچھاکہ کینو، مالٹا، فروٹر، سنگترہ میں کیافرق ہے؟ کہنے لگے’قیمت کا‘۔سنگترہ تو عرصہ ہوامارکیٹ میں نظرہی نہیں آیا۔مالٹا البتہ فروٹر کانک نیم ہے۔کینوکی بھی پہچان سب کو ہے۔آدھے پاکستان میں یہ پھل کلوکے حساب سے اورآدھے میں درجن کے حساب سے فروخت ہوتاہے سردیوں میں پھلوں کی بادشاہی مالٹے کومنتقل ہوجاتی ہے۔اس کمبخت کا تو چھلکاہی سونگھیں توروح تازہ ہوجاتی ہے۔مالٹے کاسب سے بڑافائدہ یہ ہے کہ کسی کے گھرکوئی پھل لے کرجاناہوتومالٹاسب سے بہترین ہے۔ دو سوروپے میں ہی شاپر بھر جاتا ہے۔