ثناء توفیق خان، کراچی
ہم کراچی کے پیدائشی رہائشی ہیں اور بچپن سے لے کر آج تک کراچی کی سردی کی یہ خاص بات دیکھی ہے کہ نہیں پڑی، تو نہیں پڑی اور اگر جم کے پڑگئی، تو بس کپکپی ہی طاری ہونے لگی، سردی برداشت کرنے کی عادت نہ رکھنے والے شہریوں نے کانوں کو ہاتھ لگا لیے۔
ویسے تو شہرِ قائد میں بھی سال میں چار ہی موسم ہوتے ہیں، البتہ یہاں موسمِ گرما میں بھی اپنائیت و یگانگت کی ٹھنڈک کم نہیں ہوتی۔ موسمِ سرما میں شہریوں میں گرم جوشی در آتی ہے۔ خزاں آنے پر بھی زندگی کا جہاں آباد رہتا ہے، جب کہ بہار چھا جائے، تو طبیعت مزید باغ و بہار ہوجاتی ہے۔
یہ شہر مصروف ہے، مگر مغرور نہیں۔ یہاں وقت کی قلّت ہے، مگر سب کے لیے تعظیم و عزّت کی بہتات ہے۔ اہلِ کراچی اپنوں، غیروں سبھی سے کُشادہ دلی اور ہنسی خوشی ملتے ہیں۔ اعتدال پسندی اور تحمّل مزاجی یہاں کا خاصّہ ہے اور یہی اِس شہر کا خلاصہ ہے۔
کوئٹہ بھیّا! تھک گئی، اب چلی کراچی: کراچی میں سردی کا بھی الگ ہی مزاج ہے۔ عام طور پر،عید کی مانند چند روز کے لیے جَم کر آتی ہے۔ سائبیریا کی یخ بستہ ہوائیں کوئٹہ پہنچیں، تو کراچی آ کر ہی اپنا سفر تمام کرتی ہیں۔
سردی بھی جانتی یے کہ یہ شہر موسموں کا بھی مہمان نواز ہے۔ لہٰذا، کوئٹہ سے یہ کہتی ہوئی چلتی ہے کہ ’’اے کوئٹہ بھیّا! یہاں رہ رہ کےتھک گئی ہوں۔ کراچی والے میرا شدّت سے انتظار کررہے ہیں۔ کتنے ہی لوگوں سے کہلوا بھیجا ہے، مگر تم مجھے دبکائے بیٹھے ہو۔
سردی… جیسے بہن کا میکے آنا: سردی آئے، تو کراچی کے گھر گھر میں اِسی کا تذکرہ ہوتا ہے۔ سب گرم ملبوسات زیبِ تن کر کے اِسے سینے سے لگاتے ہیں اور ٹھنڈے ہاتھوں یا دستانے پہن کر ہاتھ ملاتے ہیں۔
کراچی والے سردی کا ایسے والہانہ استقبال کرتے ہیں، جیسے کسی دوسرے شہر بیاہی بہن کچھ دن کے لیے میکے رہنے آئی ہو۔ اس کی خاطر مدارت سےکبھی ہاتھ نہیں کھینچتے۔ نام تو بہن کا ہوتا ہے، لیکن دونوں ہاتھوں سے سب ہی خُوب ہی کھاتے پیتے ہیں۔
ٹھٹھراتی سردی میں ’’سُوپ کی وردی‘‘: ٹھٹھراتی سردی ہو، تو سرِشام پہلا میلہ سوپ اور یخنی کے ٹھیلوں، دکانوں پر لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے، سردی میں سُوپ کی گرما گرم وردی پہننے آئے ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ وہ ٹوپا، مفلر، دستانے اور سوئیٹر بھی پہنے ہی ہوتے ہیں۔ اِسے سردی لگنے سے زیادہ ’’سردی منانا‘‘ کہا جاتا ہے۔
دِل چسپ بات یہ ہے کہ شدید سردی میں یخنی کےلیے مُرغیاں بے پال و پر ہی لٹک رہی ہوتی ہیں اور اُن کے لٹکنے کا انداز ایسا ہوتا ہے، جیسے ابھی فُٹ بال کو کِک مارنے والی ہوں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ یخنی، سردی کو ہرانے پر تُلی ہوتی ہے، مگر سردی کو ہرانا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ بڑے بڑوں کی ناک میں دَم کر کے اُسے بہا دیتی ہے۔
کپکپاتے ہاتھوں میں چائے کا کپ: کراچی والے رات گئے تک جاگنے کے عادی ہیں۔ کسی سے چائے کا پوچھنا ہو، تو بس ایک مخصوص جملہ کہتے ہیں ’’چائے چلے گی؟‘‘ اور سردی اور چائے کا تو ویسے بھی چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سردی جتنی کڑاکےکی پڑے، چائے کے ہوٹلز پر رش اُتنا ہی بڑھتا جاتا ہے۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ سخت سردی میں بھی چائے ہوٹل سے باہر فُٹ پاتھ پر موجود کرسیوں ہی پر بیٹھ کر پینی ہے۔
دیر تک باتوں کا دَور چلتا رہتا ہے۔ کوئی شناسا سامنے سےگزرجائے، تو اُسے بھی آواز دے کر بُلا لیتے ہیں۔ کپکپاتے ہاتھوں میں کپ سے لبوں کو چُھوتی، زبان کو گرماتی، حلق سے گزرتی اور جسم میں اُترتی گرما گرم چسکیاں گفتگو میں ایک نئی گرم جوشی لے آتی ہیں۔
کسی میز کےگرد سیاست پر گفتگو اور اپنے طور پر یک طرفہ بڑے سیاسی فیصلے ہو رہے ہوتے ہیں، تو کہیں کرکٹ میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے میچز پر تبصروں کا بازار گرم ہوتا ہے، جب کہ ایک طرف شاعروں کی ٹولی بیٹھی ہے اور واہ واہ کا شور قریب بیٹھنے والوں کو متوجّہ کررہا ہے۔
سب ایک دوسرے سے واقف ہیں۔ اگر واقف نہیں بھی، تو کیا ہوا؟ کراچی کی ایک مخصوص اپنائیت توہے۔ چائے پی کر گھر لوٹیں، تو گلی کے نکڑ پر لڑکے آگ جلائے ہاتھ تاپ رہے ہوتے ہیں۔ مطلب، آپ گھر جاتے ہیں، توجائیں، ہم سردی کوگلیوں میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔
مچھلی کی جانب، موج در موج : کراچی واحد شہر ہے، جہاں ’’ہر قیمت پر‘‘ سب کوسب کچھ کھانے پینے کے لیے ملتا ہے۔ سردیوں میں فرائیڈ فِش کی دُکانوں پر شہریوں کا رش اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ لوگ موج درموج کھنچے چلے آتے ہیں۔ مچھلی کے تَلنے کی آواز اور اُس سےاُٹھتی انواع و اقسام کے مسالاجات کی خُوش بُو دل کو بڑا للچاتی ہے۔ کراچی میں مچھلی کی ہر قسم با آسانی دست یاب ہوتی ہے۔ بس، دیکھنا یہ ہےکہ آپ کی جیب میں رقم کی کتنی فراوانی ہے۔
مونگ پھلی…سردی کا رومانس: مونگ پھلی والے کے بغیر تو سردی ایسی ہے، جیسے بِن دولھا بارات۔ یہ مونگ پھلی والا ہی تو ہے، جو سردی شروع ہونے سے پہلے ہی موسمِ سرما کی نوید لیے چلا آتا ہے اور جب سردی پڑجائے، تو شال اوڑھے بجری میں مونگ پھلی بُھون رہا ہوتا ہے۔
ایک زمانے میں بالو مٹی میں بھی مونگ پھلی کو بُھونا جاتا تھا، جس کی سوندھی خوش بُو مونگ پھلی کی قدر و قیمت اور بھی بڑھا دیتی تھی، لیکن اب بالو مٹی کی جگہ بجری نے لے لی ہے، مگر قیمت رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
رات کو جب سب اہلِ خانہ لحاف میں دُبکے ہوں اور گلی میں مونگ پھلی والا ’’ٹن ٹن‘‘ کرتا آجائے، تو اس کا رومانس ہی الگ ہوتا ہے۔ ایک ایک کرکے گھروں کے دروازے کُھلتے اور بچّے، بڑے اس کے گرد جمع ہوتے جاتے ہیں۔ مونگ پھلی کے ساتھ ہی اخروٹ اور دیگر خشک میوہ جات بھی خرید لیے جاتے ہیں، مگر چلغوزے تاحال ہماری دسترس سے باہر ہیں۔
پائے … کس پائے کے ہوتے ہیں؟: لیجیے، پائےتو بُھول ہی گئے۔ سردی میں کراچی والے پائے کی دعوت کو باعثِ عزّت و تکریم سمجھتے ہیں۔ موسمِ سرما میں گائے یا بھینس کےپائےکی قیمت پوچھیں، تو اپنے پاؤں لڑکھڑا جاتے ہیں، لیکن پھر بھی رو دھو کے ایک دو تو لے ہی لیتے ہیں۔ پائے کے ساتھ بونگ کا گوشت ہو، تو کیا ہی بات ہے۔
چپچپاتی انگلیوں کے ساتھ نلی سے گودا نکالنا اور بھر بھر کے کھانا اور آخر میں پلیٹ سے منہ لگا کر شوربا پینا… یہ لکھتے لکھتے انگلیاں بھی چپچپا گئیں۔ تاہم، سب کچھ کھا پی کرکراچی والے کولیسٹرول کا رونا ضرور روتے ہیں، لیکن پھر یہ کہہ کر خود کو تسلّی دیتے ہیں کہ ’’سال میں ایک بار تو چلتا ہے۔ کھانے پینے کے دن تو یہی ہیں۔‘‘ اور اگر پھر بھی گھبراہٹ کم نہ ہو، تو آواز لگاتے ہیں کہ’’ ذرا ایک کپ قہوہ تو پلا دو۔‘‘ اب انہیں کون بتائے کہ آپ پائے کو بےوقوف سمجھتے ہیں یا اُسے ہلکا لے رہے ہیں؟
تحریر ختم ہوگئی، تو چائے کے لیے ہوٹل کی راہ لیں۔ پائے کی دعوت رکھ لیں یا پھر مچھلی کھانے چلے جائیں۔ اگر یہ سب ممکن نہیں، تو مونگ پھلی والا تو گلی میں آتا ہی ہوگا۔
ہو سالِ نو بہشت کا درپن خدا کرے…
سنڈے میگزین کا سلسلہ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘نہ صرف ایک دِل کی آواز، دوسرے دِل تک پہنچانے میں پُل کا کردار ادا کررہا ہے، بلکہ مختلف مواقع پر کئی خُوب صُورت، اَن مول رشتوں کےدِلی جذبات کی عکّاسی و ترجمانی بھی کرتا ہے۔
اب چوں کہ نئے سال کی آمد آمد ہے، تو اگر آپ اپنے پسندیدہ صفحے (ایک پیغام، پیاروں کے نام)کے لیے سالِ نو کی مناسبت سے کوئی بھی پیغام (شعر یا نثر کی صورت) بھیجنا چاہیں، تو ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کردیں۔
ایڈیٹر، سنڈے میگزین، صفحہ’’ایک پیغام، پیاروں کےنام‘‘
(سالِ نو ایڈیشن) روزنامہ جنگ، شعبۂ میگزین ،
اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ ، کراچی۔
یاد رہے، پیغام بھیجنے کی آخری تاریخ20دسمبر 2025ء ہے۔