• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اجتہاد … 

میاں محمد نواز شریف اس وقت پاکستانی سیاستدان کا واحد نام ہیں جو سب سے زیادہ تحمل ،صبر اور شکر کے دور سے گزر رہے ہیں،میرا خیال ہے کہ جتنا پاکستانی سیاست میں میاں نواز شریف کو ستایا گیا، ہٹایا گیا، تنگ کیا گیا کسی اور کیساتھ ایسا نہیں کیا گیا، اتنا کچھ ہونے کے باوجود کبھی انہوں نے ایک حد سے زیادہ گفتگو نہیں کی،ہمیشہ اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے آگے بڑھے ہیں، نہ انداز بدلا نہ تعلقات بدلے، نہ دوست بدلے، یاروں کے یار ہیں،تعلق نبھانا خوب جانتے ہیں ،وہ واحد سیاسی لیڈر ہیں جن کو سب سے زیادہ رسواکرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اورحضرت محمد نواز شریف کی جرات وبہادر ی کی بنیاد پر ہی پاکستان اس وقت ایٹمی پاور کا حامل ہے ۔دل کی گیرائی اور گہرائی کی ملکیت سے مالا مال ہیں ،حضرت سلطان باہو نے فرمایا تھا کہ

دل دریا سمندروں ڈونگے کون دلاں دیاں جانے ہو

وچے بیڑے وچے جھیڑے وچے ونجھ مہانے ہو

اسی مصدق پر وہ پورا اترتے ہیں، میاں محمد بخش رحمہ اللہ کے کلام کو بھی میاں محمد شریف بڑے شوق سے سنا کرتے تھے، صوفی کلام سننے کی عادت تو انہیں دالگراں چوک سے پڑھ گئی تھی، اولیاء سے پیار کوئی ان سے سیکھے جلاوطنی کے دوران جب وطن واپس آئے تو ایئرپورٹ سے داتا دربار کے اندر جاکر سلام عقیدت پیش کیا۔ انکی کئی ادائیں ایسی ادائیں ہیں جو دل کو بھا لیتی ہیں ،میاں صاحب کے جو مہمان بنتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہمیشہ آلو گوشت بار بار مہمان کو ڈال کر پیش کرنا انکی خاندانی عظیم عادت ہے۔40 سال میں کئی بار ان کیخلاف سازشوں کے جال بچھائے گئے ،تین بار وزیر اعظم بنے، جنہوں نے نواز شریف کی سیاست ختم کرنے کا کہاتھا وہ خود ختم ہو رہے ہیں ،وہ اپنی بیٹی مریم نواز کو ہمیشہ کام کام اور کام کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ بہرحال اس وقت صدر پاکستان آصف علی زاردی سمیت جتنی سیاسی کھیپ موجود ہے ان میں سب سے زیادہ سینئر وہ ہیں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ اس وقت میاں محمد نواز شریف کوایک سیاسی اکیڈمی کہناتو چھوٹی بات ہے میرے ذرائع کے مطابق جنید صفدر جس یونیورسٹی کو بنانے فجار ہےہیں ان کو چاہئے کہ وہ اپنے نانا کے نام پر حضرت محمد نواز شریف یونیورسٹی بنائیں اور ناناجان کو وائس چانسلر آف پریکٹس بنائیں۔

مارے دوست واصف صاحب نے سہیل وڑائچ صاحب سے سوال کیا کہ وہ کون سا سیاستدان ہے جو وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم بھی رہا ہو لیکن نارمل انسان کے رویہ سے سرشار رہا ہو یعنی طاقتور ہونے کے باوجود متکبر نہ ہوا ہو تو انہوں نے چند لمحات سکوت کے بعد لمبا سانس لیا اور پھر کہا کہ میں نے 1985 ء سے 2025ء تک بالخصوص پنجاب کے تمام وزرا اعلیٰ اور وزرائے اعظم کو قریب سے دیکھا ہے مجھے ان میں سب سے زیادہ نہ تبدیل ہونیوالے ،نہ لہجے میں تبدیلی لانیوالے، نہ انداز نہ چال چلن بدلنے والا کوئی دیکھاہے تو وہ محمد نواز شریف ہیں۔ ساتھ کہا کہ حالانکہ آج کل وہ مجھ سے ناراض ہیں ،لیکن سچ بولنا میری مجبوری ہے بہرحال ان بڑوں کی مجلس میں بیٹھ کر یہ کالم لکھنے کی طرف میرا دھیان گیا ۔

ان کا تو خیال ہے کہ میاں صاحب سیاست کے اس مقام پر فائز ہیں جیسے بندہ تصوف کی سیڑھی عبور کرتا ہے تو پھر حضرت کی پوزیشن پر فائز ہوجاتا ہے ایسے ہی انکا خیال ہے کہ وہ اب سیاست میں محمد نواز شریف سے حضرت محمد نواز شریف بن چکے ہیں ۔ ہم ایڈیشنل آئی جی شہزادہ سلطان صاحب کےپاس بیٹھے تھے وہاں جاتی امرا کے انتظامی امور کے ماہر میاں غلام مصطفیٰ بتا رہے تھےکہ میں میاں صاحب کے ہمراہ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے گیا تو کھانے کی میز پرداتا دربار کے درویش وملنگ جناب اسحاق ڈار ،حسن نواز ،حسین نواز ،مریم نواز سمیت دیگر اہل خانہ موجود تھےمیاں غلام مصطفیٰ کہتے ہیں کہ اب ان تمام مہمانوں میں عمراور عہدے کے اعتبارسے چھوٹا میں تھا کھانے کی میز پر تمام لوگ بیٹھ چکے تھے میں پیچھے سکون سے کھڑا رہا تا کہ میرے اوپر انکی نظر بھی نہ پڑے ،پھر جب تمام مہمان بیٹھ گئے تو میاں صاحب نے مجھے آواز دے کر اپنے پاس بلایا اور کہا کہ آپ میرے پاس بیٹھ کر کھانا کھائیں۔ اسکے علاوہ مفتی محمد قیصرشہزاد نعیمی جو مسلم لیگ ن علما ومشائخ ونگ لاہور کے صدر ہیں انہوں نےبھی کئی باتیں حضرت محمد نواز شریف کی مجھے بتائی ہیں ۔

مجھے یاد ہے کہ میرے والد گرامی حکیم محمد امین رحمہ اللہ سیاسی راہنماؤں کے حوالے سے دو دفعہ زندگی میں روئے تھے ایک دفعہ جب جنرل محمد ضیاالحق شہید ہوئے تھے دوسری بار اس وقت آپ کو روتے ہوئے دیکھا جب حضرت محمد نواز شریف کو جنرل پرویز مشرف نے جلا وطن کیا تو آپ خوب روئے کہ میاں محمد شریف خوش نصیب آدمی ہیں جنہوں نے اپنے بیٹوں کی رزق حلال سے تربیت کی اور اللہ نے بالآخر اپنے گھرخانہ کعبہ اور اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر مستقل بلا لیا ہے۔ میری محترم نواز شریف سے زیادہ ملاقاتیں تو نہیں ہیں البتہ جب وہ لندن سے واپس پاکستان آئے تو میں نے انکی شان میں جلاوطنی سے وطن واپسی تک کتاب لکھی تو ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی شہید نے جامعہ نعیمیہ لاہور استقبالیہ دیا، میاں محمد نواز شریف اور وزیراعظم محمد شہباز شریف آئے ،میں نے کتاب بڑے میاں صاحب کو پیش کی تو انہوں نے مجھے محبت سے نوازا ۔

اب حضرت محمد نوازشریف سے درخواست ہے کہ وہ بولیں کیونکہ وہ اب بول بھی سکتے ہیں اس وقت انہیں بولنے سے پہلے الفاظ کو تولنا بھی نہیں پڑیگا کیونکہ انکے پاس بولنے کے لئے الفاظ کا ایسا ذخیرہ موجود ہے جو کسی اور سیاستدان کے پاس نہیں ہے ،ذخیرہ الفاط کا مقصد یہ ہے کہ وہ جس صبر وتحمل کے الفاظ کے ذخیرہ کا استعمال کر سکتے ہیں کوئی اور نہیں کر سکتا، اس کی وجہ یہ ہے جیسے حسن کا نکھار بناؤ سنگھارسے آتا ہے ایسے ہی الفاظ کا ذخیرہ بھی انسان کو بولنے کے لئے بہت کچھ فراہم کرتا ہے ۔

تازہ ترین