مدوّن و مرتب: عرفان جاوید
(نیّر مسعود)
اُن کی شادی کم عُمری میں ہوگئی تھی۔ میاں رئیس زادہ اور طوائفوں کا شوقین تھا۔ بیوی سے زیادہ مطلب نہیں رکھتا تھا۔ دو سال تک زینت بیگم اُس کی وجہ سے بہت پریشان رہیں۔ اُس کی اصلاح کی کوشش کی، مگر وہ نہیں سدھرا اور آخر ایک طوائف کے کوٹھے ہی پر مر گیا۔ پھر بھی اُس کے پاس کافی دولت بچ گئی تھی، اس لیے زینت بیگم کو پیسے کی تنگی نہیں ہوئی۔
بس تنہائی سے گھبراتی تھیں اور کبھی کبھی کسی دوسرے شہر نکل جاتی تھیں۔ اُسی زمانے میں ریل کے ایک سفر میں آپ کی والدہ سے اُن کی ملاقات ہوگئی۔ وہ زینت بیگم کو بہت پسند کرتی تھیں اور اکثراُنھیں اپنے یہاں بُلا لیتی تھیں۔ مَیں اُس زمانے میں بےروزگار تھا۔ عُمر بھی کم تھی۔
زینت بیگم مجھے اپنے ساتھ رکھتی تھیں۔ آپ کی والدہ اُن سے دوسری شادی کے لیے اصرار کیا کرتی تھیں۔ آخر وہ راضی ہوگئیں۔ آپ کی والدہ نے اُن کے لیے بہت سوچ سمجھ کر بڑے صاحب کا انتخاب کیا۔ اُن کی بھی ایک شادی ہوچُکی تھی۔ عُمر بھی کچھ زیادہ تھی، لیکن آپ کی والدہ کو یقین تھا کہ وہ زینت بیگم کی بڑی قدرکریں گے، اور واقعی...‘‘
’’آگے بتائیے۔‘‘’’وہ بہت قابل آدمی تھے۔ اُن کو معلوم نہیں کیا کیا آتا تھا۔ دولت مند بھی تھے۔ شہر میں اُن کی کئی بڑی کوٹھیاں اور دوسری جائیداد تھی۔ لیکن آپ کی والدہ اُن کی شادی میں شریک نہیں ہوسکیں۔ اُس سے کچھ دن پہلے ہی آپ کے مکان کا واقعہ...‘‘’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ مَیں نے اُن کی بات کاٹ دی۔ ’’آپ آگے سُنائیے۔‘‘ ’’مَیں نے کہا کہ بڑے صاحب کو معلوم نہیں کیا کیا آتا تھا، لیکن اُن کی اصل دل چسپی تعمیری کاموں اور درختوں میں تھی۔ اِسی لیے اُنھوں نے دھول بن کی یہ اجاڑ زمین خریدی اور اس کے لیے معلوم نہیں کہاں کہاں سے درختوں کے گملے لا کر رکھے، اور یہاں کئی مکان بنوائے، جن میں غریبوں کےلیےبڑا مکان سب سے شان دار تھا۔
اس کے علاوہ…‘‘ وہ پھر رُکے، پھر بولے۔ ’’اُن کے چھوٹے بھائی باپ کی زندگی ہی میں مرگئے تھے اور پھر ماں بھی ختم ہوگئیں۔ اُنھوں نے اپنے یتیم بھتیجے کو پالا تھا، میرا مطلب ہے چھوٹے صاحب کو، اور زینت بیگم سے شادی کے وقت انھوں نےاُن سےاجازت لے لی تھی کہ چھوٹے صاحب کو اپنے ساتھ رکھیں گے۔ اُس وقت چھوٹے صاحب قریب بارہ برس کے تھے اور شہر کے کسی اسکول میں پڑھتے تھے۔
زینت بیگم کےیہاں بھی شادی کے دوسرے سال ملیکہ پیدا ہوئی، اور چھے سال کی ہوگی کہ وہ بھی شہرکےاسکول میں داخل کردی گئی۔ لیکن زینت بیگم اُس کی جدائی برداشت نہیں کر سکیں، اس لیے بڑے صاحب نے دوسرے ہی سال اُسے اسکول سے اٹھا لیا اور یہیں دھول بن میں اپنی نگرانی میں تین ماسٹروں سے پڑھواتے رہے۔ وہ چھوٹے صاحب سے بہت مانوس ہوگئی تھی، اِس لیے بڑے صاحب نے ان کی پڑھائی کا انتظام بھی دھول بن ہی میں کیا۔‘‘
’’آگے سُنائیے۔‘‘مَیں نے پھر اُنھیں ٹوک دیا۔ کسی کی بات سُننے کا یہ مہذّب طریقہ نہیں تھا، لیکن اُس وقت مجھے یہ ساری تفصیل غیر دل چسپ معلوم ہو رہی تھی۔ مختار صاحب کو بھی شاید میری اکتاہٹ کا اندازہ ہوگیا اور وہ رُک کر کچھ سوچنے لگے۔ مجھے اُن پر ترس آنے لگا۔ مَیں نے کہا، ’’آپ اپنا حال بتائیے۔‘‘ اور اُنھوں نے ذرا دل چسپی کے ساتھ بتانا شروع کیا۔ ’’زینت بیگم نے بھی اُن کے ساتھ شادی کی ایک شرط رکھی تھی کہ وہ اپنے بھائی کو بھی اپنے ساتھ رکھیں گی۔ بڑے صاحب کو اُن کی ہر شرط منظور تھی۔
اِس طرح مَیں بھی یہاں آگیا اور بڑے صاحب مجھے بھی اُسی طرح چاہنے لگے، جس طرح اپنے بھتیجے کو چاہتے تھے۔ ایک دن بولے۔ ’’بھئی مختار! تمھارا تو نام ہی مختار ہے۔ ہم تمھیں دھول بن کی جائیداد کا مختار بناتے ہیں۔‘‘’’دل چسپ آدمی تھے بڑے صاحب۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’لاجواب آدمی تھے۔ دھول بن کو بسانے کے لیے اُنھوں نے شہرسے آدمی چھانٹ چھانٹ کران کو مکان مہیا کر دیے۔ جن کی اتنی حیثیت بھی نہیں تھی، اُن کے لیے بڑا مکان تھا۔
پہلی ہی کھیپ میں وہ سردار کو بھی پکڑلائے۔ کہتے تھے۔ ’’ہربستی میں ایک آدھ فقیر ہونا ضروری ہے۔‘‘ ’’مجھے تو زیادہ تر لوگ بہت غریب نظر آئے۔‘‘’’اس لیے کہ وہ واقعی غریب ہیں۔ اکثر ان میں سے کاری گر اور مستری قسم کے لوگ ہیں، جن کا کام شہر میں نہیں چلتا تھا۔ سردار بھی ایک درگاہ کے سامنے بیٹھا مکھیاں مارا کرتا تھا۔ یہاں اِس کا بھی کام چل نکلا۔ وہ دھول بن کا سب سے پرانا باشندہ ہے، اور دھول بن کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے۔‘‘
’’بڑے صاحب اِس سے بے تکلف تھے؟‘‘ وہ ہر ایک سے بےتکلف ہوجایا کرتے تھے۔ اور ہنسی کی بات پر اتنا زبردست قہقہہ لگاتے تھے کہ درختوں سے چڑیاں اڑ جاتی تھیں۔‘‘ درختوں کے ذکر پر مجھے یاد آیا۔ ’’مختار صاحب، دھول بن کے آس پاس کوئی درخت…‘‘ ’’بہت تھے۔ سب کٹوا دیے، بڑے صاحب نے۔ بس وہ آپ والا درخت ناپ کے لیے چھڑوا دیا۔‘‘ وہ کچھ اور بتانے جارہے تھےکہ رُک گئے اور مجھے سلام کرکے چلے گئے۔
اُس رات مَیں نے اپنے درخت کو غور سے دیکھا۔ اُس میں کوئی خاص بات تھی، جو میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی اور مَیں درخت کو دیکھتے دیکھتے ہی سوگیا۔ سویرے اُٹھ کر مَیں نے پھر اُس کو غور سے دیکھا۔ اُس کی شاخیں بہت گھنی اور بےترتیب سی تھیں، لیکن اُس کی ہر شاخ چار میں سے کسی ایک سمت اشارہ کرتی تھی۔ بےسمت شاخ اُس درخت میں کوئی نہیں تھی۔ اب مجھ کو وہ درخت بہت انوکھا اور ہزاروں درختوں میں سب سے الگ معلوم ہونے لگا۔
کم سے کم مجھے یہ یقین تھا کہ مَیں اُسے ہزاروں درختوں کے بیچ بھی پہچان لوں گا۔ دوسرے تیسرے دن آندھی ختم ہوگئی اور دھول بن میں دن کا کاروبار شروع ہوگیا۔ ایک دن سردار بھی ملا اورمَیں نے قریب قریب سارا دن اُس سےباتیں کرنے میں گزار دیا۔ اُسی نے مجھے بتایا کہ بنجاروں کی ٹولی واپس اپنے پڑاؤ پر آگئی ہے۔
اس نے بنجاروں کے چوہدری کا نام بھی لیا۔ ’’چوہدری بلّم بوڑھا ہوگیا ہے، مگر ابھی ٹانٹھا ہے۔‘‘ بلّم؟ کیا ماضی کے سارے بھوت یہیں دھول بن میں جمع ہورہے ہیں؟ مَیں نے بدمزگی سے سوچا۔ جب مَیں شروع میں گھر سے نکلا تھا، تو کچھ دن بلّم کی ٹولی میں بھی رہا تھا۔ اچھے لوگ تھے۔ سردار کے پاس سے اُٹھ کر میں بنجاروں کے پڑاؤ پر پہنچا۔ چوہدری بلّم نے فوراً مجھے پہچان لیا۔ رات بہت دیر تک ہم باتیں کرتے رہے۔
مَیں زیادہ تر اس کی گردشوں کے بارےمیں پوچھتا رہا۔ اُس نے بتایا کہ بڑے صاحب کے لیے بہت سے درخت اسی کی ٹولی نے ڈھونڈ کر نکالے تھے۔ ’’چوہدری! یہ بتاؤ۔‘‘ مَیں نے پوچھا۔ ’’وہ درخت جو چھوڑ دیا گیا ہے…‘‘ ’’ہمیں اس کا نام نہیں معلوم۔ بڑے صاحب کہیں سے لائے تھے یا شاید وہ پہلے سے لگا ہوا تھا۔ بڑے صاحب اُس کی ٹہنی بھی کسی کو توڑنے نہیں دیتے تھے۔‘‘ رات زیادہ ہوگئی تھی۔ مَیں پڑائو ہی پر سوگیا۔
سویرے مختار صاحب کی آواز سے میری آنکھ کھلی تو وہ بلّم سے پوچھ رہے تھے کہ اُس سے میری جان پہچان کس طرح ہوئی۔ مجھے جاگتے دیکھ کر وہ میری طرف متوجّہ ہوگئے۔ ’’ہم آپ کو درخت کے نیچے ڈھونڈ رہے تھے۔ آج آپ کو ملیکہ سے ملنا ہے۔‘‘ ’’کس وقت؟‘‘ ’’تھوڑی ہی دیر میں مل لیجیے، تو اچھا ہے۔ ملیکہ آپ کو اپنی کہانی سُنائیں گی، جس طرح زینت بیگم آپ کی والدہ کو سُناتی تھیں۔ کہہ رہی تھیں کہ آپ سے باتیں کر کے اُن کا دل ہلکا ہو جائے گا۔‘‘
تھوڑی دیر بعد ملیکہ سے ملا۔ آج وہ بہت اچھا لباس پہنے تھی اور سوگواری کا انداز جو اُس روز طاری تھا، نہیں تھا۔ معمول کی گفتگو کے بعد اُس نے بتانا شروع کیا۔ ’’ابّو، امّی کے دیوانے تھے۔ امّی نے آندھیوں کی شکایت کی تو وہ آندھیاں روکنے کی تدبیروں میں لگ گئے۔ معلوم نہیں کون کون سے درخت جمع کر کے گملوں میں لگا لیے، اور اُن کی بڑی دیکھ بھال کرتے تھے۔
گملوں کے پودے کئی برس پرانے تھے۔ ابّو نے بتایا کہ جب یہ گملوں سے زمین میں لگائے جائیں گے تو ایک دو برس میں چھتنار درخت ہو جائیں گے۔ ایک دن وہ اور چھوٹے صاحب بہت خوش خوش امّی کے پاس آئے۔ کچھ درخت جو اُنھیں نہیں مل رہے تھے، اب بنجاروں کی مدد سے مل گئے تھے۔
درختوں کا سلسلہ بہت دُور سے شروع ہوتا اور ہر درخت آندھی کی گرد کے لیے چھلنی کا کام کرتا، اور آخری درخت تک آتے آتے گرد غائب ہوجاتی، صرف ہوا رہ جاتی، وہ بھی بہت تیز نہیں۔‘‘ ایسا اُن کا کہنا تھا۔ ’’اس دن آندھی دو دن پہلے شروع ہوگئی تھی۔ ابّو اُسی آندھی میں چھوٹے صاحب کے ساتھ باہرنکل گئے اور آپ والے درخت سے ناپ ناپ کر دوسرے درختوں کی جگہ پر نشان بنا رہے تھے۔
اچانک اُن کے گردے میں، شاید گردے ہی میں، ایسا شدید درد اُٹھا کہ وہ وہیں کے وہیں ختم ہوگئے۔‘‘ اُس کے بعد وہ کچھ دیر چَپ رہی۔ مَیں بھی چُپ رہا۔ پھر اُس نے کہا ’’امّی اس کے بعد خاموش رہنے لگیں۔ باتیں بہت کم کرتی تھیں۔ لیکن ایک رات چھوٹے صاحب نے خواب میں زرد آندھی آتی دیکھی۔ سویرے اٹھے تو دہشت زدہ تھے۔ اُس دن معلوم ہوا کہ وہ زرد آندھی، بلکہ شاید رنگین آندھی سے ڈرتے ہیں۔
ان کا ڈردُور کرنے کے لیے امّی نےآپ کے آندھی میں گھومنے کے کئی قصّے سُنائے اور چھوٹے صاحب کا خوف جاتا رہا۔ بلکہ وہ آپ کا ذکر اس طرح کرنے لگے، جیسے اُن سے آپ کی پرانی ملاقات ہو۔‘‘ ’’چھوٹے صاحب کا خوف دُور کرنے کی کوشش میں امّی نے آپ کے یہاں کے مہمانوں اور آپ کی والدہ کو اس طرح اور اتنی دیر تک یاد کیا کہ بیمار ہوگئیں اور کچھ دن بعد سوتے میں خاموشی کے ساتھ گزر گئیں۔
اگر مختار ماموں نہ ہوتے تو معلوم نہیں کیا ہوتا۔‘‘ ’’کیسی باتیں کرتی ہو؟‘‘ مجھے مختار صاحب کی آواز سُنائی دی۔ وہ معلوم نہیں کس وقت آکر بیٹھ گئے تھے۔ ’’کیوں یہ سب سوچتی ہو؟‘‘ ’’چھوٹے صاحب کے لیے ابّو کے بعد امّی کا صدمہ بہت بڑا تھا، لیکن اُنھوں نے خُود کو سنبھال لیا اور درختوں کے کام میں لگ گئے۔‘‘ ملیکہ نے کہا۔ ’’لیکن…‘‘ وہ چُپ ہوگئی۔ ’’مختار ماموں! آپ بتا دیجیے۔‘‘ ’’بار بار سُن کر کڑھنے سے کیا فائدہ، بیٹی۔‘‘ مختار صاحب نے خاندان کے بزرگ کی طرح کہا۔ ’’کتنی بار توسُن چُکی ہو۔ اِنھیں معلوم ہے کہ چھوٹے صاحب درخت سے گر کر...‘‘ ’’ایک بار پھر بتائیے۔
آپ کی زبان سے سُننے کو جی چاہتا ہے۔‘‘ ’’بتاتا ہوں، لیکن رونے نہ لگنا۔ تمھاری صحت کو نقصان پہنچے گا۔‘‘’’اب کہاں روتی ہوں۔‘‘’’ضبط کرتی ہو، وہ اور بھی نقصان کرتاہے۔‘‘ مختارصاحب نےبتاناشروع کیا۔ ’’خیر، تو صاحب نے پھر بڑے صاحب کا چھوڑا ہوا کام شروع کردیا۔ سب سے پہلے گڑھے ٹھیک کروائے، جوبڑے صاحب کے بعد بھرچلے تھے۔
پھر آپ کے درخت کی شاخوں...‘‘’’یہ آپ لوگ اُسے میرا درخت کیوں کہنے لگے ہیں؟‘‘ مَیں نے ذرا الجھ کراُن کی بات کاٹی۔ ’’آپ اُس کے نیچے رہتے ہیں ناں؟‘‘ ملیکہ نے کہا۔ ’’اُس کے نیچے کوئی اور نہیں رہتا۔ پھر اُس کا نام بھی کسی کو نہیں معلوم۔‘‘ مختارصاحب بولے۔ ’’چھوٹے صاحب نے پھر اُس کی شاخوں کی سیدھ لے لے کر سب درختوں کی جگہیں مقرر کیں۔
اُس وقت وہ بہت خوش تھے، اور ایک بار پھر پورے منظر کا جائزہ لینے کے لیے درخت کے اوپر چڑھ گئے۔ سب نے اُنھیں منع بھی کیا، لیکن اتنی دیرمیں وہ اُس کی نچلی شاخ پر پہنچ چُکے تھے۔ مَیں نے اُنھیں گرتے دیکھ لیا، لیکن مجھے پتا نہیں چلا کہ وہ سر کے بل گرے ہیں۔ پھر وہ بہت اونچائی سےنہیں گرے تھے۔
اُن کے منہ سےنکلا ’’ملیکہ‘‘ اور وہ ہنستے ہوئے اُٹھ کرکھڑے ہوگئے۔ مَیں احتیاطاً اُنھیں پکڑ کرلارہا تھا کہ اچانک وہ گر گئے۔ کانوں سےخون بھی بہنے لگا اور وہ بالکل بےہوش ہوگئے۔ فوراً شہر کے اسپتال پہنچا دیے گئے۔ اس کے بعد سے جو جو علاج ہوئے، آپ کو پتا ہے۔‘‘
کچھ دیربعد بلّم ملیکہ کو سلام کرنے آیا۔ باتوں باتوں میں ملیکہ نےاُس سے پوچھا۔ ’’چھوٹے صاحب کونہیں دیکھو گے؟‘‘ ’’اِسی لیےتوہم آئے ہیں۔‘‘ملیکہ نے مجھ سے کہا۔ ’’آپ بھی اُنھیں دیکھ لیجیے۔ ہم نے رات کو اُنھیں خواب میں دیکھا تھا۔ خیال ہوا کہ آج شاید ان کو ہوش آئے۔‘‘ ’’خوابوں کا بھروسا نہیں۔‘‘ مَیں نے سوچا۔ اور بلّم، مختارصاحب اورملیکہ کےساتھ بڑے کمرے میں داخل ہوا۔ اور وہاں مَیں نے اُس شخص کو دیکھا، جو مجھ کو اپنا دوست کہتا تھا اور جسے مَیں آج پہلی مرتبہ دیکھ رہا تھا۔ وہ گہری نیند سو رہا تھا۔
کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ اُس کے دماغ میں کیا ہے، اور کچھ ہے بھی یا نہیں۔ مَیں نے اُس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دھیرے سے پکارا۔ ’’چھوٹے صاحب!‘‘ پھر اُس کے نتھنوں پر ہاتھ رکھا، اُس کے پپوٹوں کو آہستہ سے کھولا اور بند کیا، اُس کے کان کی لوؤں کو دیکھا۔ مَیں کسی ماہر معالج کی طرح مریض کا معائنہ کر رہا تھا، لیکن اِس سے میرا مقصد کچھ معلوم کرنا نہیں تھا۔ مجھے معلوم ہو بھی نہیں سکتا تھا۔
لیکن سب لوگ مجھےایسی اُمید بھر نظروں سے دیکھ رہے تھےکہ مجھے اپنا اناڑی پن ظاہر کرنا بےرحمی معلوم ہو رہی تھی۔ معائنے کے دوران مَیں نے بار بار اُسے پکارا۔ ہر پکار پر سب تھوڑا آگے جُھک کر کبھی چھوٹے صاحب کو،کبھی مجھے دیکھنے لگتے تھے، لیکن چھوٹے صاحب جیسے تھے، ویسے ہی رہے۔ مجھے وہاں ایک اجنبی شخص بھی نظر آیا۔ وہ دروازے سے لگا کھڑا تھا۔ مَیں نے دوبارہ اُسے غور سے دیکھا۔ وہ سردار تھا۔ اِس وقت قاعدے کا صاف ستھرا لباس پہن کر چھوٹے صاحب کو دیکھنے آیا تھا۔
اُس نے کسی سے بات نہیں کی اور خاموشی کے ساتھ گردن جُھکائے پلٹ گیا۔ مَیں نےمعائنہ ختم کیا اور مختار صاحب سے پوچھا۔ ’’کبھی کچھ بولتے بھی ہیں؟‘‘’’وہی ایک پکار، ’’ملیکہ‘‘ جوان کے ہونٹوں پر درخت سے گرتے وقت تھی۔‘‘ ’’مَیں اِس پکار کا مطلب سمجھتی ہوں۔‘‘ ملیکہ بولی۔ ’’کہتے ہیں، اُس درخت کو رہنے دینا۔‘‘ پھر مجھ سےپوچھا۔ ’’آپ نے اِن کو دیکھ لیا؟ یہ ٹھیک ہوجائیں گے؟‘‘’’مجھ سے پوچھ رہی ہو، ملیکہ؟‘‘
مَیں نے دل ہی دل میں کہا۔ مجھے اپنی وہ عزیزہ یاد آگئی تھیں، جو جھولے سے گرکربےہوش ہوگئی تھیں، پھر بیس پچیس سال تک ہوش میں نہیں آئی تھیں۔ اُن کی داڑھی، مونچھیں نکل آئی تھیں اور چہرہ بھیانک ہوگیا تھا۔ مَیں نےاُن کا صرف ذکرسنا تھا۔ ہو سکتا ہے، اس میں کچھ یا بہت کچھ مبالغہ ہو۔ مَیں نے اُن کا خیال ذہن سے نکال دیا اور ملیکہ کوجواب دیا۔ ’’ٹھیک بھی ہوسکتے ہیں۔ بظاہر اِنھیں کوئی مرض نہیں ہے۔‘‘
پھراچانک میرا دل دھول بن سے اچاٹ ہو گیا۔ مَیں سوچنے لگا، یہاں کیوں پڑا ہوں۔ دنیا مجھے ویسی ہی معلوم ہونے لگی، جیسی اپنا گھر چھوڑتے وقت معلوم ہوئی تھی۔ ابھی خاصا دن باقی تھا۔ مَیں نے درخت کےنیچےجاکر اپنا سامان اکٹھا کیا۔ آخری باراُس درخت کو دیکھا۔ ملیکہ، مختار صاحب، سردار، چوہدری، کسی سے بھی رخصت نہیں لی۔ بستی کے باہر چھوٹے چھوٹے گڑھوں سے بچتا ہوا دُور نکل آیا اور کسی نئی شہری آبادی کی تلاش میں چل پڑا۔