اگرآپ خوش مزاج ہیں اور آپ کی ملاقات کسی ایسے بندے سے ہو جائے جسکی حس ِلطافت مائنس پچیس ہو تو صورتحال کیا ہوگی؟ مجھے آئے دن ایسے صاحبان سے ملنے کا اتفاق ہوتارہتاہے۔ ایک دفعہ چوبرجی کے قریب ایک بلندوبالا بلڈنگ بن رہی تھی۔میں اتفاق سے قریبی ورکشاپ میں گاڑی کا کچھ کام کروا رہا تھا۔ وہاں ایک اورصاحب بھی اسی سلسلے میں تشریف لائے ہوئے تھے۔ ہم دونوں ورکشاپ کے ویٹنگ ایریا میں بیٹھے تھے۔ کرنے کو کچھ تھا نہیں لہٰذا ہلکی پھلکی بات چیت شروع ہوئی۔ انہوں نے بتایاکہ سامنے والی زیرتعمیر بلڈنگ میں ابھی لفٹ نہیں لگی لہٰذا مزدور بڑی مشکل سے اوپرکی منزل تک آتے جاتے ہیں۔ میں نے ازراہ تفنن ایک پرانا لطیفہ اس بلڈنگ پر فٹ کرتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ اس بلڈنگ کے ٹاپ فلور پرایک بندہ کھڑا تھا۔ نیچے سے کسی اجنبی نے اسے اشارہ کرکے بلایا۔ بندہ بیچارا چھ منزلیں اترتا ہوا نیچے آیا تو نیچے والے نے ہاتھ پھیلا کر کہا ’اللہ کے نام پہ بابا‘۔ بندے کوغصہ توبہت آیالیکن اس نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور فقیر سے کہا آؤمیرے ساتھ۔ فقیر ساتھ چل پڑا۔ دونوں ہانپتے کانپتے چھ منزلیں چڑھ کرچھت پرپہنچے توبندے نے فقیر سے کہا ’معاف کرو‘۔ لطیفہ سنتے ہی انہوں نے تاسف کا اظہارکیااورفرمانے لگے کہ’اگر ایک بندے نے زیادتی کرہی دی تھی تو دوسرے کو چاہئے تھا کہ وہ درگزر کر دیتا۔‘ اُنکی یہ بات سنتے ہی میں نے قسم کھالی کہ دوبارہ اس ورکشاپ کے قریب بھی نہیں پھٹکوں گا۔
٭٭٭٭
اکثر سنجیدہ طبع لوگ اپنے خاموش رہنے کی عادت کی وجہ سے دانشور دانشور سے لگتے ہیں حالانکہ انکے اندر ایک سے ایک ’مہاچول‘ چھپا ہوا ہوتا ہے۔ یہ چونکہ بولتے نہیں لہٰذا کھلتے نہیں۔ لیکن اگر کوئی ایسا موقع آجائے جہاں انہیں زبان کھولنی پڑجائے توایک دو جملوں کے بعد ہی پتا چل جاتا ہے کہ اِنکا خاموش رہنا معاشرے اورخود اِن کیلئے کتنا مفید ہے۔ ایسے ہی ایک صاحب میرے ایک دوست کیساتھ میرے آفس آیا کرتے تھے۔ میں دوست سے گھنٹوں گپ شپ کرتا رہتا لیکن یہ انتہائی متانت سے بیٹھے رہتے۔ چائے کافی آتی تو ہلکے ہلکے سپ لیتے، بسکٹ نہایت نزاکت سے توڑتے اور کوشش کرتے کہ پورا وقت ایک ہی پوز میں بیٹھے رہیں۔ چہرہ ایسا دانش بھرا تھا کہ لگتا تھا کہ ڈیڑھ درجن فلاسفرز گھوٹ کر پی چکے ہیں۔ ایک دن دوست کو کوئی کال آگئی اور وہ تھوڑی دیر میں واپس آنے کا کہہ کر نکل گیا۔ یہ صاحب وہیں بیٹھے رہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ کوبھی شاعری، صحافت یا ڈرامے سے کوئی دلچسپی ہے۔ انہوں نے ہلکا سا کھنکارا اور گویا ہوئے ’جی میں صرف اچھے شاعروں کو پڑھتاہوں‘۔ میں شدید متاثرہوگیا اور پوچھا کہ کس شاعر کے کلام سے دلچسپی ہے۔انہوں نے اطمینان سے کافی کا کپ اٹھایا، ہلکا سا گھونٹ بھرا اور عینک درست کرتے ہوئے بولے ’فیض اسلام فیض مجھے بہت پسندہیں‘۔ میں نےغور سے انکی طرف دیکھا اور پوچھا ’پھر تو آپ کو امجد ندیم قاسمی‘ بھی پسند ہونگے۔ تھوڑا سا سوچ کر بولے’ہاں کسی حدتک‘۔
٭٭٭٭
بہاولپور ایک پرامن، محبت کرنیوالا اور پیار بانٹنے والا شہر ہے۔ اس شہرسے مجھے خاص انس ہے۔ پچھلے ہفتے یہاں اسلامیہ یونیورسٹی کے اردو ڈپارٹمنٹ کی طرف سے ’فیض ادبی میلہ‘ کے نام سے چوتھا سیزن سجایا گیا۔ سخت سردی میں بھی یہاں اہل قلم کی کثیر تعداد موجود تھی۔ اس ایونٹ کو آرگنائز کرنے میں اردو ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ اور میرے ملتان کے دیرینہ و محنتی دوست عامر سہیل اور انکی ٹیم نے انتھک محنت کی تھی۔ یہاں مختلف موضوعات پرڈسکشن کااہتمام کیا گیا تھا اور حیرت انگیز طور پر ہال آڈینس سے بھرا ہوا تھا۔ احباب کے نام چونکہ بہت سے ہیں اسلئے فرداً فرداً لکھنے کامطلب اپنی موت کو دعوت دینا ہے کیونکہ جو نام بھی رہ گیا اس نے مجھے نہیں ر ہنے دینا۔ سخت سردی کے باوجود اہل بہاولپور اور وی سی صاحب کی گرمجوشی نے سب اہل قلم کو گرمائے رکھا۔ دو دن کی مصروفیات کے بعد واپسی پر تھکن سے برا حال تھا لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ ٹرین کی برتھ پر سوتے ہوئے سفر کرونگا۔ گرین لائن ٹرین کا بہت سنا تھا اسلئے بزنس کلاس کی بکنگ کروائی، یہ ٹرین تیز رفتار بھی ہے اور اسکے اسٹاپ بھی کم ہیں۔ تاہم لاہور کے قریب پہنچنے پر پتا چلا کہ یہ کوٹ لکھپت یا کینٹ اسٹیشن پر نہیں رکتی بلکہ سیدھا سٹی اسٹیشن جاتی ہے۔ یہ میرے لئے ہولناک خبر تھی۔ کیونکہ سٹی اسٹیشن سے دوبارہ اپنے گھر تک آنے کا مطلب تھا مزید ایک گھنٹہ سفر میں گزرے۔ لاہور بہت بڑا ہوچکا ہے لہٰذا جن لوگوں کو کینٹ یا کوٹ لکھپت اسٹیشن قریب پڑتا ہے انکی سہولت کیلئے یہاں اس ٹرین کا ایک آدھے منٹ کا اسٹاپ ضرور ہونا چاہئے۔
٭٭٭٭
گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کے اجلاس میں کسی رکن کے پیسے گرے ہوئے ملے۔ اسپیکر ایاز صادق نے پوچھا کہ کسی کے پیسے گرے ہیں؟ تو آگے سے بارہ پارلیمنٹیرینز نے ہاتھ کھڑے کر دیئے۔ اشفاق احمد مرحوم نے ایک دفعہ کمال کی مثال دی تھی۔ کہنے لگے کہ اگر آپ کبھی انارکلی بازار میں جارہے ہوں تو بڑا رش اور شور ہوتا ہے لیکن کوئی کسی شور کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، سب اپنے اپنے حال میں مست ہوتے ہیں لیکن اس شور کے دوران آپ کچھ سکے زور سے زمین پر پھینکیں تو بیشتر لوگ یکدم پلٹ کر زمین کی طرف دیکھیں گے۔ ایسا اسلئے ہے کہ ہم لوگ سکّوں کی آواز سے ٹیون ہیں۔ ہمیں پتا ہے کہ یہ شور سب سے منفرد اور صرف پیسوں کا ہے۔ قومی اسمبلی کے وہ بارہ اراکین جنہوں نے جھٹ سے ہاتھ اٹھا دیئے ممکن ہے انہیں اسپیکر کے اعلان کی سمجھ نہ آئی ہو اور انہوں نے سمجھا ہو کہ کسی کے بھی پیسے کہیں بھی گرے ہوں تو شاید یہاں سے Reimbursement ممکن ہے۔ سوشل میڈیا پرکسی من چلے نوجوان نے پرینک کیاکہ پہلے وڈیو میں پانچ ہزارکا نوٹ دکھایا اور پھر جان بوجھ کر سڑک پرپھینک دیا۔ جونہی کچھ لوگ وہاں سے گزرے اس نے جلدی سے بھاگ کر نوٹ اٹھایا اور خوشی سے بتانے لگا کہ مجھے پانچ ہزار کا نوٹ ملاہے۔ یہ سنتے ہی آس پاس کئی لوگ جمع ہوگئے کہ نوٹ ہمارا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک صاحب نے قسم تک اٹھا لی کہ و ہ گھر سے ماں کی دوائیاں لینے نکلا تھا لیکن اسکی جیب سے یہ نوٹ گر گیا۔ بعد میں جب لوگوں کو وڈیو دکھائی گئی تو ایک بھی شرمندہ نہیں ہوا۔