• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغان فرمانرواسردار داؤد کے دور میں کیمونزم کے پرچار کیلئے ’’خلق‘‘ اخبار شروع کیا گیا جب یہ بند ہوگیا تو پرچم کے نام سے نیا اخبار نکالا گیا۔ اور پھر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان یعنی PDPAدو حصوں میں بٹ گئی۔ ببرک کارمل اور حفیظ اللہ امین کی جماعت خلق (پشتو میں عوام کو کہتے ہیں) کہلائی جبکہ میر اکبر خیبر کا دھڑا PDPAپرچم کے نام سے مشہور ہوا۔ فروری 1977ء میں داؤد خان لویہ جرگہ کے ذریعے مزید سات سال کیلئے افغان صدر منتخب ہوگئے۔ پاکستان میں ضیاالحق نے اقتدار سنبھالنے کے تین ماہ بعد ہی 10اکتوبر 1977ء کو کابل کا خیرسگالی دورہ کیا اور صدر داؤد کو پاکستان آنے کی دعوت دی۔ واپس آکر ضیاالحق نے حیدرآباد ٹریبونل توڑ دیا اور تمام گرفتار رہنماؤں کو رہا کردیا گیا۔ جنرل ضیا کی دعوت پر سردار داؤد خان 5مارچ 1978ء کو چار روزہ سرکاری دورے پر اسلام آباد پہنچے تو انکا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ ضیاالحق نے فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے صدر داؤد کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیے میں خان عبدالولی خان، عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری اور غوث بخش بزنجو سمیت پشتون اور بلوچ رہنماؤں کو مدعو کر رکھا تھا۔ ضیاالحق کے معتمد خاص جنرل خالد محمود عارف کا دعویٰ ہے کہ اس دورے کے دوران برف پگھل گئی۔ کے ایم عارف اپنی کتاب Working with Zia میں لکھتے ہیں :”روانہ ہونے سے پہلے صدر داؤد نے نہایت گرمجوشی سے ضیاالحق کیساتھ مصافحہ کرتے ہوئے کہا،یہ ہاتھ ایک پٹھان کا ہاتھ ہے جو پاکستان کیساتھ مضبوط اور دیرپا روابط قائم کرنے کا خواہاں ہے۔گزشتہ تیس برس سے ہم نے ایک موقف اپنایا ہوا ہے۔ اس موقف میں تبدیلی لانے کیلئے اور اپنے عوام کی سوچ کا دھارا بدلنے کیلئے مجھے کچھ مہلت دیجئے۔میں افغان رہنماؤں کا ایک ’’لوئی جرگہ‘‘ بلانا چاہتا ہوں تاکہ پاکستان کیساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا جا سکے۔“ ضیاالحق کا خیال تھا کہ سردار داؤد اپنا وعدہ ضرور نباہیں گے اور وہ انہیں مہلت دینے کیلئے بھی تیار تھے مگر قدرت نے مہلت نہ دی۔ اس ملاقات کے ایک ماہ بعد 27اپریل 1978ء کو سردار داؤد کیخلاف بغاوت ہوگئی جسے افغان کیلنڈر کی مناسبت سے انقلاب ثور کہا جاتا ہے۔ ضیاالحق جی ایچ کیو میں ایم ایل اے کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے جب انہیں کابل میں بغاوت کی اطلاع ملی۔ کے ایم عارف کے مطابق ضیاالحق سے پوچھا گیا کہ اگر صدر داؤد نے پاکستان سے مدد کی درخواست کی تو انکا جواب کیا ہوگا۔ ضیاالحق نے کہا کہ میں مدد کرنے میں ہرگز تامل نہیں کرونگا مگر اس کی نوبت ہی نہ آسکی۔ دراصل پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کے بانی اورپرچم اخبار کے ایڈیٹر میر اکبر خیبر کو 17اپریل 1978ء کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تو خلق اور پرچم کے نام سے دونوں دھڑے یکجا ہوگئے۔PDPA رہنماؤں کا خیال تھا کہ میر اکبر خیبر کو سردار داؤ کے حکم پر قتل کیا گیا ہے۔مگرسردار داؤد کو افغانستان میں داخلی محاذ پر جس قسم کے حالات کا سامنا تھا،اسکے حقیقی اسباب کچھ اور تھے۔ دراصل داؤد خان نے سوویت حکام کو آنکھیں دکھانا شروع کردی تھیں۔ سردار داؤد پاکستان میں ضیاالحق سے راہ و رسم بڑھانے کے بعد 12سے 15اپریل 1977ء کو روس کے سرکاری دورے پر گئے جو ان کا آخری غیر ملکی دورہ ثابت ہوا۔ 27اپریل کی صبح سردار داؤد قصر صدارت میں وزیر داخلہ عبدالقدیر کے منتظر تھے تاکہ PDPA رہنماؤں کی گرفتاریوں سے متعلق بریفنگ لے سکیں۔ مگر بساط اُلٹائے جانے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔پل چرخی جیل میں قید حفیظ اللہ امین نے فوج میں موجود اپنے حامی دھڑے کو بغاوت کا حکم جاری کردیا۔ روس کے تربیت یافتہ افغان فوجی افسر شاہنواز تنائی نے اشارہ ملتے ہی کارروائی شروع کر دی۔ افغان فوج کی چوتھی آرمرڈ کور سے لیفٹیننٹ کرنل محمد رفیع، میجر محمد اسلم وطن جاراور میجرشیرجان مزدور یار ٹینکوں کا ایک کالم لیکر نکلے اور ارگ شاہی محل کی طرف پیشقدمی شروع کردی۔ جلد ہی وزارت دفاع پر قبضہ کرلیا گیا اور پھر فضائیہ بھی اس بغاوت میں شریک ہوگئی۔ ٹینکوں نے شاہی محل کا محاصرہ کرلیا۔افغان صدر کے محافظ بے جگری سے لڑے اور آخری سانس تک مقابلہ کیا۔دن بھر لڑائی ہوتی رہی۔ 27 اور 28اپریل کی درمیانی شب صبح چار بجے فوجی دستہ محل کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوا۔ سردار داؤد سے سرنڈر کرنے اور مستعفی ہونے کو کہا گیا مگر انہوں نے اپنے ذاتی پستول سے فائرنگ کردی جب گولیوں کی بوچھاڑ تھمی تو سردار داؤد ،ان کی بیوی،بہن،داماد،بہو اور4پوتے پوتیوں سمیت شاہی خاندان کے 18افراد قتل ہوچکے تھے۔شاہی خاندان کے افراد اور محل کے محافظوں کو کابل میں پل چرخی جیل کے قریب دو اجتماعی قبریں کھود کر گاڑ دیا گیا اور پھر ان قبروں کا نام و نشان تک بھی مٹا دیا گیا۔ طالبان حکومت ختم ہونے کے بعد جب حامد کرزئی صدر بنے تو سردار داؤد اور ان کے اہلخانہ کی لاشیں تلاش کرنے کا کام شروع ہوا۔ کئی ماہ کی کوشش کے بعد جب اجتماعی قبریں دریافت ہوگئیں تو مسخ شدہ لاشوں کی شناخت سب سے بڑا چیلنج تھا۔ سردار داؤد کی لاش کو انکے دانتوں کے سانچے اور چھوٹے سنہری قرآن مجید کے نسخے سے پہچانا گیا۔افغان جرنیل انور شاہ خان کے مطابق سنہرے رنگ کا یہ قرآن جسے سردار داؤد ہر وقت اپنی جیکٹ کی اندرونی جیب میں رکھا کرتے تھے، سعودی فرمانروا کی طرف سے تحفے میں دیا گیا تھا۔سردار داؤد کی ہمشیرہ عائشہ خان کو انکے بوٹوں سے پہچانا گیا کیونکہ آرتھوپیڈک بوٹ جو ایک کمپنی خاص طور پر دنیا کے چند بڑے لوگوں کی فرمائش پر ان کیلئے تیار کیا کرتی تھی۔ سردار داؤد کی ہمشیرہ کی لاش تو گل سڑ چکی تھی مگر انکے بوٹ اب بھی نئے محسوس ہوتے تھے،اسی طرح سردار داؤد کے بیٹے عمر خان کی لاش کو اسکے اسٹریپس کے کلپ سے شناخت کیا گیا کیونکہ وہ ایک مخصوص کمپنی کے اسٹریپس استعمال کیا کرتا تھا۔افغان صدر سردار داؤد اور انکے اہلخانہ کی لاشیں اجتماعی قبر سے نکال کر 17مارچ 2009ء میں یعنی قتل ہونے کے 30سال بعد سرکاری اعزاز کیساتھ کابل میں دفن کی گئیں۔

تازہ ترین