یہ1928ء کا سال تھا، جب ڈاکٹر الیگزنڈر فلیمنگ مختلف بیکٹیریا (جرثوموں) پر تحقیقات کر رہے تھے۔ اسی دوران انہوں نے غور کیا کہ اُن کی ایک تحقیقاتی ڈش (پیٹری ڈش) میں پھپھوندی (فنگس) لگ گئی ہے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ پھپھوندی کے اردگرد بیکٹیریا مرگئے تھے۔ مزید تحقیق کرنے پر پتا چلا کہ پھپھوندی سے نکلنے والے ایک مادے نے بیکٹیریا کی نشوونما روک دی تھی۔
اُنہوں نے اس کمپاؤنڈ کا نام پینسلین ( Penecillin) رکھا۔ اور یہی پینسلین دنیا میں پہلی اینٹی بائیوٹک کےطور پر متعارف ہوئی۔ اور پھر اُس کے بعد مستقل تحقیق اور تجربات کے نتیجے میں نت نئی اینٹی بائیوٹکس کی دریافت و تعارف کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوگیا، جو تاحال جاری و ساری ہے۔
اینٹی بائیوٹکس، جدید طب کا ایک قیمتی تحفہ اور انسانیت کے لیے گویا بیش بہا نعمت ہیں۔ جن سے مہلک جراثیمی انفیکشنز میں مبتلا مریضوں کا کام یاب علاج ممکن ہوسکا اور بلا مبالغہ ان کے استعمال کے نتیجے میں کروڑوں زندگیاں بچائی جاسکیں۔ ایک اندازے کے مطابق اینٹی بائیوٹکس کے درست اور بروقت استعمال کی وجہ سے انسانی زندگی میں مجموعی طور پر 23 برس کا اضافہ ہوا ہے۔
تاہم، ان اینٹی بائیوٹکس کی غیر معمولی افادیت کے باوجود ان کا غیرمناسب اور غیرضروری استعمال نہ صرف ان کی اِسی افادیت کو کم کر رہا ہے بلکہ اینٹی بائیوٹک ریزیسٹینس جیسے عالمی مسئلے کو جنم دے رہا ہے۔
یعنی اگر اینٹی بائیوٹکس کو بغیر کسی وجہ کے استعمال کیا جائے، تو آپ کے جسم میں موجود خطرناک بیکٹیریا کی ان کے خلاف مدافعت بڑھ سکتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ادویہ اُس وقت کام نہیں کریں گی، جب اِن کی اشد ضرورت ہوگی۔
عالمی ادارۂ صحت نے اینٹی بائیوٹک ریزیسٹینس کو دنیا میں صحت کے تحفّظ اور بہتری کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ اور ہم اِس مضمون میں اینٹی بائیوٹکس کے مؤثر اور محفوظ استعمال ہی سے متعلق کچھ بنیادی باتوں پر روشنی ڈالیں گے۔
اینٹی بائیوٹکس کی اقسام اور اُن کا دائرۂ کار (اسپیکٹرم):
یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ہر اینٹی بائیوٹک مخصوص جراثیم ہی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کچھ اینٹی بائیوٹکس کا دائرۂ کار وسیع ہوتا ہے، جن کو وسیع الاثر (Broad Spectrum) کہا جاتا ہے اور وہ کئی قسم کے جراثیم کے خلاف موثر ہیں۔ جب کہ کچھ کا دائرۂ کار محدود ہوتا ہے، جو محدود الاثر ( Narrow Spectrum ) کہلاتی ہیں۔ اورصرف چند مخصوص جراثیم ہی پر ہی اثر کرتی ہیں۔
عموماً ڈاکٹر، مریض کی علامات، انفیکشن کی قسم اور ممکنہ جراثیم دیکھتے ہوئے یا ترجیحی طور پر جرثومی حسّاسیت (Culture and sensitivity کی رپورٹ کی مطابقت سے مناسب اینٹی بائیوٹک تجویز کرتے ہیں۔ تواینٹی بائیوٹکس کے صحیح استعمال کے کچھ اصول ہیں۔
مناسب تشخیص پر مبنی استعمال:
اینٹی بائیوٹکس صرف ثابت شدہ بیکٹیریل انفیکشن پر اثر کرتی ہیں، وائرل اور فنگل انفیکشنز (Viral and fungal infections) میں یہ بے اثر ہیں۔ عام نزلہ، زکام اور کھانسی وغیرہ کی عموماً وجہ الرجی اور وائرل انفیکشنز ہوتے ہیں۔ خصوصاً اگر یہ بخار وغیرہ کے بغیر ہوں۔ لیکن بعض وائرل انفیکشنز جیسے کورونا، خسرہ، ممز (کن پیھڑ)، چکن گونیا یا ڈینگی وغیرہ میں تیز بخار بھی ہو سکتا ہے۔ اِسی طرح منہ اور جِلد کے چھالے اور جِلدی داد وغیرہ اکثر فنگل انفیکشنز کی وجہ سے ہوتے ہیں-
خون کے کچھ سادہ ٹیسٹ مثلاً CBC اس طرح کی بیماریوں کی تشخیص میں نہایت مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ وائرل انفیکشنز میں سردی، انفلوئنزا، کروپ، سانس کی نالی کی سوزش، چھاتی میں سردی (کھانسی) اور زیادہ تر گلے کی خراش شامل ہیں۔
یہ عموماً بیکٹیریل انفیکشن کی بہ نسبت زیادہ متعّدی ہوتے ہیں۔ اگر خاندان میں ایک سے زیادہ فرد کو ایک ہی بیماری ہو تو یہ امکانی طور پر وائرل انفیکشن ہے۔ جو عموماً چار سے پانچ دِنوں میں ٹھیک ہوجاتا ہے، لیکن پوری طرح صحت یاب ہونےمیں تین ہفتے تک کی طویل مدت لگ سکتی ہے۔
دیکھا گیا ہے، اس قسم کی معمولی علامات ظاہر ہوتے ہی لوگ بےدریغ اینٹی بائیوٹکس کا استعمال ازخود شروع کردیتے ہیں، جو ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے۔
حالاں کہ اِن حالات میں اینٹی بائیوٹک لینا سودمند ہونے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اینٹی بائیوٹکس کے استعمال میں چند عام طور پر کی جانے والی غلطیوں میں: ہر بخار میں اینٹی بایوٹک شروع کردینا۔ ہر قسم کی کھانسی میں اینٹی بایوٹک تجویز کرنا۔ کسی اور کی دوا خود استعمال کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
صحیح خوراک، وقفہ اور دورانیہ:
کسی بھی اینٹی بایوٹک کی مقدار یا خوراک مریض کی عُمر، وزن، گُردوں اور جگر کی صحت کو مدنظر رکھ کر طے کی جاتی ہے۔ اسی طرح کسی بھی مجوّزہ اینٹی بائیوٹک کا دورانیہ بھی اس کی کیمیائی ہیئت اور ساخت کے علاوہ مرض کی شدت کو مدِنظر رکھ کر طے کیا جاتا ہے، جس کے متعلق آپ کا ڈاکٹر آپ کو ہدایات دیتا ہے۔
خیال رہے کہ دوا کی مطلوبہ خوراک سے کم مقدار یا دورانیہ اینٹی بائیوٹکس کی اثرپذیری کو بُری طرح متاثر کرتا ہے۔ اپنے ڈاکٹر کے بتائے ہوئے مکمل دورانیے میں دوا لینا انتہائی اہم ہے۔ علامات بہتر ہونے پر بھی دوا جاری رکھیں، ورنہ انفیکشن دوبارہ ہو سکتا ہے یا اینٹی بائیوٹک ریزیسٹینس پیدا ہو سکتی ہے۔
دوخوراکوں کے درمیان وقفہ:
ہراینٹی بائیوٹک کی ہر دوخوراکوں کے درمیان ایک مخصوص وقفہ ہوتا ہے (جیسے 8، 12 یا 24 گھنٹے)۔ اس وقفے پرعمل کرنا خون میں دوا کی مسلسل مؤثر مقدار برقرار رکھنے کے لیےضروری ہے۔ وقفے میں غیرضروری تعطل اینٹی بائیوٹکس کے مطلوبہ نتائج کے حصول میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
دوا دینے کا ترجیحی راستہ:
زیادہ تر اینٹی بائیوٹکس منہ کے ذریعے (گولیاں/ کیپسول) دی جاتی ہیں۔ شدید انفیکشن میں انجیکشن کے ذریعے یا عضلاتی راستے ( I/V or I/M) سے دی جاتی ہیں، تاکہ فوری اثر ہوسکے۔ کسی بھی کی مرض دوا لینے کا بہترین ذریعہ یا طریقہ (رُوٹ) آپ کا ڈاکٹرہی طے کرے گا۔
ذخیرہ کرنے کے طریقے:
اینٹی بائیوٹکس کو عام طور پر کمرے کے معمول کے درجۂ حرارت پر، سورج کی روشنی اور نمی سے دُور رکھیں۔ کچھ اینٹی بائیوٹکس کو فریج میں رکھنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں ہمیشہ دوا بنانے والی کمپنی کی دی گئی ہدایات پرعمل کریں۔
کھانے کے ساتھ تعلق:
ایک عام تاثر یہ ہے کہ اینٹی بائیوٹکس ہمیشہ کھانے کے بعد لی جائیں، جو درست نہیں۔ کچھ اینٹی بائیوٹکس خالی پیٹ لی جاتی ہیں (کھانے سے ایک گھنٹہ پہلے یا دو گھنٹے بعد) تاکہ ان کے خون میں جذب ہونے کا عمل بہتر طریقے پر ہو، مثلاً، ایزیتھرومائسین۔ کچھ اینٹی بائیوٹکس کھانےکےساتھ لی جاتی ہیں تاکہ پیٹ پران کے مضراثرات کو کم کیا جاسکے۔ مثلاً، اموکسی کلیو کلاویولانک ایسڈ اور کلنڈامائسین وغیرہ۔
اینٹی بائیوٹکس کو دودھ اور دہی کے ساتھ لینا، بعض اینٹی بائیوٹکس کے معدے سے جذب ہونے کا عمل متاثر کرسکتا ہے۔ مثلاً ،ڈوکسی سائیکلین کو۔
تیاری کا طریقہ (بطورِ خاص سسپنشن)
یہ ایک نہایت اہم عمل ہے، جس سے آگہی بہت ضروری ہے۔ بچّوں کے لیے اینٹی بائیوٹک سسپنشن (پاؤڈر سے تیار ہونے والا محلول) تیار کرتے وقت بوتل یا اُس کے ڈبّے پر لکھی ہدایات کا سختی سے خیال رکھیں۔
ہمیشہ صاف پانی (عام طور پر ابلے ہوئے ٹھنڈے پانی) کا استعمال کریں۔ بوتل پر دیئے گئے نشان تک پانی ڈالیں اور اچھی طرح ہلائیں تاکہ پاؤڈر مکمل گھل جائے۔ بعض ادویہ کو پانی میں حل کرنے کے لیے زور زور سے ہلانا دوا کا ذائقہ خراب کردیتا ہے، جس سے بچّوں کے لیے دوا ایک بد ذائقہ اور نا پسندیدہ محلول بن جاتی ہے اور وہ دوا پینے میں پس و پیش کرتے ہیں۔ چناں چہ دوا کے پاؤڈر کو پانی میں حل کرنے کے لیے تحمّل سے کام لیں تاکہ بچّے کے لیے دوا کی قبولیت برقرار رکھی جا سکے۔
تیار شدہ سسپنشن کو عام طور پر فریج میں رکھا جاتا ہے۔ تیار شدہ دوا کو مخصوص مدّت (7سے 14 دن) میں استعمال کریں، خواہ اُس کی حتمی معیاد بوتل پر کچھ بھی لکھی ہو۔
احتیاطی تدابیر:
کبھی بھی ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر اینٹی بائیوٹکس استعمال نہ کریں۔ مائع دوا کی ہر خوراک سے قبل بوتل ہلانا ضروری ہے۔ دوسروں کے لیے تجویز کردہ اینٹی بائیوٹک ہرگز استعمال نہ کریں۔
ڈاکٹر کو اپنی تمام الرجیز اور دیگر بیماریوں کے بارے میں ضرور بتائیں۔ اگر اینٹی بائیوٹک لینے کے بعد کوئی مضر اثر (جیسے خارش، سُوجن، سانس لینے میں دشواری) محسوس ہو، تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
اینٹی بائیوٹکس سے بچاؤ کا آزمودہ نسخہ :
حفظانِ صحت کے لیے اینٹی بائیوٹکس کے بےجا استعمال سے اجتناب، آج کے دَور کی اہم ضرورت ہے۔ اگر روزمرّہ زندگی میں صفائی، احتیاط اور بیماریوں سے بچاؤ کے اصول اپنا لیے جائیں تو اکثر انفیکشنز کو ہونے سے پہلے ہی روکا جاسکتا ہے۔ اِس طرح نہ صرف صحت بہتر رہتی ہے بلکہ اینٹی بائیوٹکس کے بار بار استعمال کی ضرورت بھی کم ہو جاتی ہے۔
انفیکشنز سے بچاؤ کی تدابیر:
اینٹی بائیوٹکس کے استعمال سے بچنا ہے تو سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ انفیکشن سے بچاؤ کے طریقوں پر توجّہ دی جائے اور اُن پر عمل بھی کیا جائے۔ اِن تدابیر میں سرفہرست مندرجہ ذیل ہیں:
ہاتھوں کی صفائی: ہاتھ دن میں کئی بار اچھی طرح دھوئیں، خاص طور پر کھانے سے پہلے، باتھ روم کے استعمال کے بعد اور کہیں باہر سے گھر آنے پر۔ اس طرح جراثیم پھیلنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔
منہ کی صفائی: دن میں کم از کم دو بار صُبح اور رات سونے سے پہلے برش کریں۔ دانتوں اور مسوڑھوں کی صفائی انفیکشن اور دیگر منہ کی بیماریوں سے بچاتی ہے۔
ویکسی نیشن: بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے تجویز کردہ تمام ویکسینز وقت پر لگوانا ضروری ہے، کیوں کہ ویکسینز مختلف بیماریوں سے بچاؤ کی مضبوط اور محفوظ راہ ہیں۔
ماسک کا استعمال: دھول، دھواں اور فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے گھر سے باہر نکلتے وقت ماسک پہنیں۔ یہ عمل سانس کی بیماریوں کے خطرات کو کم کرتا ہے۔
متوازن غذا اور ورزش: صحت بخش غذا کھائیں اور باقاعدگی سے ورزش کریں۔ اس سے قوتِ مدافعت مضبوط رہتی ہے اور جسم بیماریوں کا مقابلہ بہتر طور پر کر سکتا ہے۔
پانی کا زیادہ استعمال: دن بھر میں مناسب مقدار میں پانی پینا جسم کو ہائیڈریٹ رکھتا ہے اور بیماریوں کے خلاف قدرتی دفاعی نظام بہتر کرتا ہے۔
صاف ستھرا، معیاری کھانا پینا: کھانے پینے میں حفظانِ صحت کا خاص خیال رکھیں اور باسی یا آلودہ چیزوں کے استعمال سے پرہیز کریں۔ جس قدر ممکن ہو، گھر کا تازہ اور محفوظ کھانا استعمال کریں، کیوں کہ باہر تیار ہونے والے کھانوں میں صفائی کا معیار ہمیشہ یقینی نہیں ہوتا۔
یاد رکھیں، اینٹی بائیوٹکس قیمتی ادویہ ہیں، جن کا تحفظ ہماری اجتماعی ذمّے داری ہے۔ آپ اِنہیں ڈاکٹر کے مشورے، مقررہ خوراک، وقفے اور دورانیے میں استعمال کرکے نہ صرف اپنی صحت بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ان ادویہ کی افادیت برقرار رکھ سکتے ہیں۔
(مضمون نگار، ماہرِ صحتِ عامہ اور امراضِ ناک، کان، گلا ہیں۔ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائینسز کے شعبہ ناک، کان، گلا کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے، نیز پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے مرکزی صدر ہیں۔)
مضمون نویس معالجین توجّہ فرمائیں!!
سنڈے میگزین کے سلسلے’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں لکھنے کے شائق معالجین سے درخواست ہے کہ اپنے مضامین کے ساتھ، اپنی پاسپورٹ سائز واضح تصاویر بھیجیں اور مکمل تعارف اور رابطہ نمبر بھی لازماً تحریر کریں۔
ہماری پوری کوشش ہے کہ اس سلسلے کے ذریعےقارئین کو مختلف امراض اور عوارض سے متعلق جس قدر بہترین، جامع اور درست معلومات فراہم کرسکتے ہیں، ضرور کریں، مگر بعض اوقات ڈاک سے موصول ہونے والی کچھ تحریروں میں لکھی جانے والی مخصوص طبّی معلومات یا کسی ابہام کی تصحیح یا درستی کے لیے مضمون نگار سے براہِ راست رابطہ ضروری ہوجاتا ہے، لہٰذا تمام مضمون نویس اپنی ہر تحریر کے ساتھ رابطہ نمبر ضرور درج کریں۔ اپنی تحریریں اس پتے پر ارسال فرمائیں۔
ایڈیٹر، سنڈے میگزین، صفحہ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘روزنامہ جنگ،
شعبۂ میگزین،اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی۔
ای میل: sundaymagazine@janggroup.com.pk